ہاروکی موراکامی کا ناول ’کافکا آن دی شور‘


’کبھی کبھی قسمت ایک ریتیلے طوفان کی طرح اپنی سمتیں بدلتے ہوئے مستقل آپ کاتعاقب کرتی رہتی ہے۔ تب آپ کے لئے بہتر یہی ہے کہ آپ خود کو اس طوفان کے حوالے کر دیں۔ طوفان کے ختم ہونے پر آپ وہ نہیں رہتے جو آپ طوفان سے پہلے تھے‘ ۔

جاپانی مصنّف ہاروکی موراکامی کے قلم سے تحریر شدہ ناول ’کافکا آن دی شور‘ میں دو کہانیاں ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ ایک کہانی پندرہ سالہ لڑکے کی ہے جس کا والد پیشنگوئی کرتا ہے کہ پندرہ سال کی عمر میں وہ اپنے والد کا قتل کر کے اپنی ماں اور بہن سے ہم بستری کرے گا۔ اپنے والد کی ایک سیاہ پیشنگوئی سے بچنے کے لئے وہ اپنی پندرہویں سالگرہ پرگھر سے بھاگ کر پہچان چھپانے کی خاطر کافکا نام اختیار کرتا ہے۔

دوسری کہانی ساٹھ سالہ نکاتا کی ہے جو اپنے بچپن کے ایک حادثے کے باعث ذہانت کھو بیٹھتا ہے اوراب ٹوکیو میں گمشدہ پالتو بلیّاں ڈھونڈ کر اپنا گزارہ کرتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس واقعے کے بعد وہ بلّیوں کی زبان سمجھ پاتا ہے۔

گھر سے بھاگنے کے بعد کافکا ایک دوسرے شہر میں جا کر اپنا زیادہ تر وقت ایک نجی کُتب خانے میں گزارتا ہے جہاں اس کی دوستی ایک اّکیس سالہ ٹرانس جینڈر اور انٹیلیکچوئل اوشیما سے ہوتی ہے۔ سات دن کافکا حسبِ معمول کُتب خانے میں مختلف کتابیں پڑھتے ہوئے گزارتا ہے لیکن آٹھویں دن اس کی یہ روزمرہ کی عادت پاش پاش ہو جاتی ہیں جب وہ اپنے آپ کو ایک پارک میں پاتا ہے اور اس کے ہاتھ اور قمیص خون سے لت پت ہوتے ہیں۔ اسے کچھ یاد نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا ہے۔

اسی دن ایک گمشدہ بلی کو ڈھونڈتے ہوئے نکاتا کو ایک کتّا ایک گھر میں لے جاتا ہے جہاں نکاتا کی ملاقات جانی واکر نامی ایک عجیب و غریب شخص سے ہوتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ بلّیوں کی روح سے بانسری بنانا چاہتا ہے۔ وہ شخص نکاتا کے سامنے بلّیوں کے دل نکال کر کھاتا ہے اور نکاتا سے اصرار کرتا ہے کہ نکاتا اُس کو قتل کرے۔ نکاتا ایسا کوئی جرم نہیں کرنا چاہتا لیکن جانی واکر قتل نہ کرنے پر دیگر بلّیوں کومارنے کی دھمکی دیتا ہے۔ تب نکاتا مجبوراً جانی واکر کو قتل کرتا ہے۔ اسی دن کافکا کے والد کا بھی قتل ہو جاتا ہے جس کی تفصیلات، دن اور وقت بھی یہی ہوتا ہے۔

یہیں سے کافکا اور نکاتا کا طویل و دشوار سفر شروع ہوتا ہے۔ اس سفر میں دونوں کی زندگیاں ایک ان جانے دھاگے کی ڈور کے ساتھ ایک دوسرے سے بندھ جاتی ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں کہ ان کے بیچ میں رشتے کی نوعیت کیا ہے۔ اس کے بعد نکاتا کو ایک عجیب سی قدرتی طاقت ملتی ہے کہ اس کے کہنے پر آسمان سے مچھلیوں اور خون کش جونکوں کی بارش ہوتی ہے۔

کافکا اور نکاتا کے علاوہ ناول کے اہم کردار مندرجہ ذیل ہیں : اوشیما ایک دانشور اور ٹرانس جینڈر لائبریرین جو کافکا کا گرو ہو جاتا ہے اور کافکا کے ذہن میں ابھرتے سوالات کے جوابات دے کر اس کی رہنمائی کرتا رہتا ہے۔ ٹرک ڈرائیور ہوشینو جس کی نکاتا سے انسیت ہو جاتی ہے اور وہ نکاتا کی مدد کرتا ہے۔ ایک نجی کُتُب خانے کی مینیجر مس سائیکی جس کا جوانی میں گایا ہوا گیت ’کافکا آن دی شور‘ ناول میں زیرِ بحث کتنی ہی تھیمز کو آپس میں جوڑتا ہے۔ مس سائیکی اور نکاتا میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں ماضی میں متبادل حقیقت میں سے ہو کر واپس آئے ہیں۔ ان کے علاوہ جانی واکر اور کرنل سانڈرس بالترتیب اسکاچ وسکی اور میک ڈونلڈ کے برانڈکے لوگو کے عجیب و غریب کردار بھی شامل ہیں۔

ناول میں سب سے دلچسپ ابواب اوشیما اور کافکا کے درمیان ہونے والی گفتگوکے ہیں۔ ان کی گفتگو کے موضوعات میں علم، ادب، فلسفہ، موسیقی، ایرسٹوفین، الف لیلہ، فرانز کافکا کی تصنیفات، جاپانی ادب، شوبرت کی سمفنی، یونانی ٹریجڈی، سوفو کلیز، شاعری، علامت نگاری شامل ہوتے ہیں۔ ناول کا ایک اہم موضوع موسیقی کا بطور ایک ابلاغی میڈیم استعمال بھی ہے۔ مصنّف نے اکثر جگہوں پر بیتھووَن کی سمفنی کا نہایت مہارت سے استعمال کیا ہے جس سے کرداروں کو اپنی منزل تلاش کرنے میں ایک رہنمائی ملتی ہے۔

کتاب کا انیسواں باب بھی دلچسپی سے بھرپور ہے جب دو محقّق لڑکیاں لائبریری میں خواتین کو میسّر کی گئی سہولیات پر اوشیما سے شکایت کرتی ہیں۔ اوشیما نہایت خوبصورتی سے انہیں بتاتا ہے کہ وہ خود ایک ٹرانس جینڈر ہے اور وہ ہر قسم کی جنسی تفریق کا شکار ہوچکا ہے۔ ’تفریق کو اصل میں صرف وہ سمجھ سکتا ہے جو خود کبھی اس تفریق کا شکار بنا ہو‘ ۔

موراکامی کے دیگر ناولوں کی طرح اس ناول کوکسی ایک صنف میں نہیں رکھا جا سکتا بلکہ یہ ناول جادوئی حقیقت نگاری، فنٹاسی، سسپنس، مزاح اور کمِنگ آف ایج کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔ ناول میں سے کچھ اقتباسات پیش ہیں :

’انسان کے لئے جینے سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ وہ کس طرح مرتا ہے‘ ۔

’دانشمندوں سے بھری ہوئی دنیا بہت سارے مسائل کا شکار ہوتی‘ ۔

’ہماری دنیا کے متوازی ایک اور دنیا بھی اپنا وجود رکھتی ہے جس میں داخل ہو کر بحفاظت واپس آ نا ممکنات سے دور نہیں ہیں۔ لیکن اگر آپ نے ایک مخصوص نقطے کو پار کر لیا تو کھو جانے کا ڈر رہتا ہے۔ ‘

’جتنا آپ وہم کے بارے میں سوچیں گے، وہم اُتنا ہی مضبوط ہو کر ایک شکل اختیار کر لے گا۔ اور پھروہ صرف وہم نہیں رہے گا‘ ۔

کتاب کا نام : کافکا آن دی شور
مصنّف : ہاروکی موراکامی
مترجم : فِلپ جبرئیل
صفحات : 615
ناشر : وِنٹیج بُکس، لندن
(محمد صدیق سومرو جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ وہ @soomrosiddiq کے نام سے ٹویٹ کرتے ہیں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).