راگ بدعنوانی سے راگ نااہلی تک


سیاست ایک منہ زور دریا ہے جس میں ہر لمحہ نئی لہریں اٹھتی ہیں، بھنور بنتے ہیں، امکان پیدا ہوتے ہیں، کچھ موجیں اگلے منظر کا حصہ قرار پاتی ہیں اور کچھ نشان چھوڑے بغیر گم ہو جاتی ہیں۔ صحافتی تجزیہ دراصل لہروں کی اس چلت پھرت کی خبر اور دریا کے مجموعی بہاؤ پر نظر میں توازن کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر کسی کو دعویٰ ہو کہ وہ مستقبل کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کر سکتا ہے تو اسے مبالغہ سمجھنا چاہیے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی اخبار نویس کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائی کے دوران ایسی خبر مل جائے جو حرف بحرف درست ثابت ہو۔ لیکن خبر ایک واقعہ ہے اور تجزیہ ان گنت واقعات کے تال میل سے جنم لینے والا بیان ہے جو حالات کے مجموعی رخ کی نشاندہی کرتا ہے۔

درویش کو اپنے بیان پر اصرار نہیں ہوتا۔ اپنی گزشتہ تحریروں کا حوالہ دینے سے بھی گریز ہی مناسب سمجھتا ہے۔ آج مگر کچھ غیر معمولی معاملہ درپیش ہے۔ گزشتہ برس جنوری میں ’عمران خان ابھی میرے وزیر اعظم نہیں بن سکتے‘ کے عنوان سے ایک اظہاریہ لکھا تھا۔ عمران خان کے حامیوں کی طرف سے ایسا جارحانہ ردعمل سامنے آیا جسے یاد کرنا بھی بدمزگی کا مضمون ہے۔ تلخ کامی زیادہ ہو جائے تو درویش اپنی زنبیل میں رکھے کچھ جواہر پاروں پر ایک نظر ڈال لیتا ہے۔ میری کمزور پڑتی انسانیت کو قرار آ جاتا ہے۔ ان حوالوں میں مولانا آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین ہیں، جسٹس رستم کیانی، ڈاکٹر نذیر احمد، ڈاکٹر اقبال احمد اور فیض صاحب ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے، جنہیں جاننا زندگی کا احسان سمجھنا چاہیے۔ تو آج مولانا آزاد کا کچھ ذکر ہو جائے۔

مولانا آزاد اپنی سیاسی زندگی میں آخری مرتبہ اگست 1942 میں بمبئی سے گرفتار ہوئے۔ قلعہ احمد نگر میں قید کیا گیا۔ مولانا کی اہلیہ تب بیمار تھیں۔ اپریل 1943 میں قید کے دوران ہی مولانا کو ان کے انتقال کی خبر ملی۔ 16 جون 1945 کو مولانا رہا ہو کر کلکتہ پہنچے اور سیدھے اپنی اہلیہ کی قبر پر گئے۔ اپنی یادداشتوں میں مولانا لکھتے ہیں…. تین سال قبل کا وہ دن یاد آیا جب میں ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے لئے بمبئی جا رہا تھا۔ میری بیوی گھر کے دروازے تک مجھے رخصت کرنے آئی تھیں۔ اب میں تین سال کے بعد واپس آ رہا تھا مگر وہ قبر کی آغوش میں تھیں اور میرا گھر خالی تھا۔ مجھے ورڈزورتھ کا یہ شعر یاد آیا

But she is in her grave, and, oh

The difference to me!

عزیزان من، کچھ ایسی ہی تبدیلی یہاں بھی گزر گئی ہے۔ اور یہاں تو تین برس کے انتظار کی نوبت بھی نہیں آئی۔ ایک سال سے کچھ اوپر کا وقت گزرا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی، عمران خان وزیر اعظم ہوئے۔ اور پھر گھڑی کی سوئیوں کی طرح باقاعدگی سے ایک ایک کر کے وہ تمام خدشات درست ثابت ہوئے جن کی طرف ایک برس پہلے کسی کو اشارہ کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ جو تحریک انصاف کی آدھی کابینہ بدل گئی ہے، اور اہم ترین منصب غیر منتخب افراد کو سونپ دیے گئے ہیں۔ اس میں آنے والی دنوں کی تصویر دیکھ لیجئے۔ عمران خان نے سیاسی مخالفین کی مفروضہ بدعنوانی پر اپنی سیاست کی بنیاد رکھی۔ کرپشن کی کہانیوں اور کرپشن کے احتساب کو وہ اس انتہا تک لے گئے کہ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ ورکنگ ریلشن شپ کا امکان بھی ختم کر دیا۔ پارلیمنٹ کے فلور سے تعاون کی ہر پیش کش کو انہوں نے سودے بازی قرار دے کر مسترد کیا۔ این آر او کو انہوں نے ایک گالی بنا کر پیش کیا۔ یہ بھی فراموش کر دیا کہ این آر او میں ایک نہیں، دو فریق ہوتے ہیں۔ این آر او لینے والا غلط ہے تو این آر او دینے والا بھی فی سبیل اللہ رعایت نہیں دیتا۔

ہمارے ملک میں احتساب کی بھی ایک تاریخ ہے اور این آر او بھی قدم قدم پر کیا گیا ہے۔ جب آئین کی کتاب کھڑکی سے باہر پھینک دی جاتی ہے تو سیاست این آر او کے گڑھے میں جا گرتی ہے۔ یاد کیجئے کہ 1985 کی اسمبلی سے آٹھویں آئینی ترمیم کی منظوری کیا سیاست دانوں کی طرف سے دیا گیا این آر او نہیں تھا۔ کیا 2003ءمیں پرویز مشرف کو 17ویں ترمیم کی صورت میں این آر او نہیں دیا گیا؟ عمران خان تو خوش قسمت رہے کہ مخالف سیاسی جماعتوں نے انہیں قریب قریب کھلا میدان فراہم کیا۔ اگر ان کی جماعت سرے سے سیاسی تنظیم ہی نہیں تھی، اگر ان کی جماعت میں سوائے مخالفین پر تبریٰ کرنے کے کوئی فکری اشتراک ہی نہیں تھا، اگر ان کی جماعت نے اپنے لئے ری پبلکن پارٹی اور کنوشن لیگ کا کردار پسند کیا تو اس میں ان کے مخالفین کا کیا قصور تھا؟ عمران حکومت کو جس معاشی بحران کا سامنا ہے وہ دراصل ایک سیاسی بحران ہے۔ سیاست اور معیشت کے اس گنجلک بحران کے کچھ پہلو بیان کرنے کا تو یارا نہیں لیکن یہ بتایا جا سکتا ہے کہ سابق حکومتوں اور سیاسی مخالفین کی بدعنوانی کا راگ اپنا امکان ختم کر چکا۔ ہم نے چند ماہ قبل عدالت عظمیٰ کو میمو گیٹ کیس نبٹاتے ہوئے دیکھا۔ یہ وہ مقدمہ تھا جس کی مدد سے پیپلز پارٹی حکومت کو 2013ءکے انتخاب سے بہت پہلے شکست دی گئی تھی۔ ڈان لیکس کا قضیہ بھی اپنے انجام کو پہنچا اور اس کی آڑ میں اپنے لئے اگلی منزلیں ڈھونڈنے والوں کو ہم نے ’نجی وجوہ کی بنیاد پر‘ مستعفی ہوتے بھی دیکھا۔ اب پانامہ کیس کا مردہ دفن ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اس سے آگے ایک نیا راگ شروع ہو گا، صاف چلی شفاف چلی والوں کی نااہلی۔ اس راگ کی بندش لکھی جا چکی۔ گلے باز طائفے کو اشارہ دیا جا چکا۔ ٹیپ کا مصرع یہی ہو گا کہ پہلے والے بدعنوان تھے اور یہ نااہل ہیں۔ اس کا انجام بہرصورت اہل پاکستان کے لئے ’طول شب غم‘ ہو گا۔ اس دوران آئین کی گتھی مزید الجھ جائے گی۔ معیشت کا بحران حل ہونے کی بجائے مزید گہرا ہو گا۔ پہل کاری کرنے والے تو پایاب پانیوں ہی میں پاؤں دھرتے ہیں، یہ تو بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ دلدل کتنی گہری ہے۔

درویش کی رائے میں یہ جمہوری قوتوں کے صبر، تحمل اور وسعت ظرف کا متحان ہو گا۔ اگر کسی نے کوتاہ نگاہی سے کام لیا تو اسے یاد دلانا ہو گا کہ مارچ 2018 میں بلوچستان کا محاذ فتح کر کے آصف علی زرداری کا لب و لہجہ کیا تھا۔ رواں مہینے میں نیب کی عدالت کے باہر انہوں نے نواز شریف کو بڑا آدمی قرار دیا۔ عمران خان کی سیاسی پونجی اتھلی سہی لیکن انہیں جس نوجوان نسل نے ووٹ دیا، وہ نسل پاکستان کا سرمایہ ہے۔ کینیڈا سے آنے والے ایک صاحب ’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ ‘کا نعرہ لئے میدان میں کودے تھے۔ اب ان کی کوئی خبر نہیں کیونکہ سازش کے پاؤں نہیں ہوتے۔ جمہوریت سیاست کے ذریعے ریاست بچانے اور اسے ترقی دینے کا ہنر ہے۔ عمران خان کی سیاست سے اختلاف اپنی جگہ لیکن اگر ان کے خلاف سازش ہوتی ہے تو اہل درد کو بہرحال جمہوریت کا ساتھ دینا ہو گا۔

کل قافلہ نکہت گل ہو گا روانہ

مت چھوڑیو تو ساتھ نسیم سحری کا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).