جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا قصور کیا ہے؟


ماضی قریب کی بات ہے کہ مملکت خداداد میں ن لیگ کی حکومت تھی۔ وزارت اعظمی کا تاج شاہد خاقان عباسی کے سر سج چکا تھا۔ قاضی القضاء نے اپنی انا کی تسکین کے لیے میاں نواز شریف کو اقتدار سے علحیدہ کر کے لیگی حکومت اتھل پتھل کر دی تھی میاں نواز شریف کا بیانیہ “ووٹ کو عزت دو ” اور “مجھے کیوں نکالا” جی ٹی روڈ سے ہوتا ہوا پنجاب کے میدانوں، سندھ کے ریگستانوں، بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے ہوتا ہوا کے پی کے اور کشمیر کے پہاڑوں تک جا پہنچا تھا۔

مقتدر حلقوں نے میاں نواز شریف کو سبق سکھانے کا تہیہ کر لیا تھا اس لیے محلاتی سازشیں تیار کی گئی۔ ہوا کچھ یوں کہ مذہبی جماعت کے ایک جتھے جس کی قیادت مولوی خادم حسین رضوی کر رہے تھے کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر لا کے بٹھا دیا گیا۔ باقی سب تاریخ ہے جو کچھ ہوا۔

عدالت اعظمی نے حقائق جاننے کے لیے سوموٹو لیا، کیس عدالت میں چلا۔ لوگ خواہ مخواہ دانشوروں کی باتیں سنتے رہے، واعظوں کی تلقین پر کان دھرتے رہے، فلسفیوں کو اہمیت دیتے رہے جب کہ یہ لوگ بزم زندگی کو بے کیف بنانے کے ذمہ دار رہے ، اصل داد کے مستحق وہ “دیوانے” ہیں جو پل بھر میں غم کا نور اور اندیشے دور کر دیتے ہیں۔ سچ کہنے کی جو توفیق ملک بھر کے ہزاروں فرزانوں کو نصیب نہ ہو سکی اور لوگوں کو حقائق بتانے کی ہمت “مصلحت بین فقہیوں” کو نہ مل سکی وہ ایک دیوانے کو عطا ہو گئی اور وہ دیوانہ بھی معمولی کوچہ گرد نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے جج عزت ماب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں انھوں فیصلہ سناتے ہوئے حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے اپنے حلف کی خلاف وزری کرتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔

عدالت نے آئی ایس آئی، ملٹری انٹیلیجنس اور انٹیلیجنس بیورو کے علاوہ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں

فیصلے کے آنے کی دیر تھی کہ دیوتا غصے میں آ گیا کہ کس میں اتنی جرات جو میرے آقا ہونے پر اُنگلیاں اُٹھائے۔ جسٹس فائز عیسیٰ سے پہلے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی بھی دیوتا کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کو متنازعہ بنانے کے لیے دیوتا کے ساتھ کچھ چھوٹے بُت بھی مل گئے ہیں، ان بُتوں نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ایک قرارداد پاس کروائی ہے۔

جسٹس کا قصور یہ ہے کہ وہ قانون کی بات کرتے ہیں، اُن کا ماننا ہے کہ جس معاشرے میں رولز آف لاء کی سپرمیسی ہوتی ہے وہ معاشرہ کبھی روبہ زوال نہیں ہوتا۔ جسٹس ثاقب نثار پشاور رجسٹری میں ہسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کی کیس کی سماعت کر رہے تھے اس بنیچ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ جسٹس منصور شاہ بھی تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو جسٹس عیسی نے وکیل سے پوچھا کہ یہ کیس سپریم کورٹ تک کیسے پہنچا، اس کا پیٹشینر کون ہے؟ وکیل نے بتایا کہ عدالت نے 184/3 کے تحت ازخود نوٹس لیا تھا۔ اس پر جسٹس فائز نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ ایک بینچ تشکیل دیا جائے جو 184/3 کی تشریح کرے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ہسپتالوں کے فضلے کو ٹھکانے لگانے پر سوموٹو لیا تھا اور بینچ تشکیل دیا تھا۔ انہوں نے سماعت کے دوران ہی فائز عیسیٰ کے قانونی سوالات سے بچنے کے لیے بینچ ہی تحلیل کر دیا تھا۔ ثاقب نثار جانتے تھے کہ فائز عیسیٰ رولز آف لاء کی سپر میسی کی بات کرتے ہیں، وہ مصلحت کا شکار نہیں ہوتے۔

دھرنا کیس میں بھی وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے بلکہ انھوں نے خرابیوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر معاشرے کو تباہ ہونے سے بچانا ہے تو یہ اقدامات کرنا ہوں گے۔ مجھے یہاں ایک مثال یاد آ رہی ہے مثال ہے تو بڑی پامال لیکن ہے کمال کی کہ کتا کنویں میں رہے اور پانی پاک ہو جائے آخر یہ کیسے ممکن ہے۔ پانی کو پاک کرنا ہے تو پھر کتے کو کنویں سے نکالنا ہو گا۔ عمران خان ہر جلسے میں اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ وہ معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے جہاں کمزور کے لیے علحیدہ قانون اور طاقتور کے لیے علحیدہ قانون ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران عدلیہ کے دیے گئے فیصلے پر عمل کرتے تاکہ بائیس کروڑ عوام بھی جان جاتے کہ حکمران جو کہتا ہے وہ کرتا بھی ہے۔ مگر ہوا اس کے اُلٹ، حکمران کنویں سے کتا نکالنے کی بجائے قاضی سے مزید فتویٰ لینے کے لیے عدالت میں چلا گیا ہے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui