عمران خان اور جذباتی عدم توازن


 پھر یوں ہوا کہ میدان میں بد زبانی کے ہتھیار سے لیس اور سیاست و تہذیب سے بے بہرہ ایک شخص کو سیاسی لیڈر کی عبا پہنا کر اُتارا گیا کم عمر اور شعور و تجربے سے تہی نوجوانوں کے معصوم اذھان کو نفرت سے لبالب بھر دیا گیا۔ میڈیا پر زھر افشانی کی خاطر ایسے ایسے چہرے لا کر بٹھائے گئے جن کے ضمیر غائب اور زبانیں ان کے قد سے بھی لمبی تھیں۔ اور پھر اس منصوبے سے تحریک انصاف نامی جماعت برآمد ہوئی۔

جولائی دوھزار اٹھارہ میں چور چور کے بے معنی منشور کے ساتھ ایک عدد الیکشن بھی برائے ضرورت کھیلا گیا۔ اور پھر یوں ہوا کہ ایک مطلوب اور پسندیدہ وزیراعظم ہاتھ لگا جس نے پہلے ہی دن ایوان صدر میں غلط الفاظ بول کر حلف بھی اُٹھا لیا۔ ظاہر ہے اس ”انتظام“ کے بعد ملک کی باگ ڈور اس وزیر اعظم اور اس کے ان ساتھیوں نے سنبھالنی تھی جن کا کل سیاسی اثاثہ گالیوں اور بہتان طرازیوں کے علاوہ کہیں نظر نہیں آیا تھا حتٰی کہ اس پارٹی نی پانچ سال تک ایک صوبے میں حکومت بھی چلائی سو اس انتظام کے بعد یہی ہونا تھا جو ہو رہا ہے۔

اب حیرت اور پچھتاوے کے بے سایہ و بے ثمر اشجار ہیں اور دشت نا اُمیدی میں بھٹکتی ہوئی ایک جذباتی لیکن بد نصیب قوم۔ یہ اسی انتظام ہی کا ثمر ہے کہ اکیس کروڑ عوام اور مملکت پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی گُل افشانیٔ گفتار نہ صرف پاکستان دُشمنوں کے چھروں پر ایک طنزیہ اور طمانیت بھری مسکراہٹ بکھیر دیتی ہے بلکہ اس وطن کے ہر باشندے کا سر دن بدن خم ہوتا جا رہا ہے اور آخر کیوں ایسا نہیں ہو گا؟

کیا یہ بیانات وزیراعظم پاکستان جناب عمران کے نہیں کہ تاریخ میں حضرت عیسٰی کا ذکر ہی نہیں۔ افریقہ ایک ملک ہے، یو ٹرن دانائی کی علامت ہے۔ سپیڈ آف لائٹ سے ٹرین چلے گی۔ پاکستان میں بارہ موسم ہیں۔ جاپان اور جرمنی ہمسایہ ممالک ہیں۔ اور تازہ ترین بلاول بھٹو زرداری کے نام کے ساتھ صاحب کی بجائے صاحبہ کا لاحقہ لگانا۔

المّیہ تو یہ ہے کہ یہ ”فرمودات“ وہ روز روز فرما رہے ہیں کوئی دن کوئی تقریر خالی ہی نہیں جاتا اور پھر نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی میڈیا بھی چسکے لے لے کر ان پہاڑ جیسی غلطیوں کو اُڑاتا رہتا ہے اور پھر وزیراعظم صاحب کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ٹیلیوژن چینلوں کا رُخ کر کے زبان کی پھسلن کے غلاف میں اسے لپیٹنے کی کوشش کرتی رہتی ہے۔

بہت گہرائی کے ساتھ میں نے مشاہدہ کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ روز روز نہ صرف عمران خان بذات خود بلکہ پوری حکومت اور ملک اس ہزیمت سے دوچار ہوتے ہیں تو چند چیزیں میرے مشاہدے میں آئیں پہلی بات یہ کہ وزیراعظم صاحب کے لا شعور میں شاید سیاسی فتح (الیکشن ) کی بجائے کوئی اور چیز اٹکی ہوئی ہے جو انھیں اعتماد اور روانی فراہم نہیں کر رہی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان عمومٌا نا مناسب جملہ یا لفظ وھاں بول دیتے ہیں جب وہ علمی یا دینی حوالہ دینے لگتے ہیں کیونکہ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ عمران خان یقینًا اپنے وقت کے عظیم کھلاڑی تھے لیکن وہ علم اور مطالعے کا ذوق نہیں رکھتے اس لئے ضروری ہے کہ وہ دینی اور علمی ریفرنس یا حوالہ دینے سے حتی الوسع گریز کریں۔

تیسری بات جس کا میں نے مشاہدہ کیا وہ جناب وزیراعظم کا اپنے مخالفین کے بارے میں نفرت انگیز اور حددرجہ غیر سیاسی سوچ اور رویہ ہے مخالفین کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ اعتدال سے کوسوں دور چلے جاتے ہیں اور اسی لمحے وہ اپنے اعصاب اور زبان پر قابو نہیں رکھ پاتے اور گاہے ان کہ منہ سے انتہائی قابل اعتراض جملہ یا لفظ برآمد ہو کر چند ہی ثانیوں میں میڈیا کے تیز بھاؤ میں آکر پھر سے نہ صرف عمران خان بلکہ وزیراعظم کے منصب کا امیج درہم برہم کر دیتا ہے۔

سو مذکورہ عوامل جو اُوپر بیان کیے گئے ہیں اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ عمران خان بنیادی طور پر کبھی سیاسی تحریک نہیں چلا سکے (کنٹینر کو سیاسی تحریک کہنا کم از کم میرے لئے ممکن نہیں) دوسری بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی شخصیت اور تحریک انصاف کی مقبولیت انتہائی غیر فطری اور مصنوعی ماحول میں ہوئی حتٰی کہ اقتدار تک رسائی پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں، ظاہر ہے کہ جہاں سیاسی تحریک اور آزمائش و ابتلاء مفقود ہو وہاں سیاسی پختگی کا تصور کرنا بذات خود ایک احمقانہ عمل کے سوا کچھ نہیں۔

لیکن اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ پوری تحریک انصاف (لیڈر شپ اور کارکنان) کو لپیٹ میں لئے نقصان دہ جذباتی اور سیاسی عدم توازن انھیں فنا کی گھاٹی کے سفر پر یوں ہی رواں رکھے گی یا وہ اپنے آپ کو سنبھال کر سیاسی کامیابیوں کی طرف پیش قدمی کرے گی لیکن یہ بھی یاد دلاؤں کہ پہلی سیاسی کامیابی معاشی استحکام سے ہی پھوٹتی ہے گالیوں کی گردان اور الزامات کی بوچھاڑ سے نہیں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).