علم سسرال اور آئینی پیچیدگیاں


کئی رشتوں کے مرکب کو سسرال کہتے ہیں، اجزائے ترکیبی میں ساس، سسر، سالا، سالی، نند، دیور اور دیورانی وغیرہ شامل ہیں۔ میرا دوست ملک کہتا ہے کہ ضروری نہیں کہ سبھی رشتے ہوں، تبھی سسرال بنتا ہے بلکہ شوہر اور بیوی کی ایک اولاد کی موجودگی اس عظیم رشتے تک پہنچا سکتی ہے جسے سسرالی گھرانہ کہتے ہیں۔

داماد کی جس گھر میں سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے، وہ سسرال ہوتا ہے اس لیے شوہر حضرات دبے لفظوں اس خواہش کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ایسے گھروں کی تعداد زیادہ ہو جنہیں وہ سسرال کہہ سکیں مگر بے چارے صرف سوچ سکتے ہیں کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ اگر اس خواہش کو عملی جامہ پہنالیا تو پھر شاید یہ گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔

ملک کہتا ہے کہ داماد کی سسرال میں عزت اس لیے کی جاتی ہے، دراصل انہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہی وہ عظیم شخص ہے جس نے ہماری مصیبت کو گلے لگا کر ہمارے گھر کا چین سکون قائم رکھا ہوا ہے۔

اس کے برعکس بہو کی سسرال والوں سے بالکل نہیں بنتی، اس لیے ساس اور بہو کی نوک جھوک کو پورا محلہ ملاحظہ کرتا رہتا ہے، پاک بھارت سرحدی علاقے کی طرح ایک دوسرے پہ فائرنگ جاری رہتی ہے اور کبھی کبھار سیزفائر بھی ہوجاتا ہے تاہم اکثر ماحول کشیدہ رہتا ہے۔

بہو اپنے سسرال کو اسرائیل سے نفرت کی وجہ سے سسرائیل کہتی ہے جبکہ داماد کے لیے سسرال سکون اور عزت کی جاہوتا ہے تو وہ اسے اپنا دارلسکون سمجھتا ہے۔
بہو کے لیے سسرال قید خانے کی مانند ہے تو شوہر کے لیے عیش و عشرت کی جگہ ہے، جہاں اسے ضرورت سے زیادہ عزت سے نوازا جاتا ہے۔

سسرال کو۔ ”ان لاز ’کہا جاتا ہے، “ لا ”کو قانون کہتے ہیں اور ہر سسرال کا اپنا قانون ہوتا ہے، دیکھنے میں آیا ہے کہ داماد تو رولز کو فالو کرتا ہے اور کچھ داماد سسرالی قوانین کی اتنی سختی سے پابندی کرتے نظر آتے ہیں جیسے پالتو کتا، مالک کے اشارے پر چلتا دکھائی دیتا ہے، شاید ایسے داماد کے لیے ہی“ سسرال کا کتا ”والی ضرب المثل بنی ہے۔

جبکہ دوسری جانب بہو اپنے ”ان لاز“ کے قانون کو بیانگ دہل چیلنج کرتی ہے اور ایسے دستور کو میں نہیں مانتی، میں نہیں جانتی کی بار بار گردان دہراتی رہتی ہے، جس سے گھر میں امن و امان کے خرابی کی صورت حال پیش رہتی ہے کیونکہ ”ان لاز“ میں موجود اعلیٰ جج صاحبہ اپنی رٹ منوانے کے لیے طرح طرح کے حربے استعمال کرتی ہے، کبھی اسے کامیابی مل جاتی ہے تو کبھی ناکامی کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔

بنیادی طور پر سسرال دو طرح کے ہوتے ہیں، شوہر کا سسرال اور دوسرا بیوی کا سسرال، دونوں میں صرف نام کی قدرہی مشترک ہے۔

اکثریت کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ شوہر اپنے سسرال سے مطمئن ہے جبکہ بیوی اپنے سسرال سے ناخوش ہے، اس کی وجہ ملک یہ بیان کرتا ہے بیوی خود کو قانون سمجھتی ہے اور ہر کسی کو اپنے اصولوں پر چلانا چاہتی ہے، شوہر اس کے اصول پر عمل پیرا ہو کر سکون حاصل کر لیتا ہے جبکہ ساس خود کو قانون سمجھتی ہے، اور دونوں کے قوانین کی کتابیں الگ ہیں اس وجہ سے مسئلہ پیدا ہوتا ہے جیسا کہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں آ سکتیں، ایک جنگل میں دو شیر بادشاہت نہیں کر سکتے، ایک ملک کے دو حکمران نہیں ہو سکتے، ایک آسمان پر دو چاند نہیں ہو سکتے، اسی طرح ایک گھر میں دو قوانین ایک ساتھ نہیں چل سکتے، جس کی وجہ سے بدنظمی ہوتی ہے اور پھر دونوں طرف سے گرجتے بادلوں کی طرح دلائل داغے جاتے ہیں، جس سے ہمیشہ شوہر حضرات ہی زخمی ہو کر کراہتے نظر آتے ہیں۔

حقیقت یہی ہے کہ سسرال میں بہو کو بیٹی نہیں سمجھا جاتا جبکہ اس کے برعکس داماد کو سسرال میں سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، ہم سب کے سسرال آباد رہیں اور جن کے سسرال نہیں ہیں اللہ انہیں بھی جلد سسرالی رشتہ عنایت فرمائے تاکہ وہ ہماری بات کو بآسانی سمجھ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).