صدارتی نظام اسلامی یا غیر جمہوری؟


پاکستان میں گذشتہ چند ہفتوں سے یہ بحث چھڑ چکی ہے یا پھر جان بوجھ کر چھیڑ دی گئی ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام مکمل طور ناکام ہوچکا ہے لہذا صدارتی نظام حکومت رائج ہونا چاہیے۔ اس بحث سے متعلق بات کرنے سے پہلے ایک بنیادی مؤقف سامنے رکھنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ تمام نظام انسانوں کے بنائے گئے نظام ہیں۔ ہر نظامِ حکومت میں جہاں خوبیاں ہیں وہاں خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں اسی طرح جس نظام میں خامیاں ہوتی ہیں وہاں خوبیاں بھی لازما ہوا کرتی ہیں۔

یہ کہنا کہ جمہوری نظام ہی سب سے بہترین نظام ہے جس میں کوئی خامی یا کمزوری نہیں بالکل غلط ہے۔ یا پھر یہ کہنا کہ جمہوری نظام کی کوئی خوبی ہے ہی نہیں یا صرف خامیوں سے بھرا پڑا ہے دونوں مؤقف غلط ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کس نظام کی زیادہ خوبیاں اور کس کی کم خامیاں ہیں۔ اس سے پہلے ایک اہم بات کہ صدارتی نظام ہو یا جمہوری نظامِ حکومت اس میں لفظِ ”اسلامی“ جوڑنا درست نہیں۔ یہ محض ذاتی مفادات کے لئے جمہوری اور صدارتی نظامِ حکومت کو اسلامی نظام حکومت کہا جارہا ہے۔ جبکہ اسلام کا طرزِ حکومت خلافت ہے جو جمہوریت اور صدارتی نظام حکومت سے مختلف ہے۔ چونکہ یہاں اسلامی نظام حکومت جسے خلافت کہتے ہیں پر بات کرنا مقصود نہیں اس لئے خلافت پر مزید کچھ بحث کیے بغیر اصل موضوع جو صدارتی نظام ہے کی طرف آتے ہیں۔

سب سے اہم بات صدارتی نظام کوئی اسلامی نظام نہیں ہے محض اسلام کا تڑکا لگا کر اسے نئے انداز سے پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی واضح مثالیں ملتی ہیں اگر صدارتی نظام اسلامی ہے تو پھر جو صدارتی نظام امریکہ اور دیگر ممالک میں نافذ ہے وہ بھی اسلامی ہونا چاہیے۔ صرف اسلام کا نام لگا کر کوئی نظام اسلامی نہیں بن جاتا اس لئے عوام کو اس دھوکہ سے بچنا چاہیے۔ بحث اس بات پر ہونی چاہیے کہ صدارتی نظام زیادہ مؤثر ہے یا جمہوری نظام سیاست پاکستان میں کامیاب ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں دونوں نظاموں پر تجربہ کیا گیا ہے بلکہ ڈکٹیٹرشپ کا بھی گہرا اثر باقی ہے۔ صدارتی نظام ڈکٹیٹرشپ تو نہیں مگر ڈکٹیٹرشپ کی قبیل سے ہے۔ صدارتی نظام میں ایک فرد با اختیار ہوتا ہے وہی پورے ملک کے سیاہ سفید کا مالک ہوتا ہے۔ جبکہ جمہوریت میں یہ نہیں ہوتا جمہوریت میں عوامی نمائندگان کی اہمیت ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام حکومت بھی ناکام ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں۔

سب سے پہلی اور بڑی وجہ عوام اس قدر تعلیم یافتہ نہیں کہ وہ اپنے علم کے مطابق کسی اچھے نمائندہ کی انتخاب کرسکیں اور نہ ہی شعور کا یہ عالم ہے کہ جو پانچ سال میں ملک کے لئے کچھ نہ کرسکے تو اسے ووٹ کی طاقت سے مسترد کیا جائے۔ پاکستان میں قومیت پرستی ہے فرقہ واریت ہے علاقائیت و لسانیت کا عنصر ہے پارٹیوں کا اثر ہے سرمایہ داری کا بہت بڑا کردار ہے۔ جس کی وجہ سے جمہور اپنے لئے حقیقی نمائندگان کا انتخاب کرنے میں اکثر ناکام نظر آتے ہیں اس لئے جمہوریت پاکستان کو راس نہیں آتی۔

صدارتی نظام قدرِ بہتر ضرور ہے مگر اس کی کچھ خامیاں اتنی خطرناک ہیں کہ انسان اسے قبول نہیں کرسکتا۔ جیسا کہ ملک کے سیاہ سفید کا فردِ واحد مالک ہوتا ہے وہ جس طرح چاہتا ہے ملک کو ایسے چلاتا ہے۔ عوام کے جذبات و پسند نہ پسند کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ اور اگر صدر ایسا ہو جو اپنی من مانی کرتا پھرے تو اسے ہٹانا بہت مشکل ہوجاتا ہے

صدارتی نظام بھی ایک طرزِ حکومت ضرور ہے مگر صدارتی نظام جمہوری نظام کی نفی کرتا ہے۔ اور ہمارے حکمرانوں کا کوئی بھروسا ہے ہی نہیں کہ وہ کب کس بات پر یوٹرن لے لیں تو کون پوچھے گا۔ اگر حکمران اچھے ہوتے اپنے ملک اور عوام کے ساتھ مخلص ہوتے ہو یقینا صدارتی نظام کا ثمر بہتر ملتا۔ پاکستان میں جو بھی وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے پھر صبح شام اپنی کرسی کے بارے میں ہی سوچتا رہتا ہے اور اپنی کرسی سے ہی چمٹا رہتا ہے۔

اس کرسی کے چکر میں وہ ہمیشہ عوام کو بھی چکر دیتا رہتا ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے تبھی لوگ صدارتی نظام پر اعتماد نہیں کرتے۔ مگر دوسری طرف جمہوریت کو دیکھا جائے تو جمہوری نظام بھی مکمل طور ناکام نظر آرہا ہے۔ حکومت کچھ نہیں کرسکتی کچھ کرنے جاتی ہے تو اپوزیشن اسے گرانے پر زور لگا دیتی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کا بھی ابھی تک وہ معیار نہیں ہے کہ وہ ایشو پر اختلافات کریں کسی اہم مسئلہ پر اعتراض کریں جبکہ یہاں ایک دوسرے کے خلاف تقریریں ہورہی ہوتی ہیں۔

قومی اسمبلی قوانین بنانے کے لئے ہے جہاں قانون پر آئینی انداز میں بحث ہونی چاہیے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ قومی اسمبلی میں مسائل زیرِبحث کم آتے ہیں جبکہ ایک دوسرے کو طعنے دینے ایک دوسرے پر جملے کسنے ایک دوسری کی پگڑیاں اچھالنے والا کام زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے عوام کا جمہوریت سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔

جمہوریت کی نظر صدارتی نظام پاکستان کو زیادہ ججتا ہے مگر صدارتی نظام سے عوام بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ عوام کو اپنے حکمرانوں پر اعتماد نہیں رہا۔ صدارتی نظام اسلامی نظام تو بالکل بھی نہیں مگر جمہوری نظام کا تھوڑا بہت اثر ہوتا ہے۔ اگر حکمران اچھے ہوں لوگ ان پر اعتماد کرنے کو تیار ہوں تو صدارتی نظام پاکستانی معاشرے کے لئے جمہوری نظام سے قدرِ بہتر ثابت ہوسکتا ہے مگر اسے اسلامی نظام نہیں کہہ سکتے صرف اسلام کا تڑکا لگایا جارہا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).