نسل‘زبان اور مسلک کے پھندے


چودہ مزید پنجابیوں کو بلوچستان میں قتل کر دیا گیا ہے۔ سفاکی اور بربریت کا وحشیانہ مظاہرہ! زمین کے کسی خطے کو اگر چند قبائلی سردار‘ چند نواب‘ چند خان‘ چند ملک‘ زیرنگیں رکھنا چاہیں تو اس کا کامیاب ترین طریقہ‘ جو صدیوں سے آزمایا جا رہا ہے‘ یہی ہے کہ مقامی اور غیر مقامی کی تفریق پیدا کی جائے‘ اس طریقے کا ایک ’’جزو،ب‘‘ بھی ہے۔

یعنی دوسرا حصہ۔ کسی قوم کو اگر معاشی اور سیاسی حوالے سے پس ماندہ رکھنا ہو تو اسے مادری زبان اور ’’اپنی ‘‘ ثقافت کی خار دار جھاڑیوں میں الجھا دیجیے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی‘ یہ مادری زبان اور ’’اپنی‘‘ ثقافت کی جھاڑیوں میں الجھے رہیں گے! یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بلوچستان میں یہ خونیں کھیل جو کھیلا جا رہا ہے اس میں ہمارے دشمن ممالک اپنا اپنا حصہ‘ بقدر جثہ ڈال رہے ہیں۔

تاہم مقامی بنیاد کے بغیر‘ غیر ملکی امداد کی دیوارتعمیر نہیں ہو سکتی۔ جہاں دھواں اٹھتا ہے وہاں چنگاری ضرور ہوتی ہے۔ بلوچستان کے قبائلی سردار۔ سب نہیں۔ کچھ ‘ صدیوں کی بالادستی سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ قبیلہ‘ قبیلہ نہیں‘ رعیت ہے! یہاں تک کہ اہل قبیلہ کے نجی معاملات بھی سردار کی مداخلت سے طے ہوتے ہیں۔ جس طرح ابلیس نے اپنے حواریوں سے کہا تھا ؎ اس سے بہتر ہے الٰہیات میں الجھا رہے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے بالکل انہی خطوط پر قبائلی سردار‘ رعایا کو قبائلی روایات کا اسیر بنا کر رکھتے ہیں۔

یہ حقیقت ریکارڈ پر ہے کہ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران جب ایک بلوچ سردار سے پوچھا گیا کہ اس زمانے میں بھی سچ اور جھوٹ کا فیصلہ آپ جلتے انگاروں پر چلا کر کر رہے ہیں‘ یہ کون سا انصاف اور کون سی ترقی ہے تو نوجوان بلوچ سردار نے فخر کے ساتھ اور کمال خود اعتمادی کے ساتھ جواب دیا تھا کہ کیوں نہیں! یہ ہماری روایات کا حصہ ہے!

یہ واقعہ بھی اپنے قارئین سے شیئر کیا جا چکا ہے کہ دارالحکومت کی ایک وقیع یونیورسٹی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے لیکچرار حضرات سے گفتگو کے دوران لاہور کی اس پریس کانفرنس کا ذکر کیا گیا تو تقریباً نصف حاضرین نے برملا کہا کہ وہ سردار کے خلاف کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ پنجابیوں پر جو گزر رہی ہے‘ سو گزر رہی ہے مگر غیر بلوچیوں کو بلوچی علاقوں سے ختم کرنے کا طویل المیعاد اثر ان علاقوں پر کیا ہو گا؟ پس ماندگی! جہالت اور غربت!

اس لئے کہ ڈاکٹر انجینئر ‘پروفیسر‘مزدور جو پنجابی ہیں یا اردو سپیکنگ‘ قتل کردیے جائیں گے‘ باقی بھاگ جائیں گے تو تعلیم سائنس اور تعمیر و ترقی کا کام رک جائے گا! پس ماندگی اور جہالت جتنی زیادہ ہو گی‘ قبائلی سرداری نظام اتنا ہی دیرپا ہو گا! امریکہ کی مثال لیجیے۔

اسے Melting Potکہتے ہیں، یعنی کٹھالی‘ آئر لینڈ سے جرمنی سے‘ فرانس سے‘ ڈنمارک سے‘ ہسپانیہ سے تارکین وطن آئے اور آ کر ضم ہو گئے۔ کسی نے مطالبہ نہ کیا کہ تعلیم مادری زبان میں ہو یا امریکی ثقافت کے مقابلے میں اس کی ثقافت کو برتر تسلیم کیا جائے۔ چنانچہ سب طبقات آگے بڑھے۔ سب نے ترقی میں اپنا حصہ ڈالا اور پھر ثمرات سے بھی سب نے فائدہ اٹھایا۔

پنجابی یا اردو سپیکنگ اقتصادی دوڑ میں آگے نکل گئے۔ اسباب بہت سے ہیں مگر یہ اپنے خول میں بند نہیں ہوئے۔یونیورسٹیوں میں انہوں نے اپنے نسلی گروہ سب سے کم بنائے۔’’ثقافتی شامیں‘‘ نہیں منائیں۔ اپنی دو اینٹ کی مسجد الگ نہیں بنائی۔ اس کے مقابلے میں دیکھیے وفاقی دارالحکومت کی قائد اعظم یونیورسٹی ہو یا لاہور کی پنجاب یونیورسٹی ‘ چھوٹے صوبوں سے آئے ہوئے طلبہ لسانی نسلی اور ثقافتی تنظیموں میں ذہنی طور پر قید ہیں۔ خول سے باہر نہیں نکل رہے!

احساس کمتری‘ احساسِ تفاخر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ترجیحات مختلف ہو جاتی ہیں۔ الگ شناخت اور انفرادیت قائم رکھنے کی امنگ پابہ زنجیر بن جاتی ہے!شاہ لطیف بھٹائی، رحمن بابا اور بلّہے شاہ سے معاملہ آگے بڑھتا نہیں! نتیجہ یہ کہ ؎ چلنے والے نکل گئے ہیں جو ٹھہرے ذرا نکل گئے ہیں ریاست پاکستان کا سب سے بڑا قصور بلوچستان کے حوالے سے قبائلی نظام کا دوام ہے۔ ستر برس گزر گئے۔ آج بھی سرکاری ملازموں کو تنخواہ‘ مقامی سردار کی پرچی کے بغیر نہیں ملتی، تعلیمی اداروں کی عمارتیں ان سرداروں کے مویشی خانوں اورغلے کے گوداموں میں بدل دی جاتی ہیں۔

کوئی پڑھ لکھ جائے تو سردار کی نگاہوں میں کھٹکنے لگتا ہے۔ اس غلامی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عام بلوچی برہمداغوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس قتل و غارت کی پشت پر چند قبائلی سردار ہیں جو بھارتی اور افغانی مدد سے یہ خونی کھیل کھیل رہے ہیں۔ اگر ریاست پاکستان شروع ہی سے توجہ دیتی اور بلوچستان کو قبائلی نظام کے پنجوں سے نکال کر تعلیم صنعت و حرفت اورجدید زراعت و تجارت سے ہم کنار کرتی تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی!

یہی جرم ریاست پاکستان نے وزیرستان اور خیبر پختون خواہ کے دیگر قبائلی علاقوں میں کیا۔ خانوں اور ملکوں کی چیرہ دستیاں جاری رہیں۔ پولیٹیکل ایجنٹ ان کے ساتھ مل گئے۔ عام قبائلی کو کچھ نہ ملا اور اس نے بندوق اٹھاکر کبھی کسی منگل باغ کا ساتھ دیا اور کبھی کسی بیت اللہ محسود کے جتھے میں شامل ہو گیا۔

کوئی یونیورسٹی نہ بنی۔ کوئی انڈسٹری نہ لگی۔ زراعت کو مشینی نہ کیا گیا۔عملاً قبائلی علاقوں میں لوگ پتھر کے زمانے میں رہے۔ جب اقتصادی سرگرمیاں عنقا ہوں ‘ صنعت و حرفت نہ ہو‘ ملازمتیں کوئی نہ ہوں تو اغوا برائے تاوان باقاعدہ پیشے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

پس نوشت۔ امام کعبہ کے حالیہ دورہ پاکستان کے حوالے سے ہم یہ حقیقت ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ امام کعبہ کا تعلق تمام مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ تمام پاکستانی مسلمان‘ خواہ جس مسلک سے بھی ان کا تعلق ہو‘ حرمین شرمین میں حاضر ہوتے ہیں اور وہاں امام صاحبان کی اقتدا رمیں نمازیں ادا کرتے ہیں!

اس کے برعکس جب بھی یہ مقدس شخصیات پاکستان تشریف لاتی ہیں تو ایک خاص مسلک انہیں عملی طور پر یرغمال بنا لیتا ہے۔ ہم سرکاری تقاریب کی بات نہیں کر رہے! 16اپریل کو امام صاحب صوبائی دارالحکومت میں تشریف لائے۔ تو انہیں راوی روڈ پر ایک خاص مسلک کے مرکز میں خصوصی طور پر لے جایا گیا۔

اسی مسلک سے تعلق رکھنے والے ملک بھر سے آئے ہوئے ذمہ داران سے خطاب کیا گیا۔ پھر جس مدرسہ میں تشریف لے گئے وہ بھی ایک خاص مسلک کا تھا۔ ایک مقامی ہوٹل میں بھی جس تقریب کا انعقاد کیا گیا وہ بھی ایک خاص مسلک کے زیر اہتمام تھا۔ یہ صورت حال ہرگزہرگز قابل رشک نہیں!

اگر اصلاً میزبان‘ حکومت پاکستان ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ ایسا یک طرفہ منظر نامہ ترتیب نہ دیا جائے۔ سعودی سفیرکو بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر مولانا طارق جمیل شیعہ اور بریلوی مراکز میں جاتے ہیں اور ان کا کشادہ بازوئوں کے ساتھ استقبال کیا جاتا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ امام کعبہ کا استقبال ان مراکز میں خوش دلی سے نہ کیا جائے؟

مشرق وسطیٰ میں مسلکی بنیادوں پر جس خون ریزی کا ہم رونا رو رہے ہیں‘ اس کی بنیادوں میں اسی قسم کی تفرقہ بازی ہے جس کا حال ہم ان سطور میں بیان کر رہے ہیں! امام صاحب اور ایسی دیگر شخصیات کسی خاص مسلک کی نہیں‘ تمام پاکستانیوں کی مہمان ہوتی ہیں۔ ایسے دوروں کو مسلکی اور فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے تو اس میں سب کی بھلائی ہے!

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).