الجھی ’’زلف‘‘ سنوارنے میں سپیکر کی بے بسی


غالبؔ کا ایک بہت ہی خوب صورت شعر صبح سے ذہن میں گونج رہا ہے۔مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے موجودہ حالات پر غور کرتے ہوئے یہ شعر دماغ میں کیوں آیا۔ اس کا ایک قطعی سیاسی معاملے سے تعلق کیا ہے۔

جو شعر دماغ میں چپک گیا بظاہر بہت سادہ ہے۔ شاعر کا محبوب شاید لبِ بام یا گھر کے آنگن میں بیٹھا اپنی زلفیں سنواررہا تھا۔ غالباََ اس کے بال بہت گھنگریالے تھے۔ محبوب کو انہیں سیدھا کرتے ہوئے سنوارنے میں بہت دِقت کا سامنا تھا۔ ’’آزمائشِ خم کاکل‘‘ کے لئے ہوئی مشقت نے مگر غالبؔ کو ’’اندیشہ ہا ے دور ودراز‘‘ میں مبتلا کردیا۔

اس شعر میں اجاگر ہوئے منظر کے مقابلے میں اس رپورٹر کا معاملہ بہت سادہ ہے۔پیر کی شام قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں کئی گھنٹے بیٹھ کر جمائیاں لینے کو مجبور ہوا تو بیزاری ختم کرنے پریس لائونج میں آگیا۔ میرے وہاں بیٹھنے کے چند ہی لمحوں بعد بلاول بھٹوزرداری قومی اسمبلی کے ایوان میں داخل ہوئے۔

اپنی نشست پر پہنچتے ہی انہوں نے سپیکر سے ’’ذاتی وضاحت‘‘ کی بنیاد پر گفتگو کی اجازت حاصل کرلی۔موصوف کی تقریر شروع ہوئی تو پریس لائونج میں تھرتھلی مچ گئی۔صوفوں پر نیم درازہوئے رپورٹر ہڑبڑاکر اُٹھے اور اپنے موبائل فونوں کو مذکورہ تقریر کے اہم نکات ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے۔

پریس لائونج میں مچی ہل چل نے مجھے گیلری میں لوٹنے کو مجبور کردیا۔بلاول بھٹو زرداری کی تقریر یقینا بہت Engaging تھی۔وزیر اعظم نے حال ہی میں اپنی کابینہ میں جو حیران کن تبدیلیاں کی ہیں ان کی وجہ سے متاثر ہوئے وزراء کے زخموں پر موصوف نے اذیت بھرا نمک چھڑکا۔

اسد عمر کے لتے لئے۔ شہر یارآفریدی کو طنزیہ انداز میں یاد کیا۔ حتیٰ کہ’’فواد بھائی کو کیوں نکالا؟‘‘ کی دہائی بھی مچادی۔حفیظ شیخ کی تعیناتی بقول ان کے اس بات کی علامت تھی کہ عمران حکومت کو بھی بالآخر ’’عطار کے (اُسی) لونڈے‘‘ سے شفا یابی کی توقع ہے جو تین برس تک آصف علی زرداری کی بنائی وفاقی حکومت کی معاشی پالیسیاں چلارہے تھے۔

تحریک انصاف کا اصرار رہا ہے کہ ان پالیسیوں نے ملکی معیشت کو تباہ کیا۔ پاکستان کو IMF کا غلام بنایا۔ عالمی اداروں کا مقروض بنایا۔ ایک ’’نااہل‘‘ شخص (حفیظ شیخ) کو وزارتِ خزانہ سونپ کر درحقیقت بقول بلاول بھٹو زرداری ’’ایک Selected وزیر اعظم‘‘ نے ا پنی ’’نااہلی‘‘ ثابت کردی ہے۔

عمرایوب اس لفظ کے استعمال تک خاموش تھے۔ Selected کا لفظ سنتے ہی بھڑک اُٹھے۔ اپنی نشست سے اُٹھے اور بلند آواز میں سپیکر کو یاد دلایا کہ ایک ایسے وزیر اعظم کو جسے قومی اسمبلی نے اکثریت سے منتخب کیا تھا “Selected” پکارنا اس ایوان کی توہین ہے۔ اسد قیصر نے ان کی رائے سے اتفاق کیا تو بلاول بھٹو زرداری نے انہیں ’’جانبدار‘‘ ٹھہرایا۔

عمرایوب کے اُکسائے شوروغوغا سے طیش میں آکر دھمکی دی کہ اگر ان کی تقریر میں تحریک انصاف کی اراکین کی جانب سے شوروغوغا کے ذریعے مداخلت جاری رہی تو وزیر اعظم عمران خان کو بھی اس ایوان میں داخل ہونے سے قبل ’’سوچنا‘‘ ہوگا۔

تحریک انصاف ان کی ’’تڑی‘‘ سے پریشان نہ ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری پر فقرے کستے رہی۔ ان میں سے کئی فقرے میں اس کالم میں لکھ نہیں سکتا۔ ان فقروں نے مگر پیپلز پارٹی والوں کو مشتعل کردیا۔ خواتین اراکین سمیت وہ ایک غصے میں بپھرے گروہ کی صورت وزارتی بنچوں کے گرد جمع ہوگئے۔کاغذات پھاڑکر عمرایوب پر اُچھالتے رہے اور پھر ’’گو نیازی گو‘‘ کی تکرار شروع ہوگئی۔

پریس گیلری میں موجود ہر صحافی کی توجہ وزارتی بنچوں کے گرد جاری تماشے پر مرکوز رہی۔ ’’زلف‘‘ گویا اُلجھ گئی۔ اسے ’’سنوارنا‘‘ سپیکر کے بس میں نہ رہا۔ میری توجہ مگر پاکستان مسلم لیگ (نون) کے بنچوں پر مرکوز ہوگئی۔قومی اسمبلی میں اِس جماعت کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین کی تعداد 88کے قریب ہے۔

پیر کی شام ان میں سے 40 کے قریب افراد ایوان میں موجود تھے۔ شاہد خاقان عباسی اور رانا تنویر دھیمے مزاج کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔رانا ثناء اللہ اور مرتضی عباسی مگر ’’جلوہ‘‘ لگانے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اراکین پیر کی شام مگر بہت ہی کنفیوز نظر آئے۔طے نہ کر پائے کہ اپنی نشستوں سے اُٹھ کر پیپلز پارٹی کے لوگوں کے ساتھ’’گو نیازی گو‘‘ والے نعرے بلند کرنا شروع ہوجائیں یا اپنی نشستوں پر لاتعلق ہوئے براجمان رہیں۔

پیپلزپارٹی کا لگایا ’’محاذ‘‘ اپنی جگہ ڈٹا رہا تو بالآخر بے دلی سے پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکین کے لئے مخصوص نشستوں سے کئی افراد اپنی دانست میں اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت سے Solidarity کے اظہار کے لئے خاموشی سے کھڑے ہوگئے۔ صحافیوں کی اکثریت نے ’’یکجہتی‘‘ کے اس اظہار کا نوٹس ہی نہیں لیا۔

میں اگرچہ ان کے رویے پر غور کرتے ہوئے ’’اندیشہ ہائے دورودراز‘‘ میں مبتلا ہوگیا۔قومی اسمبلی میں 88اراکین کی بھاری بھر کم تعداد کے باوجود نواز شریف کے نام سے منسوب جماعت کو قطعاََ سمجھ نہیں آرہی کہ وہ اس ایوان میں اپنی موجودگی کو کس انداز میں ثابت کرے۔

’’بیانیہ‘‘ ان دنوں ہمارے میڈیا میں ضرورت سے زیادہ ا ستعمال ہوتا ہے۔ مجھے اس لفظ سے چڑ ہے۔ انگریزی زبان میں یہ کالم لکھ رہا ہوتا تو کہہ دیتا کہ پاکستان مسلم لیگ (نون) قومی اسمبلی میں بغیرکسی سکرپٹ کے فقط حاضری لگوانے آتی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ والا نعرہ عرصہ ہوا وہ بھلا چکے۔

شہباز شریف صاحب کی نام نہاد Pragmatic لائن اپنانے کو مجبور ہوئے۔ یہ لائن بھی لیکن اب ان کے لئے کارآمد نظر نہیں آرہی۔قائد حزب اختلاف ویسے بھی ملک میں موجود نہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (نون) کے اراکین قومی اسمبلی کو سمجھ نہیں آرہی کہ جائیں تو جائیں کہاں۔

ایسے میں کسی ظالم نے ’’درفنطنی ‘‘چھوڑی ہے کہ چودھری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے والے ہیں۔ انہوں نے حلف اٹھالیا تو ’’فارورڈبلاک‘‘ بن جائے گا۔ یہ بات البتہ کوئی نہیں سمجھ رہا کہ ممکنہ ’’فارورڈبلاک‘‘ عمران حکومت کو سہارا دے گا یا فقط نواز شریف سے جدائی کا حتمی اظہار ہوگا۔

یہ اظہار تو ایک حوالے سے کب کا ہوچکا۔ ’’فارورڈ بلاک‘‘ تو حقیقتاََ شہباز شریف کی Pragmatic لائن کی ناکامی کا شاخسانہ ہوگا۔ چودھری نثار علی مگر شہبازشریف کے ’’دوست‘‘ گردانے جاتے تھے۔ وہ ان کے خلاف ’’گیم‘‘ کیوں لگائیں گے؟ کاش اس سوال کا جواب کوئی دے پائے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).