آزاد میڈیا، صاحب اور صاحبہ


میڈیا کی آزادی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ کچھ نئے نئے چینل اس نئی نئی آزادی کے ترانے گا رہے تھے اور پرائم ٹائم کا وقت ڈراموں کی بجائے مذاکروں کی نذر ہونے لگا تھا۔ میڈیا کی آزادی کی اہمیت پر کراچی میں ایک سیمنار ہوا اور بہت سے دوسرے بڑے ناموں کے ساتھ اس میں حامد میر اور انور مقصود صاحبان نے بھی خطاب کیا۔ اس سیمنار میں اپنے موقف اور بیان کو حامد میر صاحب نے اگلے دن کے اپنے آرٹیکل میں بیان کیا۔ ان کا سارا آرٹیکل مجھے قائل کرتا رہا، سچ کی ترویج، لوگوں تک حقائق کی ترسیل، انسانی شعور اور بالیدگی سمیت ہر بات ان کی بھر پور تھی۔ مگر اپنے آرٹیکل کے آخر میں انہوں نے اپنے مخالف موقف رکھنے والے انور مقصود کی صرف ایک بات لکھ دی جس نے ان کے سارے دلائل کو ایک ہی لائن میں چاروں شانے چت کر ڈالا!

”جس ملک کی اٹھانوے فی صد آبادی ان پڑھ ہو وہاں آزاد میڈیا نہیں ہونا چاہیے۔ “

یہ آرٹیکل اور یہ موقف تب پڑھا اور آج پورا آرٹیکل بھول چکی ہوں مگر یہ ایک لائن آج بھی میرے دماغ میں روشن اور زندہ ہے۔ اور کوئی پندرہ بیس سال کی مسافت کے بعد انور مقصود صاحب کی وہ بات روز روشن کی طرح حقیقت نظر آتی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں خلوص نیت سے عوام کی بڑی تعداد کو تعلیم سے دور رکھا گیا اور اگر کچھ تعلیم دینے کی کوشش بھی کی گئی تو انتہائی گھٹیا اور نچلی سطح کی! جس ملک میں عوام کو شعور دینے کی کوشش ہی نہ کی گئی ہو، جہاں غلامین کی نسلیں بھٹو زندہ رکھنے اور نیک پاکباز شریفان کے نعرے لگانے اور ان کو طاقت دلانے کے لئے پیدا کی گئیں ہوں، جہاں ماؤں بہنوں بیٹوں کی بیماریوں کے نام پر ووٹ مانگے جاتے ہوں، وہاں ان تمام خوبصورت وجوہات کے باوجود جو تب حامد میر صاحب نے اپنے کالم میں بیان کی تھیں، میڈیا کی آزادی نہ صرف کوئی پھل نہ دے سکی بلکہ اس زمین اور اس کے عوام کے استحصال میں ایک اور بڑا فریق بن کر رہ گئی۔

تعلیم کے بغیر وہی اٹھانوے فی صد عوام ٹی وی کے سامنے بٹھا دیے گئے جو اخبار تک نہ پڑھتے تھے اور نہ پڑھ سکتے تھے، ان کو سبق سنانے کے لئے پڑھے لکھے چند فی صد لوگوں کو جن میں سے اکثر کے پاس تعلیم کے نام پر ڈگری تو ضرور ہو گی مگر ذہنی اور اخلاقی بالیدگی نہ تھی، چند نمایندوں کے ساتھ ٹی وی سکرین پر بٹھا دیا جاتا، اور پھر ان جعلی ڈگری ہولڈر یا کرپٹ سیاستدانوں اور اشرافیہ کو براہ راست ان عوام تک رسائی دے دی گئی جو الف اور ب میں فرق تک نہیں جانتے، جن کو یہ تک نہیں پتا تھا کہ کون سی حکومت، کون سے حکمران، کیا ہوتی ہے کرپشن، کسے کہتے ہیں امانت۔

اب ہر اہل اور نااہل اپنی وکالت میٹھے میٹھے لفظوں میں کرنے لگا، کسی نے چٹکلے چھوڑے، کسی نے قہقہے لگائے، میزبانوں نے عزت مآب قابل احترام کے ٹیگ لگائے اور دو فی صد تعلیم والے معاشرے نے اس پر سر دھننا شروع کر دیا، کیا واقعی یہ معاشرے کو شعور دینے کی ایک کوشش تھی یا ایک گھمبیر بھونڈامذاق تھا؟ دوسروں کے گال گلابی دیکھ کر اپنا منہ تھپڑوں سے لال کرنا اسی کو کہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے یورپ اور برطانیہ سے سردیوں کی برف کے مارے گورے چٹے انگریز دبئی آتے ہیں اور سوئمنگ سوٹ پہن کر پچاس ڈگری کی دھوپ میں سمندر پر سن باتھ کے لئے سیدھے لیٹ جاتے ہیں، اپنے اندر کی برف زدہ سردی ختم کرنے کی کوشش میں اور اپنی بے تاثر گوری رنگت میں تھوڑا سا نمک شامل کرنے کی خواہش میں۔

اور گوری چمڑی کی ہر حرکت کو سٹیٹس کی نشانی سمجھنے اور بنانے والے ہمارے مشرق کے کچھ نواب گرم ترین علاقوں والے ایشین براؤن لوگ اسے ایک عیاشی یا تفریح کا طریقہ سمجھ کر اور اپنی گہری خاکی جلدیں لے کر اسی ساحل پر بکنیاں پہن کر خود کو گورا صاحب سمجھ کر لیٹتے ہیں اور ایک ہی دن میں کالے کلوٹے ہو کر چہرے جلا لیتے ہیں۔ واپسی پر اس غرور میں سر اٹھاتے آتے ہیں کہ آج انہوں نے گورا صاحب بن کر خوب عیاشی کی۔ اپنا اور ان کے موسموں کا تضاد دیکھا نہ جلدوں کے رنگ میں زمین آسمان کا فرق، ان ساحلوں سے جہاں سے وہ گورے حسین ہو کر جاتے ہیں ہمارے ایشین بدصورت ترین ہو کر آتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال میڈیا کی آزادی کو اوڑھ کر ہم نے اپنا کر ڈالا۔ اپنے لوگ دیکھے نہ ان کی تعلیم، اپنا مزاج دیکھا نہ استحصالی طبقہ، نہ موسموں رواجوں کے مطابق معیارات کا تعین کیا اور میڈیا کی آزادی کی برانڈ جیسے دکھائی دی اسے ویسے ہی لا کر اس مظلوم ملک کے گلے ڈال دیا گیا۔

بیس ہی برس میں چند نام نہاد پڑھے لکھے برانڈز تشکیل پا گئے، ہر گروہ ہر پارٹی معاشرے کے استحصال کرنے والا ہر ادارہ اپنے برانڈڈ چینلز، صحافی، اور پروگراموں میں خودکفیل ہو گیا۔ یہ عوامی شعور کے نام پر کی گئی کوشش جلد ہی اس استحصالی نظام کو مضبوط کرنے والا ایک بڑا ستون بن گئی۔ اپنی مرضی کے چینلز پر، اپنی مرضی کا موقف اپنی مرضی کے اوقات میں اپنی مرضی کے رنگ میں اپنی مرضی کے افراد کے ساتھ سارا دن ان وہی بے شعور اور ان پڑھ عوام کو رٹواتے رہو۔

یہ دو فی صد پڑھی لکھے عوام ایسے وقت میں بڑے کام آئے جب ان سے خوبصورت تحریروں اور تقریروں میں اپنا موقف دلنشیں طریقے سے لکھوایا اور کالے کو گورا اور گورے کو کالا بتلایا جانے لگا۔ اس ہنر سے ان پڑھ بھیڑوں کی ناکوں میں نکیلیں ڈالی گئیں۔ لاکھوں لینے والے صحافی اپنی ڈگریوں کے ساتھ صحافتی اقدار اور اخلاق بھی گھڑوں میں ڈال کر زمین میں دبا بیٹھے۔ اب اس لاکھوں کی تنخواہ کو بڑھانا اور بچانا ہے تو ہر روز ایک نیا پروپیگینڈا کرنا ہے، ایک نیا سبق دینا ہے، چائے کی پیالیوں میں ایک نیا طوفان اٹھانا ہے اور پاکستانی عوام کا یہ جو ایک بھیڑوں کا ریوڑ ہے اسے اپنی مرضی کا رخ دینا ہے۔

جس میزبان کی فوج سے نہیں بنتی وہ ہر پروگرام میں فوج کو گالیاں دے رہا ہے، جس کے پیسے کوئی پارٹی کھا گئی، وہ صبح شام اس پارٹی کے کپڑے اتارنے میں جتا ہے، جس کے دوستوں میں حکومت ہے وہ امن شانتی کے گن گا رہا جس کا مفاد اپوزیشن سے جڑا وہ صاحب اور صاحبہ کے ترانوں میں الجھا! اور حیران کن طور پر یہ سب وطن اور ریاست کی محبت کے نام پر ہو رہا ہے۔ چونکہ وہی اطمینان جو پہلے طاقتور دھڑوں میں تھا کہ جاہل عوام ہی ان کی کامیابی کا سر چشمہ ہیں، یہی نعرہ اب اس میڈیا کے بدمست ہاتھی کا ہے کہ وہی جاہل عوام ہیں، انہیں سچ بیچو کہ جھوٹ! وہی بیچو جو پیسہ اور طاقت لے کر آئے، پھر قوم ملک اور شعور بھاڑ میں جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2