پنجاب میں پھر تبدیلی، کون آنے والا ہے؟


”میڈم صاحبہ، میں عمران خان کا بھائی ہوں، میرا لیڈر عمران خان ہے، وزیر اعلیٰ کے خلاف پنجاب اسمبلی کے باہر احتجاج کیا تھا، خان صاحب، کون سا شخص پنجاب میں لگادیا ہے؟ میرے بہت سے ایشو ہیں، میں عوام میں جاکر آگاہی پھیلاؤں گا“ یہ اس شخص کے الفاظ ہیں جو بنی گالہ کے باہر عمران خان سے ملنے کی کوشش کررہا تھا، یہ پی ٹی آئی کارکن وزیر اعظم سے تو نہ مل سکا جیالی سے کھلاڑی بننے والی فردوس عاشق اعوان کو ہی یہ سب سنا دیا، میڈم نے ان کی باتیں سنیں اور پولیس نے پکڑ کر حوالات بند کردیا۔

یہ ایک شخص ہے جو وزیر اعظم کے غلط فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کرنے بنی گالہ پہنچا، ایسے ہزاروں، لاکھوں ووٹرز ہیں جو اپنے لیڈر سے نالاں ہیں، جو سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے رہتے ہیں، یہ احتجاج کسی ایک شخص کا پاگل پن کہہ کر نظر انداز نہ کیا جائے یہ ایک تحریک کا آغاز ہے جو وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف شروع ہو گئی ہے۔

صوبوں میں تبدیلی کے بعد پھر سے تبدیلی کی باتیں ہورہی ہیں، وزیر اعظم بھی اپنے صوبائی وزرائے اعلیٰ کو وارننگ دے چکے ہیں، اپنی سائڈ بچانے کے لئے وفاق میں تو انہوں نے اپنے اوپننگ بلے باز اور 23 سالہ رفاقت والے وزرا کو ہی ہٹادیا، کچھ کو اتل پتھل کرکے نئے ٹاسک سونپ دیے ہیں، پنجاب میں تبدیلی کی صوبائی وزرا تردید کررہے لیکن ان کا کیا اعتبار۔ یہ سب یوٹرن لینے میں ثانی نہیں رکھتے، لفافہ خور صحافیوں کی خبریں سچ ہو جاتی ہیں اور ٹیکس خور وزرا جھوٹے ہوجاتے ہیں۔

ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

وزیر اعظم اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کے معاملے کے بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے خوش نہیں، پنجاب کے وزرا کی کارکردگی پر بھی تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، وزیر اعظم نے فی الحال عثمان بزدار کو چلانے کے لئے بیوروکریسی میں تبدیلیاں کی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عثمان بزدار کے نعم البدل کی تلاش شروع کردی گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی اراکین سے مشورے شروع کردیے ہیں، وہ ایسا وزیر اعلیٰ پنجاب ڈھونڈ رہے ہیں جس کے نام پر پارٹی میں گروپنگ نہ ہو اور پارٹی اختلافات کا شکار نہ ہو، تحریک انصاف کے اندر توعثمان بزدار کے لئے حمایت نہیں ہے مگر اتحادی جماعت ق لیگ ان سے خوش ہے، چودھری برادران کی زیادہ چلتی ہے اور عثمان بزدار کمزور وزیر اعلیٰ ہیں۔

ق لیگ نہیں چاہے گی تو تبدیلی مشکل ہوجائے گی کیونکہ اس وقت پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تعداد 369 ہے، کسی بھی جماعت کو اپنا وزیر اعلیٰ لانے کے لئے 185 ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی، پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 181 ہے، اسے مزید 4 ارکان اسمبلی کی حمایت درکار ہوگی، اس وقت اپوزیشن مضبوط ہے، اگر پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ ق لیگ اس کا ساتھ دے تو اس کی بارگیننگ پوزیشن اوربڑھ جائے گی، پہلے ہی سپیکرشپ ق لیگ کے پاس ہے، یہ تاثر ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی زیادہ چلتی ہے، خود پی ٹی آئی میں ناراضگی ہے۔ ادھر اپوزیشن بھی اپنا وزیر اعلیٰ لانے کی کوشش کرے گی۔

ملکی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین اشارہ دے رہے ہیں کہ فیصلہ ہوگیا ہے کہ عثمان بزدار نے جانا ہے، ابھی تھوڑا سا وقت دیا گیا ہے، امید یہی ہے کہ بجٹ تک یہی کام کرتے رہیں گے، رہی امیدوار وں کی بات تو پی ٹی آئی کے اندر قابل لوگوں کی کمی نہیں ہے، ق لیگ چاہتی ہے کہ چودھری پر ویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنادیا جائے لیکن خان صاحب ایسا نہیں کریں گے، اگر ایسا کرتے ہیں تو پارٹی کا فلسفہ ہی تبدیل ہوجائے گا۔

پنجاب اسمبلی ارکان میں اس وقت بے چینی کی کیفیت ہے، سب سے بڑھ کر پی ٹی آئی ارکان پریشان ہیں کہ ہمارا کیا بنے گا؟ ایک طرف کہا جارہا ہے بلدیاتی نظام لایا جارہا ہے، دوسری بات ہے کہ ایم پی ایز کو فنڈز نہیں دیا جارہا، جن کو جہانگیر ترین گھیر کے لائے تھے ان میں زیادہ غصہ پایا جاتا ہے، پی ٹی آئی اگر نیا وزیر اعلیٰ لاتی ہے تو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا، جس قسم کا ارکان میں غصہ پایا جاتا ہے تو کچھ بھی کرنا پڑے گا، تبدیلی لانے سے پہلے تگڑی بیوروکریسی لائی جارہی ہے تاکہ معاملات سنبھالے جاسکیں، وزیر اعظم کو خود نہیں پتا کہ پہلے کون سا کام کرنا ہے کون سا منصوبہ بنانا ہے، ہر جگہ پر کنفیوڑن موجود ہے۔

اب خبر آئی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنما چوہدری نثار علی خان جلد رکن پنجاب اسمبلی کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے، چوہدری نثار 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے تاہم انہوں نے حلف نہیں اٹھایا اور اب اطلاعات ہیں کہ وہ آئندہ ہفتے رکن پنجاب اسمبلی کا حلف اٹھائیں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری نثار کا حلف اٹھانے کا فیصلہ بلاوجہ نہیں، اگر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو چوہدری نثار وزارت اعلیٰ کے مضبوط امیدوار ہوں گے، اب یہ اندازہ نہیں کہ وہ کس طرف سے امیدوار ہوں گے۔

چوہدری نثار کے ان کے لئے بھی قابل قبول ہیں جن کے لئے عمران خان فیورٹ ہیں، اپوزیشن میں پیپلزپارٹی کو چوہدری نثار پر اعتراض ہے لیکن یہ اعتراض کمزور ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ چوہدری صاحب اپنی پارٹی میں ہی جاتے ہیں یا ق لیگ یا پی ٹی آئی کے بینچوں پر بیٹھتے ہیں۔ چوہدری نثار کے علاوہ بھی کچھ نام ہیں جو حکومت اور اپوزیشن میں بزدار کے جانے کا انتظار کررہے ہیں، تحریک انصاف کے ذمہ داران کے مطابق اس حوالے سے فیصلہ عمران خان کا ہوگا۔

پنجاب کے لوگوں کے ساتھ سخت زیادتی ہوئی کہ ایک شخص جو سب سے آخر میں تحریک انصاف میں آتا ہے اس کو وزیر اعلیٰ بنادیا جاتاہے جس کے نام سے بھی لوگ آگاہ نہیں تھے، وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کی مشکلات کی بڑی وجہ بھی بڑے صوبے کے حالات ہیں، یہاں عثمان بزدار صاحب کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ فائلوں پر سائن نہیں کرتے، انہوں نے آٹھ ماہ میں اپنے سے کوئی کام نہیں کیا، ہر کام ہدایات پر کیا ہے جو وزیر اعظم ہاؤس سے آتی ہیں، ہمیں پرانی روایت سے باہر نکلناچاہیے، تبدیلی جمہوریت کا حسن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).