کمزور طبقات کا بیانیہ


پاکستان کی سیاست، سماج اور ریاستی وحکومتی اداروں کی سطح پر ”بیانیہ“ کی بحث بڑی شدت سے کی جاتی ہے۔ ہمارے اہل دانش کی بھی ساری دانش ”بیانیہ“ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عوام اور طاقت ور طبقات کا ”بیانیہ“ ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہر کوئی فرد یا فریق اپنے مفاد کو ترجیح دے کر اپنا موقف پیش کرتا ہے۔ ایسی صورتحال میں جو ریاست اور شہریوں کا باہمی تعلق ہوتا ہے اور اس سے جڑا جو بیانیہ ہوتا ہے وہ پس پشت چلاجاتا ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ حکمران یا طاقت ور طبقات اور عوام کے درمیان سوچ، فکر اور حکمت عملیوں کا ٹکراؤ نظر آتا ہے۔ اس ٹکراؤ نے عملی طور پرطاقت ور اور کمزور کے درمیان سیاسی، سماجی، انتظامی اور مالی خلیج پیدا کردی ہے۔ یہ خلیج عمومی طور پر ریاست اور شہریوں کے درمیان بداعتمادی کو پیدا کرنے اور لوگوں کو ریاستی معاملات یا تعلق سے کمزور کرنے کا بھی سبب بنتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس بات کا احساس طاقت ور طبقات میں بہت کم پایا جاتا ہے۔

پاکستانی ریاست کے بحران میں ہمیں جمہوریت، پارلیمنٹ کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، فوج کے سیاسی کردار کو محدود کرنے، انتہا پسندی پر مبنی رجحانات، دہشت گردی کے بیانیہ کو زیادہ سننے کا موقع ملتا ہے۔ ہماری سیاسی فریقین سمیت دیگر فریقین کی سیاسی بحث و مباحثہ اور سوچ وفکر میں یہ ہی بیانیہ کی بحث جاری ہے۔ یہ بحث بری نہیں اور یہ قومی مسائل ہیں ان پر زیادہ بات بھی ہونی چاہیے اور اس کے حل میں تمام فریقین کو اپنا اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔

لیکن اس پوری بحث میں عوام سے جڑا جو بیانیہ ہے اسے بھی نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ عوامی بیانیہ کیا ہے۔ عمومی طور پر بڑی بڑی سیاسی اور قانونی باتیں بڑے لوگوں سے جڑی ہوتی ہیں اور ان پر بحث ومباحثہ بھی طاقت سے جڑے افراد کے درمیان ہی ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں کا بنیادی مسئلہ ان بڑے سیاسی نعروں کے درمیان ایک ایسی منصفانہ اور شفاف حکمرانی کا نظام ہے جو ان کے بنیادی حقوق کی پاسداری کرسکے۔

اگرچہ ہماری سیاست میں سیاسی اور فوجی حکمرانی نے ہمیشہ عوام مفاد کی سیاست کو سیاسی میدان میں استعمال کیا ہے۔ لیکن یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ اس نعرے کو عملی جامہ پہنانے سے زیادہ اس کا استعمال ”بطور ہتھیار“ ہوا ہے۔ عوامی مفاد کی سیاست کو بنیاد بنا کر طاقت ور طبقات نے عملی طور پر اپنی ذاتی سیاست اور کاروبار کو مضبوط کیا ہے۔ لوگوں کا جمہوریت، قانون کی حکمرانی، پارلیمانی بالادستی کے پیچھے پہلا نکتہ عوامی مفاد سے جڑی سیاست ہوتی ہے۔

عوامی مفاد سے جڑی سیاست کو ہم 1973 کے دستور کے پہلے باب بنیادی انسانی حقوق آرٹیکل 8 سے 28 تک کی بحث سے جوڑ کر دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے دستور جس پر ساری سیاسی جماعتیں گلا پھار پھاڑ کر عملدرآمد کی باتیں کرتی ہیں، لیکن جب بھی وہ اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتی ہیں تو سب سے پہلے عوام کا استحصال اس دستور پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں کرتی ہیں۔ اصل میں جب ریاست اور حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے غفلت کا مظاہرہ کرے یا ریاستی و حکومتی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے کی کوشش کو آگے بڑھائے تو ریاستی و حکومتی کردار محدود ہوجاتا ہے۔

ریاست اور حکومت کا اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی بجائے اس سے راہ فرار اختیار کرنا اور ریاست کو ہی نجی شعبہ میں دینے کا مقصد ہی لوگوں کو نجی شعبہ اور منافع یا دولت کے کھیل میں جھونکنا ہے۔ تعلیم اور صحت جیسے بنیادی نوعیت کے شعبہ جات کی نج کاری کا عمل نے عملی طور پر ان دو اہم شعبوں میں کمزور طبقات کی رسائی کو ناممکن بنادیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سرکاری اعداد و شمار کو دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ہم بنیادی طور پر کمزور طبقات کے تناظر میں ان اہم دو شعبوں میں کہاں کھڑے ہیں۔ حال میں چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ ریاستی ناکامی کے باعث عام لوگوں کو نجی تعلیم کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ایک ایسا معاشرہ جہاں امیر اور غریب، یا طاقت ور یا کمزور کی لکیریں کافی گہری ہوں وہاں کیا ایسا نظام نافذ کیا جاسکتا ہے جو دولت کی بنیاد پر کھڑا ہو۔ جہاں نجی شعبہ کے پھیلاؤ کے بعد ریاست اپنا کردار محدود کرلے یا دست برداری کا اعلان کردے یا اس کی نگرانی کا نظام کمزور ہو۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو وہاں سیاسی، سماجی اور معاشی تفریق اور زیادہ گہری ہوجاتی ہے۔ ایسی صورتحال میں طاقت ور طبقا ت کے مقابلے میں کمزور طبقات کا اپنا بیانیہ اہم ہوجاتا ہے۔

یہاں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ عام آدمی کا بیانیہ کا ہوتا ہے۔ عام آدمی کی ترجیحات میں اچھی حکمرانی بنیادی شرط ہوتی ہے۔ اچھی حکمرانی سے مراد جہاں ریاست ذمہ دارہوتی ہے اور وہ کمزور طبقات کے لیے ایک مضبوط دیوار کا کردار ادا کرتی ہے۔ بنیادی تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، تحفظ، ماحول، نقل و حمل، اداروں تک رسائی، سازگار ماحول، بغیر کسی تفریق پر مبنی حکومتی پالیسیاں، اقلیتوں کو تحفظ کا احساس ایسے مسائل ہیں جو لوگوں کی بنیادی ضرورتوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ ان مسائل کا حل منصفانہ اور شفاف حکمرانی، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی، انصاف پر مبنی عدالتی نظام، کمزور طبقہ کی ترجیحات اور مضبوط ادارہ جاتی نظام سے مشروط ہے۔

سیاسی قیادتیں سمیت اہل دانش کا ایک بڑا طبقہ بنیادی طور پر طاقت ور طبقات کی لڑائی کا حصہ بن جاتا ہے۔ ان کو احساس ہوتا ہے کہ اصل طاقت عوام نہیں بلکہ وہ طاقت ور طبقات ہیں جن کے پاس اقتدار کی کنجی یا اصل اختیارات ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی سیاست کا اصل محور عوام اور ان کے مفادات نہیں بلکہ طاقت ور طبقات کے مفادات اہم ہوتے ہیں۔ عمومی طور پر دلیل دی جاتی ہے کہ اہل سیاست میں موجود طاقت و ر حکمران طبقات پر اہل دانش یا رائے عامہ بنانے والے افراد ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرکے حکمرانی کے نظام کی سمت کو درست کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن یہاں المیہ یہ ہے کہ وہ افراد جنہوں نے حکمرانی کے نظام پر دباؤ ڈالنا تھا وہ خود ہی طاقت ور حکمران طبقات کے آلہ کار یا شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا بھرم رکھ کر دوہری پالیسی پر کھڑے ہیں۔

عوامی مفادات سے جڑے سیاسی بیانیہ کو کون طاقت دے سکے گا؟ یہ وہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے جو اس ملک کے سنجیدہ طبقات کا موضوع بحث ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا موجودہ سیاسی، انتظامی اور قانونی نظام بدترین صورتحال سے دو چار ہے اور اس پر طاقت ور طبقہ کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہ طبقہ روایتی، ذاتی مفاد پر مبنی سیاست کی مدد سے ریاستی نظام چلانا چاہتا ہے۔ یہ ہی وہ لڑائی ہے جو طاقت ور اور کمزور طبقات کے درمیان کھڑی ہے۔

ہماری سیاسی جماعتوں سے جڑے سیاسی کارکنوں اور اہل دانش کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ جس جمہوری لڑائی کا حصہ بنے ہوئے ہیں اس میں ان کا سیاسی استحصال زیادہ ہے۔ ان کو اپنا سیاسی کردار سمجھنا ہوگا اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کی بادشاہت کو بھی چیلنج کرنا ہوگا۔ 2010 میں جو 18 ویں ترمیم ہوئی جس کے تحت وفاق نے صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیے، لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومتوں نے عوامی مفاد کو بالادست کرکے ان کو اختیارات دینے سے انکار کیا ہوا ہے۔ مقامی حکومتوں کا نظام اس کی بڑی مثال ہے جو صوبائی حکومتوں کے ہاتھوں بدترین یرغمالی کا منظر پیش کررہا ہے اور اس نے مقامی سطح پر شفاف حکمرانی کے نظام کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ سارا نظام مرکزیت کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کی سیاست اور سماج میں بڑے بڑے سیاسی نعروں کے مقابلے میں عوامی مفادات سے جڑے بیانیہ کی عملی سیاست کو آگے بڑھایا جائے۔ میڈیا کو بھی طاقت ور طبقات کی نمائندگی کرنے کی بجائے عام آدمی کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا۔ جس انداز میں طاقت ور طبقات کے لوگوں کے ساتھ اگر کچھ ہوتا ہے تو پورا میڈیا کھڑا ہوجاتا ہے، لیکن وہ کمزور طبقات کے ساتھ ہونے والے مظالم پر وہ رویہ اختیار نہیں کرتا جو طاقت ور طبقات کی حمایت میں کرتا ہے۔ ہمیں نظام کو بدلنا ہے اور یہ نظام عوامی مفاد سے جوڑنا ہوگا اور جب تک عوام کے مفادات کو ترجیح نہیں دی جائے گی قومی سیاست میں ریاست اور عوام کا تعلق بھی مضبوط نہیں ہوسکے گا۔ اس لیے نئی عوامی سیاست کے تناظر میں ایک بڑی اصلاحات اور سرجری درکار ہے، یہ ہی ہم سب کی حقیقی ترجیح ہونی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).