پاکستانی سینما: عوام کی تفریح چھن جانے کا سانحہ


عام اور غریب لوگوں سے سینما کو دور کرنے اور انھیں ان کی واحد تفریح سے الگ کرنے کا جو منصوبہ سینما مالکان اور سینما کا کاروبار کرنے والے کرتا دھرتاؤں نے بنایا تھا، اس میں انھیں شروع میں تو کسی قدر کامیابی ملی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ فلموں کی کامیابی اور ناکامی کا پرانا طریقہ کار بدل دینے سے بہت سے جھنجھٹوں سے نجات مل جائے گی اور کسی حد تک ایسا ہوا بھی۔

سنگل سینما کے کئی مسائل ہوتے ہیں اور انھیں چلاتے رہنا ایک ایسے معاشرے میں کافی دشوار بھی ہے جہاں سینماز کو آگ لگا دی جاتی ہو۔ اور یہ سب غالباً شروع بھی اسی وقت ہوا جب کراچی شہر کا ایک معیاری سینما ہاؤس نشاط جلا دیا گیا۔ اس جلے ہوئے سینما کو کسی تاریخی یاد گار کے طور پر اب بھی اسی طرح خاکستر استادہ رکھا گیا ہے۔ جہاں سے گزرنے والے لاکھوں لوگ اس نظارے سے یہ عبرت پکڑتے ہیں کہ پاکستان میں سینما چلانے کا یہ انجام ہوتا ہے۔

چنانچہ سینما مالکان نے اس واقعے سے یہ سبق حاصل کیا کہ سنگل سینما کا وجود ہی کراچی شہر سے مٹا دینے کی روش پر چل نکلے اور جابجا ملٹی پلیکس سینماز کی بڑی بڑی بلڈنگیں کھڑی کردی گئیں۔ جن میں بیشتر میں شاپنگ مال بھی قائم ہیں اور کسی حد تک یہ سینما اپنی تعمیر میں اس طرح ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ انھیں آگ لگانے والے خود مشکل میں پڑسکتے ہیں کہ کیا جلائیں اور کہاں سے جلائیں۔ علاوہ ازیں ایسا کوئی واقعہ خدانخواستہ پھر کبھی دوہرایا گیا تو صرف سینما ہال ہی نہیں اس کے نیچے اوپر بنے ہوئے شاپنگ مال کو بھی بھاری نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ ایسا ہوا تو نقصان کسی ایک تاجر کا نہیں بلکہ سینکڑوں تاجروں کا ہوگا جو شاپنگ مال میں بزنس کررہے ہیں اور یہ سنگل سینما کے مقابلے میں اتنا بڑا رسک تو ضرور ہے کہ ایسا کوئی واقعہ خدا نخواستہ رونما ہوجاتا ہے تو نشاط سینماکے واقعے کی طرح حکومت وقت بے حسی سے خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرسکے گی۔ اسے واقعتاً کوئی نہ کوئی ایسا ایکشن ضرور لینا پڑے گا جس سے نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔ نشاط سینما کے معاملے میں ایسا شاید نہیں کیا گیا۔ کہتے ہیں نہ ہی سینما مالکان کو تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی اور نہ ہی ان کے نقصان کو خاطر میں لایا گیا۔

ملٹی پلیکس سینماز کے قیام میں تاجروں نے اس امر کا بخوبی خیال رکھا ہے کہ ان کا قیام ایسے علاقوں سے دور رکھا گیا ہے جہاں پبلک اجتماعات اور سیاسی، مذہبی مظاہرے عموماً برپا ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ ان سینماز کا جادو شروع شروع میں سرچڑھ کے بولتا رہا ہے۔ جدید اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرز پر قائم کیے گئے یہ سب ہی سینماز ایسی ٹیکنا لوجی کے مرہون منت ہیں جس کا نظارہ ان سینما کے قیام سے پہلے پاکستان میں کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

اسی لیے ان سینما کے قیام کو سینما اور فلم دونوں کے لیے جدید عہد کی طرف پیش قدمی سے تعبیر کیا گیا اور سب ہی طبقوں میں اس جدت طبع کو تعریفی نظروں سے دیکھا گیا، ہر طرف چرچے ہوتے دیکھے اور سنائی دیے۔ ابتدا میں سات سو سے ہزار روپے تک کا ٹکٹ بھی سینما کی جدید طرز تعمیر خواب آگیں نظارے۔ خودکار زینوں، مہنگے کولڈ ڈرنکس اور پارپ کونزاور چائے کافی کی ہوشربا قیمتیں اس لیے زیادہ نہیں معلوم ہوئیں کہ یہ نظارہ اتنا دلفریب تھا کہ سب کچھ آنکھوں کو خیرہ کیے دیتا تھا۔

یعنی پاکستان کی ایک اوسط فیملی اگر فلم دیکھنے کا ارادہ باندھے تو اس کے لیے یہ لازمی ہے کہ پانچ سے سات ہزار اسے خرچ کرنا ہوں گے۔ پاکستان کی آبادی کے ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ گھروں کی یہ پورے یا آدھے مہینے کی کمائی ہوسکتی ہے۔ لیکن چونکہ ان سینما کو جس کاروباری سوچ کے ساتھ زمین پر اتارا گیا ہے اس میں یہ کہیں غلطی سے بھی نہیں سوچا گیا کہ اس طرح کے سینما کے قیام کی وجہ سے پاکستان کی ساٹھ فیصد سے بھی زیادہ آبادی کو فلم دیکھنے کی تفریح سے محروم کیا کردیا گیا ہے۔ اور اب تو ایسے افراد بھی سینما جانے کے لیے پہلے کی طرح تیار نہیں ہوتے جو یہ اخراجات افورڈ کرسکتے ہیں۔

دنیا بھر کے انسانوں کے لیے اور بالخصوص پاکستان جیسے ملکوں کے شہریوں کے لیے ”تبدیلی“ لفظ میں ایسی مقناطیسیت ہے کہ اس ایک لفظ کی خاطر وہ اپنا کچھ بھی قربان کرنے کو تیار ہوسکتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ستر سال سے سکھ شانتی اور خوشحالی کو ترسے ہوئے عوام ہر تبدیلی کو سونا سمجھتے ہیں خواہ وہ پیتل سے بھی زیادہ ہیچ کیوں نہ ہو اور ہر سراب کو آب حیات سمجھنے کو تیار ہوجاتے ہیں بعد میں چاہے انھیں پانی کے بدلے زہر ہی کیوں نہ پینا پڑے۔

ایسا ہی ہوا ہے سینما اور فلم انڈسٹری کے ساتھ، پاکستانی فلمیں جو ہمیشہ پہلے ان ستر فیصد سے بھی زیادہ عوام کو پیش نظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی تھیں جو اپنی شدید محنت کی کمائی میں سے بڑی مشکل سے دس بیس روپے نکال کر فلم دیکھنے جایا کرتے تھے۔ آخری سینما کے انہدام تک مجھے یاد ہے کسی بھی اچھے سینما کا سب سے بڑا ٹکٹ ایک سو پچاس تک کا ہوا کرتا تھا اور یہ ٹکٹ ظاہر ہے غریب اور نچلے درجے کی کلاس کی پہنچ سے اس وقت بھی دور تھا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2