بریگیڈیئر اعجاز شاہ: ’میں بطور وزیر داخلہ فوج کو کیا طاقت دے سکتا ہوں؟‘


پاکستان میں وزارتوں کے حالیہ رد وبدل کا شور و غُل ابھی تھما نہیں اور حزب اختلاف کی جانب سے وزیر داخلہ کی تعیناتی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔

بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے اس سوال کے جواب میں کہ وہ کیا خصوصیات ہیں جو آپ کو اس عہدے کے لیے موضوع بناتی ہیں ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سوال جا کر عمران خان سے پوچھیں۔‘

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ سے منصوب ایک بیان گذشتہ روز مقامی میڈیا کی زینت بنا رہا جس میں حکومت مخالف مظاہرین کی’چھترول‘ کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا ’اس بیان سے اس شخص کا ذہن واضخ ہوتا ہے جو ماضی میں ایک سرکاری غنڈے کے طور پر کام کرتا رہا ہو اور پرویز مشرف کے ساتھ مل کر سرکاری مشینری کا استعمال کرتا رہا ہو اس سے اچھے کی ہمیں کوئی امید نہیں۔‘

اسی بیان پر وضاحت دیتے ہوئے اعجاز شاہ کا کہنا تھا ’بہت افسوس کی بات ہے کہ میڈیا نے ایک غیر رسمی گفتگو کو اچھالا جو میں نے اس وقت کی جب میں وزیر داخلہ بھی نہیں تھا۔ میں نے اپنے لوگوں میں یہ بات کی جہاں میں ایک وزیر کی حیثیت سے نہیں بیٹھا تھا مگر آدھے پاکستان کو تو ’چھترول‘ کا پتہ بھی نہیں کہ چھترول ہوتی کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اگر محاذ آرائی عوام کو متاثر کرے گی تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ریاست کی عملداری قائم کی جائے۔`

نئے وزیرِ داخلہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے۔ انھیں ابتدا میں بطور وزیرِ پارلیمانی امور کابینہ کا حصہ بنایا گیا تھا۔

پاکسان مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ’کابینہ میں اس ردوبدل نے عمران خان کے نئے پاکستان کے کھوکھلے وعدوں کو مکمل طور پر بے نقاب کر دیا ہے۔ اب تو یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ قوم سے کیے گئے وعدوں کے لیے نہ ہی ان کا کوئی ٹھوس منصوبہ تھا اور نہ ہی انھوں نے ایک قابل ٹیم کا انتخاب کیا۔‘

بے نظیر

بے نظیر بھٹو نے اپنی موت سے قبل اعجاز شاہ کو ان لوگوں کی فہرست میں شامل کیا تھا جن پر انھیں شک تھا کہ وہ انھیں قتل کرنا چاہتے ہیں

ماضی کے تنازعات، حزب اختلاف کے اعتراضات

احسن اقبال نے اعجاز شاہ کی تعیناتی کے معاملے پر بی بی سی کو بتایا ’اس شخص نے ماضی میں ’پولیٹیکل انجینئرنگ‘ پرویز مشرف کی ٹیم کا کلیدی حصہ بن کر کی اور لگتا یہ ہے کہ پارلیمان میں اب اس پولیٹیکل انجینئرنگ کی ضرورت ہے جس کے باعث انھیں تعینات کیا گیا ہے۔‘

صحافی اعزاز سید کی بی بی سی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اعجاز شاہ کے ماضی میں انتہا پسندوں سے روابط رہے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی ہنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا ’نیشنل ایکشن پلان ایک سیاسی ذہن کی پیداوار ہے اور یہ شخص (بریگیڈیئر اعجاز شاہ) ایک آمرانہ سوچ کے مالک ہیں، ان کے آنے سے کبھی بھی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ حزب اختلاف کی تنقید بے بنیاد ہے اور اب نیشنل ایکشن پلان پر اس سے بھی بہتر انداز میں عمل درآمد کیا جائے گا۔

قمر زمان کائرہ کے مطابق ’بریگیڈیئر اعجاز شاہ مشرف کے ساتھی تھے اور بےنظیر بھٹو کی شہادت کے حوالے سے ہمارے الزامات اب بھی جگہ موجود ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص ایک ایجنسی کا سربراہ رہا اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کراتا رہا، جو پرویز مشرف کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتا رہا ہے، اسے شخص سے کسی بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی اور ہم اس فیصلے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔‘

عمران خان

کیا اس منصب کے لیے اعجاز شاہ موزوں ثابت ہوں گے؟

نجی ٹی وی چینل ’جیو‘ کے ڈائریکٹر نیوز رانا جواد نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اعجاز شاہ اس عہدے کے لیے قابل اور موزوںرہیں گے۔ ان کا کہنا تھا ’وہ بے شک قابل ہوں گے پر میں اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتا مگر یہ بات ذہن میں رکھیے کہ وزیرداخلہ کے لیے صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تجربہ درکار نہیں ہوتا بلکہ آپ کتنا ماحول میں استحکام لا سکتے ہیں اور تمام سٹیک ہولڈرز میں کیا اعتماد بحال کرا سکتے ہیں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔‘

سابق وزیر داخلہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ معین الدین حیدر نے ماضی کے وزرا اعظم اور موجودہ وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’متعدد قلمدان رکھ لیتے ہیں اور پھر اس پر توجہ نہیں دے پاتے اور یہ ایک اچھا عمل نہیں ہے۔‘

رانا جواد نے اعجاز شاہ سے متعلق چند متنازع واقعات جن میں ان کے مبینہ انتہا پسندوں سے روابط کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’یقیناً ان کا ایک متنازع ماضی رہا ہے اور ایک ایسے وقت میں ان کا وزیر داخلہ بن جانا جب ہمارا ملک ایف اے ٹی ایف کے خدشات دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بہت زیادہ کریک ڈاؤن کر رہا ہے، انتہا پسندوں کے خلاف اس تعیناتی پر ظاہر ہے سوالات اٹھنے ہیں۔‘

رانا جواد کے مطابق پاکستان کے موجودہ مسائل کی بنیادی وجہ ہماری داخلی پالیسی رہی ہے۔ ’وزیر اعظم کے پاس وزیر داخلہ کا قلمدان ہونا ایک غیر معمولی بات تھی اس لیے یہ بات تو خوش آئند ہے کہ انھوں نے یہ قلمدان کسی اور کو سونپ دیا مگر ان کا انتخاب یقیناً متنازع فیصلہ ہے چونکہ اس سے سیاسی ٹھہراؤ کے بجائے کشیدگی بڑھے گی۔‘

معین الدین حیدر نے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اعجاز شاہ اس منصب کے لیے موزوں ہیں ان کا کہنا تھا ’ان کا تجربہ تو کافی ہے، پاکستان تحریک انصاف کا بڑا مسئلہ تجربہ کاری ہے اس لیے اگر اعجاز شاہ کو دیکھا جائے تو انھیں فوج کا تجربہ ہے، آئی بی کا تجربہ ہے اور تو اور ہوم سیکریٹری کا تجربہ بھی ہے۔‘

اعجاز شاہ کے متنازع ہونے کے حوالے سے ان کی یہ رائے تھی کہ متنازع تو پاسکتان میں ہر سیاست دان رہا ہے ’مگر ہمیں امید ہے کہ وہ ایسے اپنا کام سر انجام دے پائیں گے جس سے اگر ان سے متعلق کوئی تنازع ہے بھی تو وہ دب جائے گا۔ ‘

پیپلز پارٹی کی جانب سے کی گئی تنقید پر معین الدین حیدر کا کہنا تھا ’ان کے زمانے کے وزیر داخلہ نے بھی بہت سے ایسے کام کیے جو متنازع تھے۔‘

’میرے خیال میں فوجی پس منظر وزارت داخلہ کے عہدے کے لیے ضروری تو نہیں ہوتا اور کوئی بھی شخص اگر محنت کرے تو وہ مثبت نتائج دے سکتا ہے مگر اعجاز شاہ کو محتاط ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے مگر مضبوطی سے۔‘

اعجاز شاہ کا موقف

بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب سے کی گئی تنقید پر کہا ’اس عہدے پر تعیناتی حکومت اور وزیر اعظم کا استحقاق ہوتا ہے اور حزب اختلاف کا تو کام ہی تنقید کرنا ہے اس کا تو میرے پاس کوئی توڑ نہیں مگر جب عوام میرا کام دیکھے گی تو سب سے بہترین منصف ثابت ہو گی، یہ تمام خدشات دور ہو جائیں گے اور سیاسی تناؤ کم ہو گا۔`

ایک سوال کے جواب میں کہ کیا وزیر اعظم کا وزارت داخلہ کا قلمدان آپ کو سونپنا ان کی ناکامی سمجھا جائے، ان کا کہنا تھا ’پہلے تو یہ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی نئی تعیناتی نہیں بلکہ صرف وزارت کی تبدیلی ہے اور اب دو لوگ تو اس وزارت کا قلمدان نہیں سنھبال سکتے۔‘

سیاسی انجینئرنگ کی تنقید کے بارے میں جب ان سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا ’میں بطور وزیر داخلہ فوج کو کیا طاقت دے سکتا ہوں، مجھے فوج کو چھوڑے عرصہ ہو چکا ہے، میں ایک سویلین ہوں اور دیگر انتخابات میں حصہ لے چکا ہوں۔‘

’ظاہر ہے کہ ماضی میں میری روزی روٹی فوج سے وابستہ تھی اور یہ ہمارے ملک کی ہی فوج ہے تو ان ناقدیں کے حوالے سے میں مزید کیا کہوں جو ہر بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp