اسد عمر: پاکستان کی سیاسی تاریخ اور بھتیجے


ہمارے خاندان کی پرم پرا اور روایات کے مطابق بیٹوں اور بھتیجوں میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا، بھتیجوں کو خاندان کی شان سمجھا جاتا ہے اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے، انہیں تگڑا کرنے اور انکی غلطیوں سے صرف نظر کرنے میں کسی قسم کی شرم یا عار محسوس نہیں کی جاتی بلکہ اسے اپنے خاندان کی عزت و وقار میں بڑھاوا تصور کیا جاتا ہے۔

اللہ نظر بد سے بچائے ہمارے بھتیجے ہوتے بھی میرٹ پر ہیں، پڑھے لکھے ہوتے ہیں بیرون ملک سے ڈگریاں لیتے ہیں، اچھے سکولوں میں پڑھتے ہیں چھاؤنی کے ماحول میں پرورش کی وجہ سے ان کے اندازو اطوار میں ایک خاص وقار بھی آجاتا ہے، ان کی سب سے بڑی خوبی بہر حال سچے اور پکے محب وطن ہونا ہے۔

وطن سے محبت ان کے خون میں ہے اس لئے اگر وہ کچھ غلط بھی کریں تو ان کی نیت بہر حال ٹھیک ہوتی ہے۔ آج کل ہمارے بھتیجے اسد عمر کا دور ہے۔ حاسدین کو چھوڑیں وہ تو جلن کی وجہ سے ان کے خلاف ہیں وگرنہ اس معیار کا کوئی بھی بندہ پاکستان میں ہے ہی نہیں۔ اس کی تعلیم دیکھیں آئی بی اے کراچی کا پڑھا ہوا ہے ابھی طالب علم ہی تھا تو اس کے اساتذہ نے اسکے علم و فضل کی تعریف شروع کر دی تھی۔

ہمارے بڑے بھائی جنرل (ر)غلام عمر خود بہت بڑے دانش ور تھے، جنرل یحیٰ خان انہی کے مشوروں پر چل کر بڑے بڑے عظیم کارنامے سر انجام دیتے رہے، بڑے بھائی جنرل (ر) غلام عمر نے اپنی ساری دانش اپنے سب سے قابل صاحبزادے اسد عمر کو منتقل کر دی، اسی لئے ہم سب کو اپنے اس بھتیجے پر بے انتہا فخر ہے وہ بولتا ہے تو سب کو مسحور کر دیتا ہے، Presentationدیتے ہوئے وہ باقاعدہ اداکاری کرتا ہے مجمع اس کے جادو کے سامنے بے بس ہو کر تالیاں بجاتا ہے۔

بھتیجے اسد عمر کے قصیدے تو عمران خان بھی پڑھتا ہے عمران خان اسکے تجربے ، علمیت اور سب سے بڑھ کر اس کی گفتگو سے بہت متاثر ہے اس لئے وہ اسد عمر کے ناقدین کو ڈٹ کر یہ جواب دیتا ہےکہ ‘حکومت تو چلا ہی اسد عمر اور میں رہے ہیں باقی توسب عیاشی کر رہے ہیں‘۔

ہمارے بھتیجوں نے پاکستانی سیاست میں پہلے بھی بڑا نام کمایا ہے یہ سلسلہ شروع تو گوہر ایوب خان سے ہوا مگر بعد میں اعجاز الحق اور ہمایوں اختر بھی اس گلدستے میں شامل ہوگئے، گوہر ایوب خان کے والد کو کون نہیں جانتا وہ نئے پاکستان کے معمار تھے۔ انہوں نے صنعتیں لگائیں اور ڈیم بنائے، ٹھیک ہے اس کے نتیجے میں 22 خاندان پیدا ہوئے اور ہمیں دو دریاؤں کی قربانی دینا پڑی مگر ملک تو آگے بڑھا اس عظیم شخص نے موروثی سیاست کے خلاف علم بلند کیا اور قائد اعظم کی بہن فاظمہ جناح کو شکست دیکر نئے پاکستان کو مزید مستحکم کیا۔ مرد آہن ایوب خان نے اپنے قابل اور فوجی تربیت یافتہ ریٹائرڈ کیپٹن گوہر ایوب کو میدان سیاست میں اتارا۔

کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ گوہر ایوب خان میں وہ سارےاوصاف موجود تھے جو ملک کو چلانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں مگر بد قسمتی سے ملک کے لوگ ان کی اچھی نیت کو سمجھ نہ سکے اور ان کے جشن فتح کو غلط رنگ دے دیا، لیکن پھر بھی وہ وزیر خارجہ، وزیر پانی و بجلی اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے پر رہے۔ اس دوران انہوں نے جو کارہائے نمایاں سر انجام دیے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جا چکے ہیں۔

اسد عمر، عمران خان

جنرل ضیاء الحق کی گراں قدر خدمات سے سارا عالم اسلام واقف ہے، انہوں نے ملت اسلامیہ کے درد میں جس طرح امریکہ کو جھانسا دیکر کفر والحاد کی علامت روس کو افغانستان میں شکست دی جب اس عظیم فرزند کا جہاز ہوا میں پھٹا اور اغیار کی سازشوں سے ان کا جسد خاکی بھی آگ کے شعلون کی نذر ہوا تو کئی بد نیتوں نے اس موت کو ہیروئین اور کلاشنکوف کلچر کا منطقی انجام قرار دیا مگر پوری قوم نے جمع ہو کر شہید ضیاءالحق کو سلامی دی اور بجا طور پر ان کے موڈی صاحبزادے اعجاز الحق کو ان کا جانشین بنایا، درمیان میں نواز شریف نے بہت کودنے کی کوشش کی لیکن اصلی بیٹا بہرحال اصلی ہوتا ہے، اس لیے ضیاء الحق شہید کے اصلی وارث بہر حال اعجاز الحق ٹھہرے۔

نواز شریف آخر میں غدار ہی نکلا کیونکہ بہرحال سویلین تھا، ہم نے اس سے بہت پہلے سکندر مرزا کو اعزازی میجر جنرل بنا کر اسے اقتدار سو نپا تھا اور اس کے ذریعے جمہوری نظام لپیٹا تھا مگر وہ بھی ویسا ہی نکلا ہم جونیجو، بھٹو اور نواز شریف کو بڑے پیار سے آگے لائے۔ بھٹو سے ہماری بڑی امیدیں وابستہ تھیں اس نے ایٹمی پروگرام سے ہمیں مضبوط بنایا مگر 1973کے آئین میں آرٹیکل 6 شامل کر کے اپنے محسنوں سے غداری کی۔ حالانکہ ایوب خان سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک ہمارے خاندان کے جتنے بھی لوگوں نے مداخلت کی ہے مجبوری میں کی ہے اگر وہ نہ آتے تو سویلین ملک ہی کو ڈبو دیتے ان سب میں کوئی موروثی بیماری ہے یہ بیساکھیوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آتے ہیں کوئی ہمارا تیسرا بیٹا بن جاتا ہے تو کوئی ہمیں ڈیڈی کہتا ہے اور کوئی ہمارے قدموں میں بیٹھ کر منتیں کرتا ہے مگر جب اقتدار میں آتے ہیں تو یہ آنکھیں پھیرلیتے ہیں۔

عمران ہی کو دیکھ لیں کہ یہ کیسے اقتدار میں آیا ہے لیکن اس کے کئی ساتھی نئی نئی بولیاں بول رہے ہیں۔ دل کڑھتا ہے اور خدشات جنم لے رہے ہیں کہ یہ بھی کہیں پرانی والی بیماری کا شکار نہ ہو جائے۔

ہمارا ایک اور بھتیجا ہمایوں اختر خان بھی بہت ہی پڑھا لکھا سجیلا جوان ہے جنرل پرویز مشرف اور طارق عزیز تو اسے وزیر اعظم بنانے ہی والے تھے مگر ہمارے اس بھتیجے کے نصیب ہی خراب تھے۔ چودھری آڑے آ گئے اور یوں بات نہ بن سکی مگر ابھی وہ ریزرو میں ہے کسی بھی وقت پھر اُبھر آئے گا۔

باقی رہی اسد عمر کی بات، تو ہمارا یہ بھتیجا، اگر مزید موقع ملتا تو ہماری معشیت کے سارے کس بل نکال دیتا۔ بے شک مہنگائی اور افراط زر بڑھ جاتی لیکن یہ فرزند پنجاب و کراچی (اسکے والد کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا) نظام ٹھیک کر کے رہتا۔ غریب پس جائیں یا لوگوں کو تنخواہیں نہ ملیں۔

پٹرول مہنگا ہو یا سستا، اسد عمر اکانومی کو توازن میں لا کر ہی دم لیتا۔ ہمارا یہ بھتیجا سول ملٹری تنازعات کو ختم کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے کیونکہ یہ ملٹری کی ضروریات اور اہمیت سے پوری طرح واقف ہے اس لئے لازمی طور پر بجٹ میں پہلے ہمارا حصہ نکالتا باقی شعبوں کو بعد میں دیکھتا۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے بھتیجے کی پالیسیاں ٹھیک نہ ہوں۔ ان کے نتائج بھی خراب نکلیں مگر یہ دوسروں کے بھتیجوں بلاول، مریم اور حمزہ سے پھر بھی ہر لحاظ سےبہتر ہے کیونکہ یہ ہمارا بھتیجا ہے اور ہمیں اپنی پرم پرا کا بہت خیال ہے اور یہ بھی کہ صرف اور صرف ہم ہی محب وطن ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سہیل وڑائچ

بشکریہ: روز نامہ جنگ

suhail-warraich has 34 posts and counting.See all posts by suhail-warraich