البتہ قاضی فائز عیسیٰ اکہرے غدار ہیں


کیا آپ نے کبھی غورکیا ہے کہ بعض لوگ اکہرے نہیں بلکہ دوہرے غدار ہوتے ہیں۔ یعنی ایک زمانے میں ایسے لوگوں کے باپ دادا کو ملک سے غداری کے اسناد جاری ہوچکے ہوتے ہیں جبکہ موجودہ وقت میں ان کے نام بھی ملک دشمنوں کی فہرست میں نکل آتے ہیں۔ بلاشبہ، ایسے غداروں پر کڑی نظر رکھنانہ صرف ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ ہرعام پاکستانی کو بھی اس قسم کے عناصر سے پوشیار رہنا چاہیے۔

اس طرح کی دوہری اور موروثی غداری کے ضمن میں ہمارے پاس پشتونوں میں مرحوم ولی خان ابن ِباچاخان، محمودخان اچکزئی ا بن عبدالصمدخان، بلوچوں میں مرحوم نواب خیربخش مری، سردار اختر مینگل جبکہ سندھ میں غلام مرتضیٰ المعروف جی ایم سید اس کی بین مثالیں ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ نامی گرامی جج قاضی فائز عیسیٰ بھی مرض غداری میں مبتلا ہوئے ہیں تاہم ان کا معاملہ مذکورہ بالا غداروں سے قدرے مختلف بتایا جاتا ہے۔

قاضی فائزعیسیٰ غدارضرور ہیں لیکن موروثی اور دوہرا غدار ہرگز نہیں۔ کیونکہ اُن کے والد قاضی محمد عیسیٰ مرحوم کا شمار تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ جنہوں نے کبھی پاکستان دشمن سیاسی جماعت کانگریس کا ساتھ دیاتھا اور نہ ہی تقسیم کے بعد نئے ملک میں بعض قوم پرستوں کی طرح حکومت مخالف تحریکیں چلائی تھیں۔ قاضی محمد عیسیٰ کے آباواجداد ایک زمانے میں فغانستان کے تاریخی علاقے قندھار سے ہجرت کر کے پشین میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ خود وہ پشین ہی میں 1913 کو پیدا ہوئے، کوئٹہ کے سنڈیمن اور گورنمنٹ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر قانون تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے۔

واپسی پر بمبئی میں وہ قائداعظم محمد علی جناح سے مل کر ان کے وژن اور پروگرام سے متاثر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔ یہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے بلوچستان میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی۔ اپنے ساتھیوں سردار عثمان جوگیزئی، ملک جان محمد کاسی، ارباب کرم خان، غلام محمد ترین، میر جعفرخان جمالی اور سیٹھ محمد اعظم بلوچ کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ کو بلوچستان میں منظم اور فعال کیا۔ تیئیس مارچ 1940 کو لاہور میں قرار داد پاکستان کے جلسے میں انہوں نے نہ صرف محض شرکت کی حدتک بلوچستان کی نمائندگی کی تھی بلکہ اس اہم موقع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ تقسیم ہند سے دوسال قبل کوئٹہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اور منظم جلسہ منعقد کرنے پر محمدعلی جناح کو علی الاعلان یہ اعتراف کرنا پڑا ”بلوچستان کے لئے قاضی محمدعیسیٰ کا انتخاب ان کا بالکل مناسب فیصلہ تھا“۔

قاضی محمد عیسیٰ چھہتر سال کی عمر میں انتقال کرگئے اور ان کے صاحبزادے فائز عیسیٰ ان کے جانشین کے طور پر ابھرے۔ فائز عیسیٰ پیشے کے لحاظ سے قانون دان ہیں اور 2009 سے 2014 تک اپنے آبائی صوبے بلوچستان میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ یہ آج کل سپریم کورٹ آف پاکستان کے ممتاز جج کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں پہلے بھی کہا کہ الحمدﷲ موصوف موروثی غدار ہرگز نہیں ہیں تاہم قوم پرستوں کے گڑھ بلوچستان سے تعلق رکھنے کی بنا پرحب الوطنی ان سے بھی روٹھ گئی ہے۔

یوں ہم انہیں اکہرے غدار کہہ سکتے ہیں۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 کوسول ہسپتال میں خون آشام دہشت گرد حملے (جس میں وکلاء کی پوری کھیپ سمیت سو سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے) کے بعد جب سپریم کورٹ کی طرف سے قاضی صاحب کو اس سلسلے میں ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تو موصوف کا رویہ ٹھیک نہیں نکلا۔ چھپن دنوں کی کارروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں انہوں نے حکومت وقت، وزارت داخلہ اور حساس اداروں کی کارکردگی پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھائے تھے جو بلاشبہ ایک ملک دشمن جج ہی کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔

مثال کے طور پر اس رپورٹ میں قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ ”1، آٹھ اگست کو ہونے والے دونوں حملوں کا ایک دوسرے سے تعلق تھا اور ان آوروں کی شناخت تب ممکن ہوئی جب کمیشن نے مداخلت کی اور پولیس سے کہا کہ وہ ان کی فورنزک طریقہ کار کے ذریعے تصاویر لیں اور اخبارات میں شائع کریں، اس کے لئے انعام بھی مقرر کیا گیا اور نتیجتاً ایک شخص نے خودکش حملہ آوروں کی شناخت کی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں بھی بتایا۔

2، ان حملہ آوروں کی جانب سے کیا جانے والا یہ پہلا حملہ نہیں تھا، اگر ریاست کے کچھ عہدیدار اپنے گزشتہ حملوں کا فورنزک ریکارڈ محفوظ رکھتے اور کیس آگے بڑھاتے توشاید آٹھ اگست کے حملوں سے بچایا جا سکتا تھا۔

3، کمیشن کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں قانون پرعملدرآمد نہیں کیا جاتا اور اقربا پروری کا کلچر ہے جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر نا اہل افراد کوبھرتی کیا جاتا ہے، اس ضمن میں سیکرٹری ہیلتھ کا حوالہ دیا گیا جوکہ ایک وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے بھائی ہیں۔ ایف سی سول انتظامیہ کو جوابدہ نہیں ہے لیکن پولیس کے مقابلے میں اس کا کردار غیر واضح ہے۔

4، وزیراعلیٰ، وزیرداخلہ اور ان کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر حکومت کی ساکھ کو کمزور کیا، ان بیانات میں من گھڑت بیانات، بڑے پیمانے پر نشر ہوئے، تحقیقات میں خلل ڈالا اور غلط توقعات بیان کی گئیں۔

5، وزارت داخلہ کی جانب سے داخلی قومی سیکورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جا رہا، یہ وزارت غیر واضح لیڈر شپ اور ہدایات کے بغیر چل رہی ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنے کردار کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔

6، نیشنل ایکشن پلان بامعنی یا منظم منصوبہ نہیں ہے، نہ اس پر عملدرآمد کیاجا رہا ہے

7، انسداد دہشتگردی ایکٹ کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے، کالعدم تنظیمیں اب بھی اپنی غیر قانونی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اب بھی قانونی کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ ان کی جانب سے دہشت گرد حملے کیے جانے کے اعترافی بیانات نشر اورشائع ہوئے ہیں۔

8، وفاقی وزیرداخلہ نے اپنی ذمہ داری بہت کم نبھائی ہے اور ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا فقط ایک اجلاس منعقد ہوا ہے۔

9، وزارت مذہبی امور قریب المرگ وزارت ہے۔

10، مغربی سرحدوں کی نگرانی نہیں کی جا رہی حتیٰ کہ سرکاری طور پر موجود راستے پر لوگوں اور ممنوعہ اشیاء کی آزادانہ آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہیں، وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح پچھلے سال تحریک لبیک نے قانون رسالت کے معاملے پر جب جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے نقطہ اتصال فیض آباد پر دھرنا دیا تو اس وقت بھی قاضی فائز عیسیٰ ملک مخالف زبان بولنے لگے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے اس دھرنے کا ازخودنوٹس لینے کے دوران قاضی صاحب نے اپنے ریمارکس میں سوال اٹھایا تھا کہ ”ان دھرنوں کے پیچھے کون ہیں؟ انہیں کون لے کرآیا اور اس کا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ان دھرنوں کی وجہ سے عوامی جائیداد اور املاک توڑی جاتی ہے جس کا نقصان بالآخر عوام ہی کو بھرنا ہوتا ہے۔ حیف، قاضی صاحب نے اسی وقت بھی نہ صرف محدود ریمارکس دینے پر اکتفا کیاتھا بلکہ سرخ لائن کوعبور کرتے ہوئے کہا تھا کہ“ آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس ملک کو پارلیمنٹ نے چلانا ہے یا خفیہ اداروں نے؟

قاضی صاحب نے اس دوران یہ گستاخی بھی کی تھی کہ دھرنے کے دوران مختلف ٹی وی چینلز کیوں بند تھے؟ اور سوال اٹھایا تھا کہ کیا اب ہم کنٹرولڈ میڈیا سٹیٹ میں رہ رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ قاضی صاحب کی وطن دشمنی اب آشکار ہو چکی ہے اور ان کی غداری پر اب پنجاب بار کونسل کی ذیلی تنظیم کے چند ثقہ غازیوں نے بھی گواہی دی ہے کہ موصوف بھارتی زبان بول رہے ہیں لہٰذا ان کی نا اہلی پر تمام وکلاء کو یک زبان ہونا چاہیے۔ قاضی صاحب! اب لاکھ مرتبہ خود کو تحریک پاکستان کے غازی مرحوم قاضی محمد عیسیٰ کا خلفِ صادق باور کرا دے اور ہزار مرتبہ اس ملک کی تعمیر میں اپنے آباواجداد کا خون پسینہ شامل ہونے کی ہوا باندھیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اب سچے پاکستانی نہیں رہے،

قاضی صاحب! سن لیں اور ہمہ تن گوش ہو کے سن لیں،
تھے تووہ تمہارے آبا، مگر تم کیا ہو
ملک دشمنوں کی کشتی کا ناخدا ہو
(اقبال ؒ مرحوم کی روح سے معذرت کے ساتھ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).