پاکستانی سینما: عوام کی تفریح چھن جانے کا سانحہ


لہٰذا ان کے لیے وہی بیس روپے سے شروع ہو کرتیس یا چالیس روپے تک ختم ہونے والے ٹکٹ ریٹس رکھے جاتے تھے۔ تب فلمیں ایسی ہوا کرتی تھی کہ ان کی کامیابی کی گونج پورے ملک میں سنائی دیتی تھی، فلموں کے گانے گلی گلی، گھر گھر سنائی دیتے تھے اور بچے بچے کی زبان پر پاکستانی فلموں کے اداکاروں کے بولے گئے مکالمے رواں ہوا کرتے تھے۔ میڈم نورجہاں، مہدی حسن، رونا لیلی، احمد رشدی اور اس قبیل کے ناقابل فراموش ان گنت گانے والے فلموں کے ذریعے ہی عوام تک پہنچے ہیں اور عوام میں وہ آج بھی اسی طرح مقبول ہیں۔

اس تاریخ کو بصری فنون کا سنگ میل کہنا چاہیے۔ جب سے سنگل سینماز کے انہدام کا سانحہ وقوع پذیر ہوا ہے۔ پاکستانی فلموں کی موسیقی بھی معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں اور موجودہ حالات میں کوئی شادی بیاہ یا اس کے علاوہ کوئی بھی تہوار ہو انڈین فلموں کے گانے ان کے لیے لازم و ملزوم ہیں بصورت دیگر سناٹوں کی گرج کسی بھی خوشی کی تقریب کو قبرستان کی سی خاموشی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ لیکن پھر ہوتا یوں ہے کہ دونوں طرف کوئی بھی نقض امن کا واقعہ رونما ہوجاتا ہے اوردونوں ملکوں کے حکمرانوں کے اختیارات حرکت میں آتے ہیں، آناً فاناً فلموں اور ڈراموں پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے عوام شادی، یا خوشی کی کسی بھی تقریب کو انھی فلموں کی موسیقی سے نہلاتے نظر آتے ہیں جن پر پابندی لگی ہوئی ہے۔ یہ نہ کریں تو بتائیے کیا کریں؟

فلموں پر لگنے والی پابندی سے ایسے عوام کو تو کوئی فرق نہیں پڑا جو فلموں کو یوٹیوب یا پھر غیر قانونی ڈی وی ڈیز کے ذریعے دیکھتے چلے آرہے ہیں کہ ان کی اکثریت ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے جو سات سو سے ہزار روپے تک کا ٹکٹ لے کر فلم دیکھنے کی استطاعت سے محروم ہیں۔ اور یہ وہ ہی ہیں جن سے سینما میں فلم دیکھنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔

ترقی یافتہ ملکوں کی ٹیکنالوجی در آمد کرنے والے سرمایہ دار کبھی یہ نہیں سوچ سکتے کہ کسی بھی ملک کی کتنے فیصد آبادی ان کی ٹیکنا لوجی سے مستفید ہوسکتی ہے اور ان کے اقدامات سے کتنے لوگوں سے ان کی واحد تفریح بھی چھن سکتی ہے۔ وہ توجتنی بڑی مارکیٹ ہوتی ہے اسی کے حساب سے منافع کی شرع کا تعین کرتے ہیں اور اس کے بعد موجاں ہی موجاں۔

سرمایہ کار کو اپنے منافع سے غرض ہے، اس کی بلا سے کتنی آنکھوں کے خواب ویران ہوئے اور کتنے دلوں کی دھڑکنوں کے ساز خاموشی میں اتار دیے گئے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی ٹیکنالوجی لانا غلط ہے نا ہی اس کا استعمال قابل مذمت ہے۔ قابل مذمت ہے تو یہ سوچ کہ اپنے فائدے کے لیے کسی کو کتنا ہی بڑا نقصان کیوں نہ پہنچ رہا ہو اس کی سرے سے پرواہ ہی نہ کی جائے۔ جن ملکوں میں ملٹی پلیکس سینما کا رواج ہے وہاں کے شہریوں کی آمدنی اور طرز زندگی کا جائزہ لیجے تو اندازہ ہوگا کہ ایسی عیاشیاں ان کے لیے تو موزوں ہوسکتی ہیں لیکن پاکستان جیسے ملکوں میں یہ کیسے برحق ہو سکتی ہیں؟

حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ صرف استطاعت رکھنے والے افراد کی تفرح طبع کا خیال ہی نہ رکھے غریب اور مفلکوک الحال شہریوں کا بھی کچھ تودھیان کرے، کیونکہ حکومتیں بنتی تو انھی پسے ہوئے نچلے درجے کے ستر فیصد سے بھی زیادہ ووٹرز کی حق رائے دہی سے ہیں مگر حکومتیں بن جانے کے بعد ان کا خیال کرنے والا کوئی حکمراں کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ حکمراں کرتے ہیں تو یہ کہ مہنگائی میں اضافہ کرتے ہیں اور ایسی ہر چیز کو عوام کی پہنچ سے دور کرتے چلے جاتے ہیں جو پہلے کبھی ان کی دسترس میں ہوا کرتی تھی، فلموں کے معاملے میں بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ملٹی پلیکیس کی بلند دیو ہیکل عمارتیں ان غریب شہریوں کی آرزؤ ں کی قبر پر بنائی گئی ہیں جو کبھی فلم اور فلم انڈسٹری کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔

آج کسی چھابڑی والے سے پوچھ کر دیکھئے کہ اسے کون سی فلم کی ایکٹریس یا ایکٹر پسند ہے تو وہ جواب دیتا ہے ریما اور شان یعنی نچلے درجے کا غریب فلم بین اسی عہد میں رکا ہوا ہے جب ریما اور شان کی فلمیں تواتر سے آیا کرتی تھیں یا پھر اس سے پہلے کے فلمی فنکاروں کی محبت اس کے دل میں اب تک زندہ محسوس ہوتی ہے لیکن ملٹی پلکیس سینماز کے فیشن کے آجانے کے بعد یہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی بننے والا فلم بین جانتا ہی نہیں ہے کہ اب فلموں میں کون کون سی پریوں کی جلوہ سامانی ہے اور کن کن جوان گھبروؤں نے فلم کے پردے پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ ملٹی پلیکس سینماز کے آجانے کے بعد سے سینما اور ٹی وی کے فنکاروں کا فرق ختم ہوتے ہوتے اب تقریباً مٹ چکا ہے اسی لیے اب فلم کے فنکاروں کو دیکھنے کی خواہشوں میں وہ پہلا جیسا جوش جنون بھی کہیں دکھائی نہیں دیتا!

کیا حکومت کو فلم اور سینما کے بزنس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس امر کا پابند نہیں بنانا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ہر شہری کی تفریح طبع کا خیال کرتے ہوئے اپنے بزنس کو آگے بڑھائیں؟ اب اس پر کیا سردھنیں کہ موجودہ ملٹی پلیکس سینماز کی آمدنی کا بڑا ذریعہ انڈیا کی فلمیں ہوا کرتی ہیں جن پر لگنے والی پابندی نے ان تاجروں کی راتوں کی نیندیں اڑائی ہوئی ہیں۔ ایسے حالات میں اگرغریب فلم بین کی تفریح کا بھی خیال رکھا جاتا تو کیا سینما انڈسٹری کو ایسے سانحات سے دوچار ہونا پڑتا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2