سر سید احمد خان ایک متنازع ہیرو؟


چندروزقبل سوشل میڈیا پر ایک صاحبِ لیاقت نے پوسٹ لگائی جس پر درج تھا ”خدا کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں اور میر جعفر اور میر صادق جیسے محب وطن اور قوم کے بہی خواہ پیدا ہورہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفا دار ہیں بلکہ اس راج کو مستحکم کرنے والے ہیں۔ سرسید احمد خان، لائل محمڈنز آف انڈیا“۔ طالب ِ علم نے اس پوسٹ کو معروف محقق حسن بیگ کو بھیجا کہ رہنمائی فرمائیں۔

جواب میں پہلی وضاحت تو بیگ صاحب نے یہ فرما ئی کہ لائل محمڈنز آف انڈیا کتاب نہیں بلکہ ایک تنظیم تھی جو سرسید احمد خان نے قائم کی تھی۔ اس پوسٹ میں اس سرسید سے جو عبارت منسوب کی گئی ہے اس کا حوالہ دینا بھی ضروری تھا جس کی زحمت نہیں کی گئی۔ سرسید کی فکر اور ان کی عملی سرگرمیوں پر غور کرنے کے لیے ان کے زمانے کے حالات کا بغور جائزہ لینا ضروری ہے۔ سر سید احمد خان کوئی فرشتہ نہیں تھے ان میں بشری کمزوریاں بھی یقینا ہوں گی اور فکری مغالطے بھی ہوں گے۔

انگریز کا راج تھا مسائل ان کے تعاون ہی سے حل ہوسکتے تھے۔ سر سید کے نزدیک اگر انگریز کی خدمت گذاری ہی ہوتی تو وہ اسباب بغاوت ہند لکھتے نہ مسلمانوں کو جدید تعلیم سے روشناس کرانے کا بیٹرا ُٹھاتے۔ ڈاکٹر حسن بیگ صاحب نے اسکاٹ لینڈ سے، اس حوالے سے ایک برقیاتی خط بھی راقم کو ارسال کیا ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے :

”جناب یاسر عرفات، السلام علیکم

آج کل قومی پریس اور سوشل میڈیا میں سر سید احمد خاں کی زندگی کے ان پہلوؤں پر لکھا جا رہا ہے جو اُس وقت کے حالات کا تقاضا تھا۔ اُن کی بے شمار اچھائیوں، دور اندیشی اور مسلمانوں کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ سر سید کا اس قوم اور ملک پر عظیم احسان ہے، اِس لیے مجھے امید ہے آ پ اپنے کالم میں اس غفلت کا احاطہ کریں گے۔

جنگ پلاسی 1757 ء کے بعد سے مسلمانانِ ہند پر مشکل وقت شروع ہو گیا تھا۔ گورنر جنرل کارنیوالس نے بنگال میں جو زمینی اصلاحات کیں اُن کی کمان مسلم زمینداروں پر ہی پڑی تھی۔ جنگ آزادی 1857 ء کے بعد تو مسلمانوں کے حالات انتہائی دِگر گوں ہو گئے تھے۔ جتنی بھی کتب اور رسائل شائع ہوتے وہ مسلمانوں کو موردِ الزام اور بغاوت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بے انتہا مسلمان قتل ہوئے اور بے شمار گھر سے اجڑے اور ہزاروں نان نفقہ سے محتاج ہو گئے۔ اس زوال کے نتیجے میں مسلمانوں کی سوچ کے دو گروہ بن گئے تھے۔ ایک وہ گروہ جس نے اپنے آپ کو انگریزوں سے الگ تھلگ کر لیا تھا۔ انگریزی تعلیم اور انگریزی تعلقات سے مقاطعہ کر لیا،

علما اپنے مدرسوں میں محدود ہو گئے، شاہ عبدالعزیز نے ہندوستان کو دار الحرب قرار دیا اور کچھ نے انگریزوں کے خلاف جنگیں لڑیں جن میں سید احمد شہید سرفہرست ہیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا تھا جو حقیقت پسند تھے، جن کو افسوس تھا کہ مسلم مغل حکومت ختم ہو چکی ہے، انگریز اپنے قدم جما چکا ہے، اور اس حکومت کے خاتمے کے کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ہے، اس لیے حکومتِ وقت سے تعاون ضروری ہے، اُس تعاون کا طریقہ یہ ہی تھا کہ حکومت کو یہ بآور کرایا جائے کہ مسلمان بھی حکومت وقت کے بہی خواہ ہیں اور بغاوت یا سر کشی کا وقت گزر چکا ہے۔ اس گروہ کے سربراہ سر سید تھے۔

سر سید  احمد دنیا دیکھے ہوئے شخص تھے، مستقبل پر ان کی نظر تھے اور دور اندیشی کی راہ ان کو نظر آرہی تھی، اس لیے انھوں نے حکومت سے تعاون، تعلیم پر زور، سیاست سے دوری، ہندوؤں سے علیحدگی کی راہ اپنائی۔ لائل محمڈنس اوف انڈیا اس پالیسی کا حصہ تھی (محمد حسین حالی، حیات جاوید، اکادمی پنجاب، لاہور، 1957، ص 158 ) ۔ اُن کا ارادہ ایک کتاب شائع کرنے کا تھا جس میں مسلمانوں کے تعاون اور خدمات کو اجاگر کرنا تھا، لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا، اس لیے یہ ایک رسالے کی شکل میں شائع ہوا، جس کے صرف تین شمارے ہی نکل سکے (محمد امین زبیری، پبلیشرز یونائٹیڈ، انارکلی، لاہور، 1964 ص 19 ) ۔ اس کے علاوہ بھی سر سید نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس، یو نائیٹڈ انڈین پیٹریاٹک ایسوسی ایشن، محمڈن اینگلو اورینٹل ایسوسی ایشن بنائیں اورسب سے بڑھ کر ایم اے او کالج بنایا۔ اِن سب کا مقصد مسلمانوں کا ایک متحدہ پلیٹ فارم فراہم کرنا، کانگریس کی سیاست سے الگ کرنا اور تعلیم کی طرف راغب کرنا تھا۔ جس کا نتیجہ آج ہم مملکت پاکستان کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

والسلام

حسن بیگ، اسکاٹ لینڈ ”

سرسید سے متعلق عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جن حالات کی اصلاح کے کوششیں کیں ان حالات کی خرابیوں کا بیان مبالغے سے کیا۔ ان کی شخصیت کے مختلف پہلو تھے۔ وہ مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کے حصول کے سب سے بڑے داعی تھے۔ جب انگریز کے اقتدار کا دور شروع ہوا تو عیسائی مشنری اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے اور ہندوؤں کو عیسائی بنانے میں کامیاب ہوجاتے اور ساتھ ہی ان کے ممبران پارلیمنٹ اور کمپنی کے بڑے بڑے عہدیدار اسلام کے خلاف کتابیں لکھتے اور مسلمانوں ے مناظرے کرتے۔

سرسید نے اس مناظرہ کے مخاصمانہ طریقوں کو بدلنے کی کوشش کی اور توریت اور انجیل کی تفسیر ”تبین الکلام“ کے نام سے لکھی۔ جس کا مقصد اسلام اور عیسائیت میں جو امور مابہ النزاع اور متفق علیہ ہیں ان کی تشریح کرکے دونوں قوموں کو قریب لانا تھا۔ اسی طرح جب لیفٹیننٹ گورنر ولیم میور نے اپنی کتاب لائف آف محمدﷺ لکھی جس میں اسلام اور بانی اسلام پر سخت حملے کیے تو سر سید نے ”خطبات احمدیہ“ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی جس میں معترضین کی مدلل تردید کی اور ثابت کیا کہ اسلام دنیوی ترقی کا مخالف نہیں ہے۔

سرسید مسلمانوں کی تباہ حالی کا ذمہ دار مسلم مذہبی پیشواؤں کو بھی سمجھتے تھے جو مسلمانوں کی قوت کو تعمیری سرگرمیوں میں بروئے کار لانے کی بجائے فقہی مسائل کی موشگافیوں اور فرقہ بندیوں میں ضائع کررہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے علماء سے ٹکر لی جس عوام میں ان کے خلاف منفی خیالات پیدا ہو ئے اور ان کے مشن میں بھی رکاوٹیں آئیں۔ لیکن جب علماء پر غیروں کے حملے ہوئے تو سرسید ان کی حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ ڈاکٹر ہنٹر نے 1871 ء میں وہابیوں کے خلاف ”مسلمانانِ ہند“ کے نام سے کتاب لکھی جس میں کہا گیا کہ مسلمان حکومت کے ساتھ لڑنا اور جہاد کرنا فرض سمجھتے ہیں تو اس کے جواب میں سر سید نے انگریزی اور اردو میں چودہ مضامین لکھے اور مسئلہ جہاد پر انگریزوں کی غلط فہمیوں کا بھرپور جواب دیا۔

انہوں نے اصلاح معاشرت کے سلسلے میں لکھے گئے اپنے مضامین میں لباس اور کھانے کے قدیم طریقوں پر خوب تنقید کی۔ سرسید نے گردن مروڑی مرغی کا کھانا آیات اور احادیث سے جائز قرار دیا اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا، جوتا پہن کر نماز پڑھنا، داڑھی منڈانے کے جواز مذہب سے ثابت کرنے کی کوشش کی جس سے مسلمانوں کی بڑی تعداد ان سے متنفر ہوئی۔ ان کی خصوصیت تھی کہ جو چیز قوم کے لیے بہتر سمجھتے اس پر پوری شدت کے ساتھ ڈٹ جاتے جیسے جب انہوں نے یہ سمجھا کہ ہومیوپیتھک علاج کو مفید سمجھا تو اس کی حمایت اور تشہیر میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔

سر سید احمد خان اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی نظریات اور تصورات کے سبب ایک متنازع شخصیت بھی تھے اور قوم کی ترقی کے معمار بھی۔ ان کے خیالات و تصورات پر علمی تنقید ضرور کی جانی چاہیے لیکن ان کی تحریروں سے ادھورے جملے پھیلا کر ابہام پیدا کرنا اور اور ان کی کردار کشی کرنا انتہائی غیر مناسب عمل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).