صرف آپ ہی خلیفہ خدا نہیں ہیں


جس طرح پی ٹی آئی نے ماؤزے تنگ سے کچھ قدم بڑھ کر ہی نیم خوابیدہ قوم کو خواب خرگوش سے بیدار کیا ہے مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ علامہ اقبال کی دی گئی بیداری بھی کچھ کم ہی تھی، اس بات کی تو میں بالکل معترف ہوں کہ قائداعظم نے اپنا بارمنصب عمران خان صاحب کو سونپتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے ادھورے کام اب تم ہی پورے کروگے۔ پرانا پاکستان ڈھا کر نیا کی بنیاد رکھنا۔

بہرحال قصہ مختصر، باقی ساری باتیں بالائے طاق رکھ کر صرف ایک بات کا کریڈٹ ایک جماعت کو مکمل طور پر جاتا ہے کہ اس نے لوگوں کو دو مختلف دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان پرایمان لا آنے والے مکمل طور پر یہ حق رکھتے ہیں کہ دوسرے کی اختلاف رائے، درحقیقت ان کی کم عقلی، یا پھر پاکستان مخالف ہونے کی دلیل ہے۔

کسی بھی چیز کہ دو پہلو ہوتے ہیں اگرچہ زیادہ ہوں گے لیکن لڑائی بڑھانے سے پرہیز کی خاطر چلیں دو پر ہی اکتفا کر لیتے ہیں۔ اب ان دونوں پہلوؤں کو آپ اچھا برا، ہاں نہیں یا مثبت منفی میں تقسیم کر لیں۔ ہر انسان یا اس کی پالیسیز صحیح بھی ہو سکتی ہیں غلط بھی۔ غلط کو غلط تسلیم کرنا بھی عقل مند کی نشانی ہوتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ آپ بانی ثانی کی سب پالیسز کو عین ضرورت وقت ثابت کرنے کے لئے ان کے ہر سچ جھوٹ کو اپنی محب وطنی ثابت کریں یہ ضروری نہیں۔ دوسری بات مخالفین کے لئے تضحیک آمیز الفاظ، ان کا مسلسل مذاق یہاں تک کہ سیاست دانوں کی ذاتیات یا ان کی سچی جھوٹی بیماری کا مذاق اڑانے کے آپ حق دار نہیں ہیں۔

We are not supposed to judge anyone!

میرا خیال ہے کہ یہ ہی ایک مسئلہ ہے ہمارا۔ ہم دوسروں کو جج کرنا اپنے اوپر فرض سمجھتے ہیں۔ اور اپنی افلاطونی ہر حال میں دوسرے پر سچ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے کبھی کبھی اس معاشرے کی وہ صورت حال لگتی ہے کہ ہم ہر مخالف کو زہر پلانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔

تلخ کلامی اور مخالف لوگوں کے ”جاہل“ ہونے کو ہم من و عن تسلیم کر بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ جن سیاست دانوں کے گدھوں کو ہم گھوڑے ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان میں سے اکثر اس قابل نہیں کہ ہم انہیں لیڈران کا درجہ دے کر ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیں۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ پڑھے لکھے افراد جب دوسرے لوگوں کو کم عقلی کا ٹیگ دیتے اور جن القابات کا استعمال کرتے ہیں وہ بذات خود کسی اعلی ظرف انسان کی زبان سے نکلتے ہوئے کچھ خاص اچھے محسوس نہیں ہوتے۔

ہر انسان معیشت دان نہیں بن سکتا ہر انسان سیاست دان نہیں بن سکتا لیکن ہم واحد قوم ہیں کہ اس میں ہر ریڑھی والا اور ہر دکان دار معیشت دان ہے۔ ایسا اس لئے ہے کہ کسی ڈگری کہ بغیر آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آٹے دال کا بھاؤ کل کیا تھا اور آج کیا ہے۔ جو انسان کل اپنے بچوں کے لئے دال روٹی کا بندوبست کرتا تھا اگر آج ممکن نہیں ہو رہا تو ماضی قریب یا بعید کا کوئی شخص ذمہ دار تھا یا نہیں لیکن آج جو تخت پر بیٹھا ہے وہ جواب دہ ہے۔

اور ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ اس کو تنقید کا نشانہ بنائے یا ذمہ دار ٹھرائے۔ اب اس بات پر تنقید ایسے کی جاتی ہے جیسے پرانے پاکستان کے باشندے ڈارون کے زمانے کے وہ ہومو سیپینز ہیں جو تازہ تازہ بندر سے ارتقاؑ پا کر انسانی نسل میں زبردستی آورد ہوئے ہیں ان کو سوائے گالیاں دینے، کم عقل کہنے، یا کرپشن کے حامی ہونے کے القابات دینے کے علاوہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔

خدارا۔ صرف آپ ہی خلیفہ خدا نہیں ہیں باقی بھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور شاید آپ سے زیادہ ہی رکھتے ہوں۔ ہر اچھی چیز کا ساتھ دیجیئے لیکن اپنی زبان کو اس سمت میں استعمال کرنے سے گریز کریں جو ہمارے سیاست دانوں کا وتیرہ ہے۔ ان کی قبر کے معاملات ان کے ساتھ ہیں آپ اپنی بدزبانی سے اجتناب کریں۔

نوٹ۔ اب اس تحریر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں نے مخالف پارٹی سے پیسے کھائے ہیں یا لکھتے وقت میرے اوپر مخالف پارٹی سے وحی اتری تھی۔ شکریہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).