ہندو، سکھ اور مسیحی کب اپنے نام سے پکارے جائیں گے؟


1947 میں قائداعظم محمد علی جناح نے پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے اقلیتوں کو برابر کا شہری قرار دیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا، ”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنی م سجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاھ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاست پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ “ گذشتہ برس کی مردم شماری کی تحت 207 ملین آبادی والی ملک میں 96 فیصد مسلمان، 1.59 فیصد عیسائی، 1.6 فیصد ہندو، 0.22 دیگر طبقات کے لوگ اور 0.07 فیصد باقی عقیدوں والے لوگ ہیں۔

دنیا کے عظیم رہنماٶں قائداعظم اور علامہ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا، ایک فلاحی ریاست کا وہ اپنی نظروں سے پورا ہوتا ہوا نہیں دِکھ رہا۔ آگے کی پیشنگوئی کرنے سے پہلے میں آپ کو ایک بات بتاتاچلوں اگر ماضی کے اوراق اور حال کی صورتحال پر نظر دوڑائیں تو بہت سے حقائق ہم پر واضح ہو جائیں گے میں یہاں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمارے رہنماٶں کے خواب اور ان کے ارشادات پر عمل نہیں ہوا اور ہم اس وجہ سے مکمل طور پر ناکام ہوگئے۔

نہیں ہم آج بھی ایک مہذب اور باشعور قوم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ اور اگر ضرورت ہے تو عدل و انصاف کے صحیح نظام کی۔ کرپشن کے خاتمے کی۔ امن اور خوشحالی کی۔ ضرورت ہے ایک ایسے معاشرے کی جہاں برابری ہو امیر اور غریب میں۔ جہاں پر اکثریت کواقلیت پر فوقیت نہ ہو۔ جہاں ایک ماں خود کو اور اپنی بیٹیوں کو محفوظ سمجھے۔ جہاں بوڑھی ماں کو اپنی زمین سے قبضہ ختم کروانے کے لیے تھانہ کچہری کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ کیا ہم ایک ایسی معاشرے کی توقع کر سکتے ہیں جہاں کسی لڑکی پر بری نظر ڈالنے والے کو سخت سزا دی جائے۔

ایسا معاشرہ جہاں کوئی شخص بھوک افلاس سے، بیروزگاری سے یا پھر قرض کے فکر سے آبگار نہ کرے۔ اگر ضرورت ہے تو ایک ہندو ماں کو مرنے سے بچانے کی جو اپنی بیٹی کے غم میں تڑپ رہی ہے جس کو اغوا کر کے اُس کا مذہب بدل کر اس کو زبردستی مسلمان بنایا گیا ہو۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ہندو باپ کو انصاف پہچانا جو در در کی ٹھوکریں کھا کر اس عذاب میں مبتلا ہے اور اس ظلم سے اُس کے بیوی بھگوان کو پیاری ہوگئی۔ قائداعظم کے فرمودات کے مطابق ریاست کے سب شہری برابر ہیں۔

آئین پاکستان کے آرٹیکل 36 کے تحت اقلیتوں کے شہری حقوق اور مفادات کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ریاست یہ ذمہ داری نبھانے سے بالکل قاصر ہے۔ کسی رینا یا روینا کو انصاف نہیں ملتا یا پھر کسی آسیہ مسیح کو اپنی زندگی کے دس سال جیل میں کاٹنے پڑتے ہیں اور پھر جا کی قانون کی دیوی اُن پر مہربان ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر ہم اقلیوں کو کہا جاتا ہے کہ ایسی صورتحال میں ریاست سے انصاف کی توقع نہ کرو اور چپ چاپ بیٹھ جاٶ۔

اور اگر انصاف لینے کے کوشش کرتے ہیں تو کورٹ کچہریوں میں ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے۔ اس عظیم ملک جہاں کا ہندو، عیسائی، سکھ یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والا فرد اس ملک کے لئے جان بھی قربان کرنے کو تیار ہے۔ اس کی تعمیر و ترقی کے لے شب و روز محنت کرتا ہے اور خود کو پاکستانی کہلانے اور بلوانے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ اس کے باوجود کے اس کی ماں کو بے گناہ دس سال جیل میں رکھاجاتاہے۔ اس کی نابالغ بہن کو زبردستی مسلمان بنایا جاتا ہے۔

اس کے باپ کو بیچ سڑک پر گولیاں ماردی جاتی ہیں۔ اقلیتوں کا کوٹہ جو ان کے لئے مختص کیا گیا ہے اُس کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور اس کے لئے اقلیتوں کو خاکروب اور چوکیدار کی آسامیوں پر بھرتی کیا جاتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر اُس پر کیا گزتی ہے کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا اور یہ سب میں قارائین کرام پر چھوڑتا ہوں۔ اور سب سے دُکھ رنج والم والی بات یہ ہے کہ ہمیں ہماری شناخت سے محروم کیا جاتا ہے۔ سکھ، عیسائی اور ہندوں کو غیر مسلم کہہ کر پکارا جاتا ہے۔

جب دوسرے ممالک سے آئے ہوئے رشتے دار ہماری حالت زار محسوس کرتے ہیں وہ ہمیں یہاں سے ہجرت کے لئے اُکساتے ہیں، انہیں کیا معلوم کہ اپنا ملک یا اپنی دھرتی ماں کو خیرباد کہنا کتنا کٹھن کام ہے۔ ہمارے باپ دادا سب یہی پیدا ہوئے ہیں اورسب یہیں دفن ہیں۔ یہ ہماری دھرتی ماں ہے۔ ہم اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ کافی لوگ ان حالات سے تنگ آکر دوسرے ممالک میں نقل مکانی کر چکے ہیں اور بہت سے لوگ اپنی دھرتی سے محبت کی وجہ سے یہاں ٹکے ہوئے ہیں۔

میں اپنے ہم وطن پاکستانیوں سے ایک سوال پوچھنے کی حبسارت کر رہا ہوں۔ اگر کوئی مسلمان لڑکی مجھ سے پیار کرتی ہو اور میں اُس کے سامنے یہ شرط رکھوں کہ تم اپنا مذہب چھوڑ کر میرا مذہب اپنالو تب میں تم سے شادی کرلوں گا اور وہ ایسا کرنے پر رضامندی اختیار کرتی ہے۔ تو پھر میرے پاکستانی بھائیوں کا اور ریاست کے اداروں کا کیا ردعمل ہوگا جو ہمیشہ ہم سے روا رکھے گئے سلوک پر خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ یہ زیادتیاں کب بند ہوں گی؟ ہم لوگوں کو برابر کا شہری کب تصور کیا جائی گا؟ قائداعظم محمد علی جناح کا خواب کب پورا ہوگا؟ ہندو، سکھ اور مسیحی کب اپنے نام سے پکارے جائیں گے؟ بجائے غیر مسلم کے۔ آخر کب تک ہمیں یہ زیادتیاں برداشت کرنے پڑیں گی؟ آخر کب تک؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).