بیٹھیں تو مشکل، اتریں تو مشکل


شاید آپ کو بھی یاد ہو جب گزشتہ برس عام انتخابات سے چند ماہ قبل تحریکِ انصاف کی چھت پر پھیلے دانے دنکے کو دیکھ کر الیکٹ ایبلز پرندے دھڑا دھڑ اترنے لگے۔ کوئی پرندہ آ آ آ کرنے والے عمران خان کے کندھوں پر، کوئی ہاتھوں پر، کوئی سر پے اور کوئی قدموں میں بیٹھ گیا اور آس پاس کی چھتوں پر کھڑے آزمودہ پرندے بازوں کے ہاتھوں میں ترغیبی باجرا دھرے کا دھرا رہ گیا۔

کسی نے خان صاحب سے پوچھا آپ تو الیکٹ ایبلز اور پرانے چہروں سے اس قوم کو نجات دلا کر ایک تازہ دم قیادت کی مدد سے نیا پاکستان بنانا چاہ رہے تھے یہ کیا ہو رہا ہے؟ تس پر خان نے بہت بے بسی کے ساتھ جو کہا اس کا لبِ لباب یہ تھا کہ میں فرشتے کہاں سے لاؤں، نئے لوگ کہاں سے لاؤں۔ مگر آپ فکر نہ کریں میری قیادت انھی پرانوں کو نئے ڈسپلن میں رکھتے ہوئے اپنے وعدوں اور پروگرام کو عملی جامہ پہنائے گی۔ بس حوصلہ نہیں ہارنا، مایوس نہیں ہونا۔ حاسدوں کے نزدیک الیکٹ ایبلز کا اس طرح پارٹی کی چھت پر اترنا عمران کے خوابوں کی پہلی ہار تھی مگر عشاق کے نزدیک یہ ایک بیدار مغز آدرشی کپتان کی حقیقت پسندانہ حکمتِ عملی تھی۔

سب سے بڑا چیلنج معیشت ہی تھا۔ انتخابات سے پہلے خان صاحب اور ان کی ٹیم کا خیال تھا کہ اگر تمام مقتدر ادارے باہم دست و گریباں ہونے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے منتخب حکومت کے پیچھے کھڑے ہوں تو معیشت کو سیدھا کرنا مسئلہ نہیں ہوگا۔

بس کرپٹ لوگوں کو الٹا کر کے احتساب کی ٹکٹکی پر باندھنا ہوگا اور وہ اپنے صندوقوں کی چابیاں دے دیں گے۔ نیب ان کے بیڈ رومز کی الماریاں کھولے گا اور گدے پھاڑ کے نوٹوں کی گڈیاں برآمد ہو جائیں گی۔ تمام پاکستانی کاروباری، سٹے باز، سرمایہ کار خود انکم ٹیکس کے دفتروں کے سامنے لمبی لمبی قطاریں باندھے نہ صرف ٹیکس نمبر حاصل کریں گے بلکہ فخریہ گردن تانے پوچھیں گے کہ بتائیے ججمان جی ہم پر کتنا ٹیکس واجب الادا ہے؟ حب الوطنی کے جام پیے سمندر پار پاکستانی ایک ایک ہزار ڈالر چندہ بھیجیں گے۔ ہم سوئٹزرلینڈ سمیت آف شور بینکوں اور کمپنیوں میں ٹیمیں بھیجیں گے اور دنیا خود بتا دے گی کہ کس پاکستانی لٹیرے اور چور کا اکاؤنٹ نمبر کیا ہے اور اس میں کتنا پیسہ پڑا ہے۔ باقی کسر سی پیک نامی گیم چینجر نکال دے گا۔

اس کے بعد کون سا آئی ایم ایف، کون سعودی عرب، کون امارات، کون سا کشکول؟ یوں ترقی کا عظیم الشان سفر شروع ہو جائے گا اور جب پانچ سال پورے ہوں گے تو یہ ملک اتنا بدل چکا ہوگا کہ روزگار کی تلاش میں بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی باشندے بھی پاکستان میں ملازمتیں لینے کے لیے دوڑے چلے آئیں گے۔

خواب کا سحر اتنا مکمل تھا کہ مراد سعید کی قبل از انتخابات یہ تقریر بھی بچے بچے کے موبائل پر وائرل ہو گئی کہ حکومت بنتے ہی ہم گزشتہ روز سارے قرضے واپس منہ پر مار دیں گے اور ایک ہفتے میں آف شور پڑے اربوں چوری شدہ ڈالر واپس لا کر دکھائیں گے۔

ایک ڈریم ٹیم نظر آ رہی تھی۔ جہانگیر ترین نا اہل ہوگئے توکیا ہوا؟ پنجاب کو علیم خان دیکھیں گے، خزانے کے نگراں اوپننگ بیٹسمین اسد عمر ہوں گے، خارجہ پالیسی تو بنی ہی شاہ محمود قریشی کے لیے ہے۔ منہ زور فرعون صفت بیورو کریسی خان کے انتھک جواں سال و گرم خون وزرا کی بٹالین دیکھ کر خود بخود تیر کی طرح سیدھی ہو جائے گی۔ نیب کرپٹوں سے نمٹ لے گا۔ فوجی قیادت بہت عرصے بعد اطمینان کا سانس لیتے ہوئے اپنی پوری توجہ جغرافیائی تحفظ پر مرکوز کر پائے گی اور عوام بنی گالا کی کفایت شعاریاں دیکھیں گے اور وزیرِ اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس کے کھلے دروازوں سے بے دھڑک اندر جا کر ماضی کے اللے تللے دیکھ کر خود فیصلہ کر لیں گے کہ پاکستان اب تک کن لٹیروں کے سبب معاشی و سیاسی اعتبار سے نیچے ہی نیچے جا رہا تھا۔

اس ماحول میں جب پہلے سو دن میں ہر محکمے کی ٹاسک فورس نے اپنے اپنے ترقیاتی پلان اور حکمتِ عملی وضع کر لی۔ پانچ برس میں ایک کروڑ ملازمتوں اور پچاس لاکھ گھروں کی ڈرائنگ مکمل ہو گئی۔ پرانے نا اہل حکمرانوں کی فالتو سرکاری گاڑیاں اور بھینسیں نیلام ہو گئیں۔ تو پھر بارات کی رخصتی کے بعد شادی کے اخراجات و آمدنی کا حساب کتاب شروع ہوا۔ تنبو کے اتنے دینے ہیں، باورچی کے اتنے پیسے بنے، ہار پھول والے کو اتنا ایّڈوانس دیا گیا۔ کل ملا کے پچاس لاکھ بنے اور کھیسے میں دس لاکھ ہیں۔

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ

جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا ( غالب)

جہانگیر ترین پہلے ہی بندھ چکے تھے، کابینہ میں آدھے پرانے اور آدھے نئے چہرے۔ معاشی خواب کو تعبیر پہنانے کے لیے جس اکنامک ایڈوائزری کونسل کا سوچا گیا تھا وہ عاطف میاں کو رکھنے نہ رکھنے کی نذر ہو گئی۔ باقی بچ گئے اسد عمر اور ان کے ہمراہ آزمودہ کار پرانے گرگانِ باران دیدہ رزاق داؤد اور عشرت حسین وغیرہ۔ محکمہ داخلہ خان صاحب نے خود اپنے ہاتھ میں رکھا۔

پارلیمنٹ میں پرائم منسٹر کا ہفتہ وار گھنٹہ متعارف ہونا تھا تاکہ سب مل کر نئے پاکستان کی پارلیمانی تعمیر میں ہاتھ بٹا سکیں۔ قانون سازی ہو سکے، ووٹر اور بازار کو یہ پیغام پہنچ سکے کہ ہمارے مابین کیسا ہی اختلاف سہی مگر پاکستان کو معاشی، سیاسی و سماجی بحران سے نکالنے اور جمہوری عمل کو آگے بڑھانے میں ہم سنجیدہ ہیں۔

آج تک قائدِ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار میں ایک باضابطہ ملاقات نہیں ہو سکی۔ آج تک قائدِ اقتدار ایک کھلی پریس کانفرنس نہیں کر پائے۔ اگرچہ کچھ وزیر آج بھی اگلے ہفتے تیل کے فوارے چھوٹتے دیکھ رہے ہیں اور ایک مہینے بعد اس تیل کی دھار پر معیشت کو بلند ہوتا دیکھ رہے ہیں مگر نیا پاکستان پرانے چہروں کو نئے عزمِ حکمرانی کے ساتھ آتا دیکھ رہا ہے۔ کابینہ پھر سے پرانے اور نئے پرزوں کو جوڑ کر اسمبل کی جا رہی ہے۔ استقبال کے لیے ازقسمِ آئی ایم ایف اور فیٹف راہ میں ہار لیے کھڑے ہیں۔

چلیے چھوڑئیے ان فضول باتوں کو۔ پاکستان تو جب بدلے گا تب بدلے گا۔ فی الحال موڈ بدلنے کے لیے وہ کہانی پھر سن لیجیے جو آپ ایک سو ستائیس بار پہلے بھی سن چکے ہیں۔

ایک کمہار اور اس کا بیٹا نیا گدھا خرید کے میلے سے پیدل واپس لوٹ رہے تھے۔ ایک راہ گیر بڑبڑایا کتنے مورکھ ہیں، گدھا ہوتے ہوئے بھی پیدل جا رہے ہیں۔ یہ سن کر کمہار اور بیٹا گدھے پر بیٹھ گئے۔ کچھ دور بعد ایک اور آواز آئی ہائے ہائے جانور پر کیا ظلم ہے دو ہٹے کٹے آدمی ایک گدھے پر بیٹھے جا رہے ہیں اور گدھا ہلکان ہوا جا رہا۔ یہ سن کے کمہار گدھے سے اتر گیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک عورت چلائی کیسا بدتمیز لڑکا ہے خود گدھے پر بیٹھا ہے اور باپ کو پیدل چلا رہا ہے۔ یہ سن کر بیٹا نیچے اتر آیا اور باپ گدھے پر سوار ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک اور آواز آئی کیسا ظالم ہے خود تو گدھے پر بیٹھا ہے اور بچے کو پیدل چلا رہا ہے۔ یہ بات دونوں کی سمجھ میں آ گئی اور دونوں گدھے کو الٹا کر کے بانس سے باندھ کر گاؤں پہنچے۔ پورا گاؤں ہنسنے لگا۔ ایک بزرگ نے کہا گدھا سواری کے لیے ہوتا ہے اور الٹا تم اس کی سواری بنے ہوئے ہو۔ اس پر کمہار نے راستے بھر جو جو ہوا کہہ سنایا۔ بزرگ نے کہا اپنی عقل استعمال کرنے کے بجائے لوگوں کے کہنے پر چلو گے تو یہی ہوگا اور پھر وہی لوگ تم پر ہنسیں گے۔
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).