ڈاکٹر جمیل جالبی کے ہونے سے ماحول خوشگوار تھا


یہ اُس وقت کی بات ہے جب میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم اے صحافت کا طالب علم تھا۔ ہم مطالعاتی دورے پر کراچی گئے۔ اُن دنوں غیرکراچی والوں کو کراچی جاتے ہوئے بہت سی دعاؤں اور فکرمندیوں کے ساتھ روانہ کیا جاتا تھا۔ اکثر گھر والے کراچی جانے والے عزیزو اقارب کو قرآن پاک کے نیچے سے گزار کر یا امام ضامن باندھ کر یا کالے بکروں کے صدقے کی منت مان کر رخصت کرتے تھے۔ اُن دنوں کراچی میں کسی اور کا نہیں صرف گولی کا طوطی بولتا تھا۔

گلی محلوں اور سڑکوں پر گولیوں کی بے رحم آوازیں سنائی دیتی تھی یا بوری بند لاشیں ملتی تھیں۔ اُن دنوں کراچی کی درس گاہوں میں طالب علم علم کی نہیں قاتل قتل کی تعلیم پاتے تھے۔ اُن دنوں کراچی انسانوں کی خوشبو سے زیادہ لاشوں کی بدبو کا شہر تھا۔ اُن دنوں کراچی روشنیوں کی جگہ اندھیروں کا نگر تھا۔ عین انہی دنوں میں ہم شعبہ صحافت کے طالب علم کراچی ریلوے سٹیشن پر اترے اور پنجاب کے بے فکری والے قہقہوں کے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے ہاسٹل کی بس میں سوار ہوگئے۔

بس میں سوار ہوتے ہی ہمیں کراچی کے اُس وقت کے زمینی حقائق کو ملحوظ خاطر رکھنے کا احساس دلا دیا گیا۔ اس وقت کے کراچی کے زمینی حقائق کو پلے باندھ کر ہم نے کراچی یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات اور لائبریری وغیرہ سے اپنے مطالعاتی دورے کا آغاز کیا۔ مختلف سیمینارز اور کانفرنسیں اٹینڈ کیں، مباحثوں میں حصہ لیا اور یوں چند دن گزر گئے۔ ہر آنے والا دن ہمارے تذبذب میں اضافہ کرتا جاتا کیونکہ کراچی یونیورسٹی میں ہمارے قیام کے دوران نہ تو کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا اور نہ ہی کسی ناخوشگوار واقعے کا امکان نظر آیا۔

اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہاں ہرطرف امن ہی امن تھا۔ معاملہ کچھ یوں تھا کہ تناؤ اور نفرتیں موجود تھیں لیکن کسی کے رعب یا احترام کی وجہ سے بے بس تھیں۔ اس طرح کی کیفیت میں ہماری دلچسپی یہ جاننے کو بڑھ گئی کہ آخر وہ کون ہے جس کی وجہ سے کراچی یونیورسٹی کا ماحول بظاہر پرامن ہے اور یہ پرامن ماحول کافی عرصے سے چلا آرہا ہے۔ ہمیں زیادہ محنت نہ کرنا پڑی اور بہت جلد معلوم ہوگیا کہ کراچی یونیورسٹی کا ڈسپلن برقرار رکھنا اُس وقت کے وائس چانسلر کا ہی کارنامہ ہے۔

شیڈول کے مطابق کچھ دنوں بعد ہم کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے ملنے گئے۔ ہمیں مہمانوں کے کمرے میں بٹھایا گیا جو بہت سادہ تھا۔ چند منٹوں بعد بردبار شخصیت والے وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب سادہ اجلے لباس میں ملبوس ہمارے سامنے آئے اور قریب کی کرسی خود ہی کھینچ کر ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ اُن کے چہرے پر مسکراہٹ اور بردباری دونوں بیک وقت موجود تھیں۔ انہوں نے بیٹھتے ہی ہماری خیریت پوچھی اور ہمارے مطالعاتی دورے کے بارے میں جاننا شروع کیا۔

وہ سب کو اجتماعی طور پر دیکھ رہے تھے لیکن ہم میں سے ہر طالب علم یہ محسوس کررہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب صرف اُسی کو دیکھ کر مخاطب کررہے ہیں۔ یہ اُن کی شخصیت کا دلفریب انداز تھا۔ ہمارے کراچی میں قیام کے دوران یہ پہلا موقع تھا کہ ہم سب طالب علم خوف و ہراس کی محتاط گفتگو کے بغیر کھل کر وائس چانسلر ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب سے باتیں کرنے لگے اور یقینا اس کا حوصلہ ہمیں جالبی صاحب نے ہی دیا۔ اُن سے بات کرتے ہوئے یہ بالکل محسوس نہیں ہوا کہ وہ سینئر بیوروکریٹ یعنی انکم ٹیکس کمشنر بھی رہ چکے تھے اور وہ اُس وقت انکم ٹیکس کمشنر رہے تھے جب انکم ٹیکس کے چپڑاسی کے آگے بھی بڑے سے بڑا ڈاکو تھرتھر کانپتا تھا۔

اُن کے مزاج پر بیوروکریٹ کی بجائے ایک سکالر اور علمی شخصیت کا غلبہ تھا۔ اس کی وجہ ان کا بچپن سے ہی ادبی شوق تھا۔ وہ 12 جون 1929 ء کو یوسف زئی خاندان میں علی گڑھ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سکول کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کی، میٹرک سہارن پور اور بی اے میرٹھ کالج سے کیا۔ انہوں نے بارہ برس کی عمر میں اپنی پہلی کہانی ”سکندر اور ڈاکو“ لکھی جسے سکول میں ڈرامے کے طور پر سٹیج کیا گیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب قیام پاکستان سے دو دن قبل یعنی 13 اگست 1947 ء کو ہندوستان سے کراچی آگئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کی۔

انہوں نے اپنا تعلیمی اور ادبی سفر کراچی آکر بھی جاری رکھا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے ایم اے اور قانون کی ڈگریاں سندھ یونیورسٹی سے حاصل کیں۔ انہوں نے 1972 ء میں قدیم اردو ادب پر مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی اور 1978 ء میں مثنوی کدم راؤ اور پدم راؤ پر ڈی لٹ کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔ وہ کراچی یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کے بعد 1987 ء میں اسلام آباد آئے اور مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین یعنی چیئرمین مقرر ہوئے۔

وہ مقتدرہ قومی زبان کے چوتھے چیئرمین تھے۔ اُن سے قبل پہلے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، دوسرے میجر (ر) آفتاب حسن اور تیسرے ڈاکٹر وحید قریشی بھی مقتدرہ کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ عجب اتفاق دیکھئے کہ مقتدرہ قومی زبان کے اِن چاروں چیئرمینوں کے دنیا سے جانے کی ترتیب بھی وہی رہی جو مقتدرہ میں ان کی تعیناتی کی ترتیب تھی۔ یعنی سب سے پہلے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی پھر میجر (ر) آفتاب حسن پھر ڈاکٹر وحید قریشی اور اب ڈاکٹر جمیل جالبی 18 اپریل 2019 ء کو ہم سے جدا ہوگئے۔

ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کی شہرۂ آفاق تصانیف اور مُرتبہ اہم کتب میں قومی انگریزی اردو لغت، فرہنگ اصطلاحات، ارسطو سے ایلیٹ تک، پاکستانی کلچر، معاصرِ ادب، قومی زبان۔ یک جہتی نفاذ اور مسائل، ایلیٹ کے مضامین، ادبی تحقیق اور تاریخ اردو ادب جلد اول تا چہارم وغیرہ شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ہلال امتیاز اور ستارۂ امتیاز سے نوازا۔ جب ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب مقتدرہ قومی زبان کی چیئرمین شپ سنبھالنے اسلام آباد آئے تو اُن سے میری اسلام آباد ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی۔

میں نے اُن سے پوچھا کہ مقتدرہ جیسے علمی ادارے کو کامیابی سے چلانے کے لیے اُن کے نزدیک سب سے اہم بات کیا ہوگی؟ ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب نے کہا کہ ”میں اس ادارے کا سربراہ ہوں، میری حیثیت اس ادارے میں خاندان کے باپ جیسی ہے، میں چاہوں تو گھر کا ماحول خراب کرسکتا ہوں اور چاہوں تو سب کام خوشگوار ماحول میں لے سکتا ہوں“۔ جالبی صاحب نے ماحول کو خوشگوار رکھ کر خوب علمی کام لیا اور اپنا کہا سچ کر دکھایا۔ اب انہیں ہمیشہ کے لیے رخصت کرتے ہوئے احساس ہو رہا ہے کہ علمی خاندان کا ایک اور سربراہ چلا گیا جس کے ہونے سے ماحول خوشگوار تھا اور نہ ہونے سے اداس ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).