عمران خان کو مڈ ٹرم انتخاب کے بارے میں سوچنا چاہیے


قومی اسمبلی کے اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری خطاب کررہے تھے انہوں نے ناقص کارکردگی پر کابینہ میں کی جانے والی ردو بدل پر خوب دل کی بھڑاس نکالی اور آخر میں وزیر اعظم عمران خان کو ایک بار پھر سلیکٹڈوزیراعظم کہہ ڈالا اور ستم یہ کیا کہ ساتھ ہی نا اہل اور نالائق بھی کہہ ڈالا۔ حکومتی بنچوں سے ردِ عمل شدید احتجاج متوقع تھا لیکن سب سے زیادہ لال پیلے عمر ایوب ہوئے اور اس قدر ہوئے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہے تھے۔

بیان کیا ہے جاتا ہے کہ عہد نبویﷺ میں ایک شخص اخنس بن شریق ہوا کرتا تھا۔ اس کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا لیکن وہ اس بات کا مدعی تھا کہ وہ بنی زہرہ میں سے ہے۔ چناچہ جاہلی روایات کے تحفظ میں وہ ان لوگوں سے کہیں زیادہ سرگرم تھا جو خود ان روایات کے اصلاً امین تھے۔ وزارتِ خزانہ ہاتھ نہ آنے کا غصہ عمر ایوب نے بلاول پر تنقید کرتے ہوئے نکالا اور کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتے تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ قائد اعظم ایوب خان کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے؟

، والد گرامی گوہر ایوب کی وابستگیاں کس کے ساتھ تھیں؟ گوہر ایوب فوج سے بطور کپتان ریٹائر ہوئے، اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے والد ایوب خان کی صدارت کا ناجائز فائدہ اٹھا تے ہوئے جنرل موٹرز کا کاریں اسمبل کرنے کا کارخانہ خرید کر اس کے مالک بن گئے۔ بعد میں جس کا نام جنرل موٹرز سے تبدیل کرکے گندھارا موٹرز رکھ دیا۔ اور خود جناب کی اپنے بارے میں کیا رائے ہے؟ کہ ہر اگلے انتخاب میں جناب کا انتخاب ایک مختلف سیاسی جماعت ہوتی ہے۔ اسمبلی میں عمر ایوب کا عمران خان کی حمایت میں جارحانہ رویہ ممکن ہے کہ کبھی انھیں وزارت خزانہ کا قلمدان دلوا ہی دے۔

عمر ایوب ہوں یا فواد چوہدری غلام سرور ہوں یا فردوس عاشق اعوان حفیظ شیخ ہوں یا پھر شیخ رشید جیسے دیگر، سب کی کابینہ میں شمولیت مفادات اور ایڈجسٹمنٹ کا نتیجہ ہے نہ کہ قابلیت اور لیاقت کا۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص پیٹرولیم کی وزارت کے لیے نا اہل ہے تو پی آئی اے کے لیے بھی اتنا ہی نا اہل ہوگا اور اگر اس کی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق پی آئی اے ہی تھی تو پیٹرولیم کی وزارت کو تختہ مشق بنائے جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ ، اسی طرح ایک شخص اپنی زبان درازی اور فتنہ پروری سے وزارت اطلاعات کو ضربیں لگاتا رہا تو سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت میں کون سا انقلاب برپا کردے گا؟ کابینہ میں اہم عہدوں پر عمران خان کے علاوہ تمام لوگ تحریک انصاف سے نہیں ہیں۔ لیکن عمران خان صاحب کا دعویٰ ہے کہ حکومت ان کی تئیس سالہ سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ بہت خوب! ، حال یہ ہے کہ اسد عمر کے متبادل موجود ہی نہیں تھا اوران کے بعد جس شخصیت کو وزارت ِ خزانہ کا قلم دان سونپا گیا جو معاشی غارت گر (Economic Hitman) کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ موصوف کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے جس سے ایوب خان کے وزیر خزانہ شعیب، نگران وزیراعظم معین قریشی اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز تعلق رکھتے تھے۔

ملک کی معاشی صورتحال ہے کہ ابتر سے ابتر ہوتی چلی جارہی ہے اور اس سے پہلے تو سیاسی تقاریر اور اخباری بیانات میں کہا جاتا تھا کہ عوام مہنگائی کے بوجھ تلے پس رہے ہیں لیکن آج عوام عملی طور پر مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہیں۔ روپے کی قدر کم ہوگئی، ٹیکس بڑھ گیا اور ٹیکس وصولی پانچ سو ارب کم ہو گئی، بجلی، گیس، پیٹرول، گیس اور ادویات کی قیمیتں کئی سو گنا بڑھ گئیں، کشکول اٹھائے ملکوں ملکوں پھر لئے اور رہی سہی خوداری بھی بیچ ڈالی۔

کون سا ایسا ستم ہے جو اس حکومت نے عوام اور ملک پر نہ ڈھایا ہو۔ لیکن گھمنڈ ہے کہ حکومت اور قیادت کے لیے ”ہم نہیں تو کون۔ “؟ وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ خود پسندی اور نرگسیت کے خمار میں اس قدر مبتلا ہیں کرکٹ، شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی سے باہر آہی نہیں رہے۔ پھر فکری ارتکاز کے انحطاط کا یہ عالم ہے کہ جس ملک میں جاتے ہیں وہاں کے نظام سے متاثر ہو جاتے اور اس نظام کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دے دیتے ہیں۔

چین گئے تو چین کے نظام سے متاثر ہوگئے، مہاتیر محمد سے ملے تو ملائیشیا کے اقتصادی نظام کو دل دے بیٹھے۔ ایران گئے تو جو رشحاتِ فکر بیان فرمائے سو فرمائے انقلاب ایران سے بھی متاثر ہوگئے۔ نواز شریف کو مودی کا یار کہتے کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن خود فرما گئے کہ مسئلہ کشمیر اسی صورت میں حل ہوگا اگر مودی اگلا انتخاب جیت گئے۔

تماشا گیری کا حال یہ ہے کہ ایس پی طاہر خان داواڑ شہید، سانحہ ساہیوال اور ہزراہ برادری کے شہیدوں کے لواحقین کے پاس جاکر ان کے غم میں شرکت کرنے کی بجائے انھیں بلوا کر تعزیت اور افسوس کی رسم بھگتا دی جاتی ہے۔ کئی ہفتے قبل جناب وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ تین ہفتوں میں قوم کو بہت بڑی خوشخبری سننے کو ملے گی اور آج پانچ ہفتے گزر گئے عوام کے کا ن خوشخبری کے لیے ترسے جارہے ہیں۔ فیصل ووڈا نے نوکریوں کی بہتات کی نوید سنائی تھی لیکن ابھی تک اس کی عملی تعبیر سامنے آئی نہ فیصل ووڈا۔

عمران خان کویہ سمجھنا ہوگا کہ معاملات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ ان کا حل اب تنہا تحریک انصاف کی بس کی بات نہیں رہی ہے۔ تجربات سے سیکھنے کی بجائے عمران خان اپنے خوابوں کی عملی تعبیر چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے جن شخصیات پر ان کا تکیہ ہے وہ ماضی میں بھی اسی کروفر کے مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔

یہ ٰایک میلہ ہے وعدہ کسی سے کیا لے گا

ڈھلے گا دن تو ہر اک اپنا راستہ لے گا

کرکٹ نے انھیں اسپورٹس مین اسپرٹ بھی سکھلائی ہے اور وہ اس کے قصے بھی اکثر سناتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ مڈٹرم انتخابات پر غور کریں جیسا کہ بعض اہل دانش اپنے کالموں میں بھی تجویز کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ملک کو ابتر معاشی، خارجی اور سیاسی صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ ملک و قوم تحریک انصاف کے مزید کسی نئے تجربے اور رومان کے برداشت کی سکت نہیں رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).