گلگت بلتستان میں جنسی زیادتی کے مقدمات میں بروقت فیصلوں کا احسن اقدام


عدالتی نظام کسی بھی ریاست میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر ریاست میں جزا اور سزا کا نظام صاف اور واضح نہ ہو تو طاقتور کے ظالم بننے میں کوئی روک نہیں ہو سکتی۔ اور ایسی ریاست میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا نظام چلتا ہے۔ سستا اور فوری انصاف عدالتی نظام کا اہم جز اور بنیادی ذمہ داری ہے، مگر بدقسمتی سے سستا اور فوری انصاف اتنا عام نہیں ہے کہ اس کی شان بیان کی جاسکے۔ البتہ عدالتی نظام میں موجود تاخیری حربے عمومی طور پر پائے جاتے ہیں جس کی متعدد وجوہات ہوسکتے ہیں۔

کسی ظالم کے ہاتھوں لٹنے والے دادرسی کے لئے عدالت کو اپنی آخری امید ہی سمجھتے ہیں۔ اگر عدلیہ بروقت فیصلہ سناتی ہے تو معاشرے میں ایک معیار قائم ہوتا ہے اور کسی کے ساتھ ظلم اور حد سے زیادہ طاقت کا تصور گھٹ جاتا ہے۔ پاکستان میں تاخیری انصاف کے متعدد مثالیں سامنے ہیں کہ جن میں فیصلہ حق پر آنے والے بذات خود بھی روئے زمین پر موجود نہیں رہے اور بعض تو دادرسی کے لئے جیلوں میں ہی اپنی زندگی گزار گئے اور جب فیصلہ ان کے حق میں آگیا تو وہ یہ فیصلہ سننے کے لئے موجود بھی نہیں تھے۔

یہی وجہ ہے کہ سستا انصاف ہمیشہ سے ہر حکومت اور ہر سیاسی پارٹییوں کا نعرہ بھی رہا ہے لیکن عملی میدان میں اس حوالے سے اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

سکردو میں 2015 میں ایک اجتماعی زیادتی کا کیس رجسٹرڈ کیا گیا لیکن اس کا فیصلہ چار سال بعد گزشتہ دنوں آیا۔ ملزمان نے 2015 میں مسماة (ز) کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد مدعی کی درخواست پر پولیس نے ملزمان کو گرفتار کر کے استغاثہ پیش کیا۔ تاہم ملزمان ضمانت پر رہا ہو گئے تھے یہ معاملہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں زیر سماعت تھا۔ جس پر ایڈیشنل سیشن جج سید فیصل طاہر نے جرم ثابت ہونے پر دونوں ملزمان تاج محمد اور منیر کو عمر قید کی سنا دیا۔

زیادتی کا دوسرا کیس فروری 2019 کے پہلے ہفتے میں اشکومن کے علاقے تشنلوٹ میں پیش آیا جہاں پر سنگ دل لوگوں نے نہ صرف ایک معصوم کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بلکہ گلے میں چادر کس کر قتل بھی کر دیا اور نعش کو دریا برد کر کے اوپر سے بڑے بڑے پتھر ڈالے گئے تاکہ نعش برآمد نہ ہوسکے۔ اس واقعہ کی ابتدائی درخواست کے مطابق 8 افراد کو گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ لیا گیا تھا۔ انسداد دہشت گردی عدالت میں پولیس نے 16 مارچ کو ملزمان کے خلاف چالان پیش کیا جس کے بعد باقاعدہ جرح اور بحث شروع ہو گئی تاہم انسداد دہشت گردی عدالت گلگت کے جج راجہ شہباز خان نے محض ایک مہینے کے اندر ہی اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چار ملزمان کو پھانسی کی سزا سنا دی۔ جب کہ چاروں ملزمان کو چالیس چالیس برس کی سزا اور 32 لاکھ سے زائد جرمانہ بھی عائد کر دیا۔

گلگت بلتستان کی حد تک محض ایک مہینے میں اتنے اہم کیس کی عدالتی کارروائی مکمل کر کے سزا سنانا سستے، بروقت اور فوری انصاف کی ایک مثال ہے۔ اس کیس کا فوری فیصلہ اس لئے بھی اہم تھا کہ نہ صرف اس واقعہ کو بعض حلقوں کی جانب سے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی بلکہ بعض ’معززین‘ نے دو اضلاع کے مابین ٹکراؤ کی صورت حال بھی پیدا کر دی تھی۔ اس بدترین اور انسانیت سوز واقعہ کا غم ابھی تک بھولا نہیں گیا تھا اور نہ ہی عوامی جذبات ٹھنڈے ہوئے تھے بلکہ یوں کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا کہ میت کی قبر خشک ہونے سے قبل ہی ملزموں کو سزا سنا دی جائے گی۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی جانب سے اب تک سنائے گئے فیصلوں میں سزائے موت کا یہ 69 واں کیس ہے۔ اس سے قبل 65 افراد کو انسداد دہشت گردی عدالت نے سزائے موت کی سزا سنا چکی ہے۔ تاہم ابھی تک صرف ایک ہی بندے کو پھانسی مل سکی ہے جب کہ متعدد کیسز بالائی عدالتوں میں چیلنج اور زیر بحث ہیں۔

قطع نظر اس کے کہ ملزمان کو پھانسی دی جائے گی یا وہ بری ہو جائیں گے، معاشرے میں امن و امان کے قیام اور طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لئے عدالتوں سے ایسے فیصلے بروقت سنانا انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔ مذکورہ کیس کے متعلق ایک وکیل صاحب کا کہنا تھا کہ فیصلے میں قانونی نقائص موجود ہیں جنہیں بالائی عدالتوں میں چیلنج کیا جاسکتا ہے لیکن ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ ایسے گھناؤنے فعل میں ملوث افراد کو کم از کم ابتدائی طور پر ایسی سزا ہی دی جانی چاہیے، انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو وکیل صاحب نے بھی سراہا۔

اشکومن میں معصوم کے ساتھ جنسی درندگی اور قتل کے اس کیس کے دو بدترین پہلو ہیں، جو معاشرتی سطح پر سوچنے کے لئے نہایت اہم ہیں۔ اول یہ کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی، اور تاریخ گواہ ہے کہ جب کبھی بھی کسی بھی معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے تو اس کے پیچھے منظم سوچ رہی ہے اور ان کا ایجنڈا ’سیاسی مفاد‘ رہے ہیں۔ دوسرا بدترین پہلو یہ بھی ہے اب تک چار افراد پر جرم ثابت ہو گیا ہے۔ ان چار میں سے 2,2 ملزمان آپس میں سگے بھائی ہیں۔ گلگت بلتستان جیسے معاشرے، جہاں پر ماضی میں کم از کم انسانیت سوز واقعات رونما نہیں ہوتے تھے، وہاں پر ایک ایسا واقعہ پیش آنا یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ معاشرہ زوال پذیر ہو رہا ہے، لیکن مصلحین کو اپنی ’مفادات‘ کی فکر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).