صوبوں کی تقسیم: تاخیر کر سکتے ہیں، روک نہیں سکتے


وہ گاؤں کا غریب آدمی تھا۔ نسل در نسل ایک ہی پیشے سے منسلک جو سماجی ڈھانچے میں زیریں سطح پر تھا۔ معجزہ یہ ہوا کہ اس کے بیٹے نے گریجوایشن کرلی۔ نوکری بھی مل گئی یہ اور بات کہ پکی نہیں تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب سرکاری کاغذوں میں ایک اصطلاح کنٹریکٹ کی نوکری ہے۔ کام لیتے رہو یعنی لٹکائے رکھو۔ لٹکائے رکھو۔ کام لیتے رہو۔ تنخواہ بڑھانی پڑتی ہے نہ ترقی دینے کا جھنجھٹ، پینشن تو کنٹریکٹ ملازمین کی ہوتی ہی نہیں۔

پاس کے گاؤں سے رشتہ داروں کے ہاں اس لڑکے کی شادی ہوئی۔ اس کی دلہن نے بہ ہزار وقت سینکڑوں تکلیفیں جھیل کر گرتے پڑتے، افتاں خیزاں ایم اے کر رکھا تھا۔ ایسی نچلی سطح کی ذاتوں میں ایم اے۔ وہ بھی لڑکی! مگر ذرائع آمدورفت کی تیزی نے بہت سی انہونیوں کو ممکن بنادیا۔ یوں بھی ذہانت اگر زمین، زر، جائیداد، اور اقتدار کی بنیاد پر ملتی تو دنیا کا نقشہ مختلف ہوتا۔ غلام بادشاہ نہ بنتے اور تخت وتاج کے وارث گلیوں میں خس و خاشاک کی طرح نہ بھٹکتے پھرتے۔

ذہانت کی بنیاد دولت ہوتی تو حسن نواز اور حسین نواز جیسے پیدائشی کھرب پتی سالہا سال برطانیہ میں رہ کر آکسفورڈ کیمرج یا لندن سکول آف اکنامکس سے کم از کم ایک آدھ ڈگری ضرور لے لیتے۔ دور افتادہ افریقی بھوکی ننگی ریاست علاوی کا لڑکا چارلز فلپ کافی، ڈھاکہ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ اور میرا دوست! جب وہ کہتا لندن سکول آف اکنامکس کے دروازے کو دیکھنا اس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو ہے تو اس کی اداس آنکھوں ابھرنے والی چمک دیدنی ہوتی۔

آب حیات کے کنارے پہنچ کراس سے محروم ر ہنا، شاعری میں تو لائق تحسین ہوگا۔ عملی زندگی میں اسے بدقسمتی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ میر نے کہا تھا:

اپنے جی ہی نے چاہا کہ پییں آب حیات

ورنہ ہم میر اسی چشمے پر بے جان ہوئے

غریب گاؤں کا غریب آدمی ایم اے پاس بیٹی شادی کے بعد سسرال منتقل ہوگئی۔ یہ ہمارا گاؤں تھا۔ ایک دن اس کا سسر میرے پاس آیا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے ملازمتوں کا اشتہار دیا تھا۔ بہو نے بھی عرضی دی ہے۔  کسی طرح صرف یہ معلوم کرا دیجیے کہ انٹرویو کے لئے کال لیڑجاری ہونے کا امکان ہے یا نہیں؟ ایک سابق وفاقی سیکرٹر ی سے جو ریٹائرمنٹ کے بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن کے رکن تعینات تھے خاصی سلام دعا اور علیک سلیک تھی۔ ایک دو مشترکہ دوست بھی تھے۔ کبھی اعدادو شمار نکال کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اس کمیشن کے زیادہ ترارکان لاہور سے نہیں یا وسطی پنجاب کے دیگر علاقوں سے۔ بہت سے ایسے ہیں جنہیں آل شریف کے ساتھ وفادار ی نبھانے کے صلہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد یہاں نصب کیا جاتا ہے۔

 بہرطور ٹیلی فون پر گزارش کی اور کہا کہ عرضی کی نقل آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں ازراہ کرم کچھ اتاپتہ کرا دیجیے بھیجی! مگر ریت پر پانی کی دھار ڈالنے والی بات تھی۔ لاہور کا جغرافیائی محل وقوع اس پر سونے کا سہاگہ صوبائی حکومتوں کے کارپردازوں کی اور ان کی نظر کا ضعف! دور افتادہ بستیوں کے عرض گزار بے وقعت تنکوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے! یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی نے بھی مسلم لیگ نون کے اس بل کی حمایت کی جس میں جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے دو الگ الگ صوبوں کی تجویز پیش کی گئی ہے!

 مسلم لیگی نون نے یہ بل کس نیت سے پیش کیا ہے اس پر بحث کرنا کارِلاحاصل ہے یہ بہر طور طے ہے کہ ایک مقصد حکومت کو مشکل میں ڈالنا بھی ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ دس برس مسلسل صوبے پر آپ کا راج تھا اور پانچ برس وفاق پر تو کیوں نہ اس قرارداد کو مرکز میں کامیاب کرایا جو اپنے زمانے میں آپ نے پنجاب اسمبلی میں پاس کرائی تھی؟ نون لیگ کا اس بل سے جو بھی مقصد ہے فارسی کا مصرع اس پر صادق آتا ہے۔ عُدو شرے برانگیزد، کہ خیر مادرآں باشد مخالف جو تدبیر پراگندہ کرنے کے لئے اختیارکرتا ہے اس میں خیر کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔

 عدو کے جتنے تھے حربے مرے موافق تھے

کہ اس کے قلب کے دستے مرے موافق تھے

اگر تحریک انصاف جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے صوبے اپنے عہد اقتدار میں بنوا دیتی ہے، تو تاریخ اور جغرافیہ دونوں اس کے ہوں گے۔ ان کالموں میں کئی بار یہ رونا رویا جاچکا ہے کہ تقسیم کے بعد بھارت میں کئی نئے صوبے بنے۔ یہ عمل آج تک جاری ہے۔ ہر بار اس کی تفصیل بیان کرنا۔ لکیر پیٹنے کے مترادف ہے۔ فیصلہ کن آخری نکتہ (باٹم لائن) اس ضمن میں یہ ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے سے نئے صوبے نکالنے ہوں گے۔

اس پروسیس کو التوا میں ڈالا جاسکتا ہے۔ روکا نہیں جا سکتا۔ وسطی پنجاب کا رویہ مغربی اور جنوبی حصوں کے حق میں ہمدردانہ اور حقیقت پسندانہ نہیں۔ یہ اور بات کہ وسطی پنجاب کو، بالخصوص دانش وران لاہور کو یہ تلخ حقیقت دکھائی نہیں دیتی۔ جگر کے کسی شاگرد کا شعر یاد آرہا ہے۔

مری داستان غم کی کوئی حد کہیں نہیں ہے

ترے سنگ آستاں سے ترے سنگ آستاں تک

خدا انہیں خوش رکھے اور عینک کے شیشے بدلوانے کی ذہنی استطاعت بخشے، ان کا پنجاب، گھنٹہ گھر سے شروع ہوتا ہے اور بھنے ہوئے چڑوں پر ختم ہو جاتا ہے۔

نیا صوبہ صرف جنوبی پنجاب اور بہاولپور کے لئے نہیں بلکہ مغربی اضلاع کے لئے بھی بننا چاہیے۔ عیسی خیل لاوہ، ٹمن، فتح جنگ، مری اور دیگر ایسے مقامات کے غریب عوام کو آپ نے ہر کام کے لئے لاہور کا دست نگر کیا ہوا ہے! کچھ تو انصاف کیجیے۔ یہی حال باقی صوبوں میں ہے۔ مانسہرہ اور چلاس کا صوبائی دارالحکومت پشاور ہے اور یہ پنجاب سے گزر کر اپنے صوبائی دارالحکومت پہنچتے ہیں! کون سا من وسلوی اترتا ہے ایبٹ آباد اور شنکیاری میں جس کی خاطر پشاور نے ان دور افتادہ علاقوں کو اپنے ساتھ پابند کر رکھا ہے؟

فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرنے والے مولانا صاحب کو کبھی یہ خیال نہ آیا کہ بنوں، لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام اپنے کامو ں کے لئے پشاور جانا کتنا پُرصعوبت ہے اگر بنوں ایک نئے صوبے کا صدر بنے تو ہنگو، کرک۔ لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے لوگوں کی زندگی کس قدر آسان ہو جائے گی! مگر آنکھوں پر مفادات کی پٹی بندھی ہو تو کون سے عوام؟ جب مولانا اور اچکزئی صاحب فاٹا کے انضمام کی مخالفت کرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ فاٹا میں کوئی انفراسٹرکچر ہے نہ کوئی سہولت!

کے پی کے ساتھ ملنے سے وہ ان ساری سہولیات کے حق دار ہو جائیں گے جو فاٹا میں عنقا ہیں۔ جیسے ہسپتال اور تعلیمی ادارے ہیں! ہاں جب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فاٹا ایک خود کفیل علاقہ بن جائے تو اسے ضرور الگ صوبے کی شکل دینی چاہیے۔ بلوچستان اور سندھ کو بھی دیر تک مصنوعی اکائیوں میں قید نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کی صورتیں کیا کیا ہیں اور اس کی تنی ہوئی رسی ہر کسی طرح چلا جاسکتا ہے اس پر بات پھر کبھی سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).