نوشی باجی کے آنسو کون پونچھے گا؟


لڑکے لڑکیاں کھیل رہے تھے میں بھی ان میں شامل تھا، نوشی باجی قریب سے گزریں تو میں نے ان کا نام لیا۔ بچوں نے کھینچ کھانچ کر انہیں بھی کھیل میں شامل کر لیا۔ اتنے میں خالہ آ گئیں۔ ”یہ کیا تم لوگوں نے اتنی رات کو شور ڈالا ہوا ہے اور نوشی تم بھی ان بچوں میں شامل ہو گئی، کچھ عقل کرو تمہاری شادی ہو رہی ہے۔ “ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

”پتا ہے اماں! کان پک گئے ہیں یہ سن سن کر۔ “ خلافِ توقع نوشی باجی نے غصے سے کہا اور اندر چلی گئیں۔ خالہ حیرت سے وہیں گم سم کھڑی رہ گئیں۔ ”یہ اسے کیا ہوا ہے، ایسی تو نہیں تھی۔ “ خالہ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔

صبح ناشتہ کرنے کا مزا ہی کچھ اور تھا۔ دیسی گھی کے پراٹھے، آملیٹ اور مکھن۔ خالہ پراٹھے بنا رہی تھیں اوراور بچے کھاتے جا رہے تھے۔ ناشتے کے بعد بڑے لڑکے کچھ انتظامات کی باتیں کرنے لگے آج شام تیل وغیرہ کی رسم تھی۔ ہمیں ان سب سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔

میری امی نے خالہ سے لڑکے کی تصویر کے بارے میں پوچھا۔ در اصل یہ ارینجڈ میرج تھی۔ خالو نے کسی دوست کے توسط سے رشتہ ڈھونڈا تھا۔ خالہ بھی لڑکے کے خاندان سے زیادہ واقف نہیں تھیں۔ انہوں نے امی کو تصویر دکھاتے ہوئے بتایا۔ ”لڑکے کے حصے میں وراثت میں چالیس ایکڑ آتے ہیں۔ اچھا خاندان ہے۔ ان کا گاؤں کافی دور ہے لیکن آنا جانا مشکل نہیں ہے۔ “

”لڑکا پڑھا ہوا کتنا ہے؟ “ امی نے پوچھا۔

”سکول تو گیا تھا لیکن شروع میں ہی بھاگ گیا۔ اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا۔ ضرورت بھی نہیں ہے پڑھائی کی۔ اس نے اپنے ڈیرے پر گائے بھینسیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ روزانہ کا دو من دودھ بھی بک جاتا ہے۔ “ خالہ نے بتایا۔

”ہوں یہ تو خیر ٹھیک ہے لیکن اپنی نوشی تو کالج بھی جاتی رہی ہے۔ “ امی نے سرسری لہجے میں کہا۔

”ہاں بہن لیکن اس نے کون سا ڈاکٹر بننا تھا۔ دو سال پہلے اس کے ابا نے کالج سے اٹھا لیا تھا۔ اب اس کا بیسواں سال ہے، یہ رشتہ اچھا ہے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ اس لئے اس کے ابا نے ہاں کر دی۔ “ خالہ بولیں۔

”نوشی تو خوش ہے ناں۔ اس سے پوچھا تھا؟ “ امی نے کہا۔

”بہن تم شہر میں رہ کر کیسی باتیں کرنے لگی ہو۔ ہماری بیٹیاں انکار کرتی ہیں کبھی۔ نوشی بھی خوش ہے۔ میں نے جب اس کو بتایا تھا تو بے چاری شرما گئی تھی۔ تمہارے شہر والی لڑکیاں تو بے شرم ہوتی ہیں۔ خود لڑکا ڈھونڈ کر والدین سے کہتی ہیں کہ میری اس سے شادی کرا دو۔ شکر ہے ہمارے گاؤں میں ابھی شرم و حیا باقی ہے۔ “ خالہ برا سا منہ بنا کر بولیں اور امی چپ ہو گئیں۔

میں نے ان سے تصویر لے لی۔ تصویر والے بھائی صاحب بڑی بڑی مونچھوں والے خاصی بھاری بھرکم شخصیت لگ رہے تھے۔ میں وہ تصویر لے کر نوشی باجی کے پاس چلا گیا۔ آج مجھے موقع ملا تھا ان کو تنگ کرنے کا۔

”نوشی باجی پتا ہے میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ “ میں نے تصویر لہراتے ہوئے کہا۔ ”کیا ہے؟ “ نوشی باجی نے بیزاری سے کہا۔ ”یہی تو آپ کو پتا نہیں ہے۔ ان کی تصویر ہے جن سے آپ کی شادی ہو رہی ہے۔ “ میں نے شوخی سے کہا۔

”توبہ ہے وصی۔ میری شادی جن سے نہیں ایک بندے سے ہو رہی ہے۔ “ وہ بھی ہنس پڑیں۔ ”آپ یہ تصویر نہیں دیکھیں گی؟ “ میں نے پوچھا۔ ”جی نہیں۔ میں نے دیکھی ہوئی ہے۔ “ نوشی باجی نے بات ختم کر دی۔ میں مایوس ہو گیا۔ میرا خیال تھا وہ کہیں گی مجھے دکھاؤ پھر میں ان کو تنگ کروں گا، تصویر نہیں دوں گا لیکن انہوں نے بات ہی ختم کر دی۔ انہیں کوئی کام یاد آ گیا تھا وہ چلی گئیں اور میں خالہ کے پاس واپس آ گیا۔

شام کو تیل کا فنکشن ہوا۔ خوب میوزک بجا۔ لڑکیوں نے ڈھولک بجا بجا کر گیت گائے۔ رات کو فنکشن کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لئے چلے گئے۔ میں اپنی چارپائی پر لیٹا تھا۔ واش روم جانے کے لئے اٹھا تو صحن سے گزرتے ہوئے میں نے نوشی باجی کو دیکھا وہ بڑی آہستگی سے چل رہی تھیں۔ میں دبے پاؤں ان کے پیچھے چل پڑا سوچا ان کو تنگ کرنے کا موقع ملا ہے وہ بھی مجھے تنگ کرتی ہیں۔

میں نے دیکھا وہ سٹور کے دروازے پر رکیں پھر اندر چلی گئیں۔ شاید کسی کے لئے کمبل وغیرہ لینے گئی ہیں۔ میں یہی سوچتے سوچتے سٹور کے دراوزے پر پہنچ گیا۔ پھر میں نے بھی اندر قدم رکھا۔ نوشی باجی نے ایک صندوق کھولا ہوا تھا۔ میری آہٹ سن کر وہ ایک دم گھبرا کر پلٹیں۔ ”کیا ہوا آپ ڈر کیوں گئیں؟ “ میں نے شوخی سے کہا۔ ”تم اتنی رات گئے کیا کر رہے ہو؟ جاؤ جا کر سو جاؤ۔ “ انہوں نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

”میں تو یہ دیکھنے آیا تھا کہ آپ کیا کر رہی ہیں َ“ میں نے جلدی سے کہا۔

”میری جاسوسی کر رہے ہو؟ چلو جاؤ۔ “ انہوں نے مجھے بھگانے کی کوشش کی۔

”میں نہیں جاتا۔ “ میں نے یونہی ضد کی۔

”وصی پلیز جاؤ، مجھے تنہا چھوڑ دو۔ “ اس بار نوشی باجی نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ میں چپ چاپ باہر نکل آیا۔ باہر نکلتے ہوئے میں نے ایک بار پھر اندر جھانکا۔ نوشی باجی صندوق سے کچھ نکال رہی تھیں۔ پتا نہیں میرے کان بجے تھے یا واقعی میں نے ایک سسکی کی آواز سنی تھی۔ میں واش روم سے ہو کر جب اپنی چارپائی پر لیٹا تو اس واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ آخر نوشی باجی کیا چھپا رہی تھیں۔ اس صندوق میں کیا تھا۔ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ یہی سوچتے سوچتے نہ جانے کب مجھے نیند آ گئی۔

صبح ناشتے کے بعد خاصی گہما گہمی تھی۔ شام کو مہندی کا فنکشن تھا اور تیاریاں ابھی سے شروع ہو گئی تھیں۔ شامیانے لگائے جا رہے تھے۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ نوشی باجی اپنی سہیلیوں میں گھری بیٹھی تھیں۔ میں ان کے قریب سے گزرا تو انہوں نے بلا لیا۔ وہ مجھے دیکھ کر ہنسنے لگیں اور باتیں کرنے لگیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3