پاکستان کو کون سی بیماری لاحق ہے؟


پاکستان کو درپیش بیماری کی تشخیص کے لئے تھوڑی دیر درج ذیل سوالات اور ہر سوال کے سامنے دیے گئے جواب پر غور کریں۔ کیا پاکستان میں :
1۔ کوئی ایسی سیاسی جماعت ہے جس نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیا ہو؟ نہیں
2۔ کوئی ایسا فوجی حکمران گزرا جس نے اقتدار میں آ کر وہ سارے کام نہ کیے ہوں جن کو جواز بنا کر اس نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا؟ نہیں

3۔ عدالت عظمی پر کوئی دور ایسا گزرا جب اس نے کسی دباؤ کے بغیر صرف قانون کی رو سے فیصلے کیے ؟ نہیں
4۔ کوئی ایسی حکومت (فوجی یا سویلین) گزری جس نے عوام سے جھوٹ نہ بولا ہو؟ نہیں
4۔ کوئی ایسا حکمران (فوجی یا سویلین) گزرا جس نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے جھوٹے دعوے نہ کیے ہوں؟ نہیں

5۔ کوئی ایسی تجارتی یا کاروباری تنظیم ہے جس نے صارفین کے استحصال پر اپنی ممبر تنظیموں یا افراد پر گرفت کی ہو؟ نہیں
6: کوئی ایسا مذہبی گروہ ہے جس نے گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر اپنے ارکان کی ان حرکتوں پر گرفت کی ہو یا ان سے لاتعلقی اختیار کی ہو جس کے خلاف وہ تبلیغ کرتے ہیں؟ نہیں
7: ایسے تمام لوگ یا ادارے جنہیں خود سے ٹیکس دینا ہوتا ہے، دیانتداری سے ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ نہیں

8: مختلف پیشوں سے وابستہ افراد جیسے وکلا، ڈاکٹر، انجنیئرز وغیرہ شہری کے طور پر ذمہ داری نبھاتے ہوئے اپنے پیٹی بھائیوں کی خرابیوں اور زیادتیوں کو چیلنج کرتے ہیں؟ نہیں یا بہت ہی کم یعنی نہ ہونے کے برابر
9: تمام صحافی بغیر خوف یا ترغیب کے صرف اور صرف سچ کے ابلاغ کی ذمہ داری پوری کرتے ہیں؟ نہیں
10 : مختلف سطحوں پر تمام سرکاری اور نجی ملازمین پوری دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتے ہیں؟ نہیں
11 : کوئی سیاسی جماعت ایسی ہے جس کے پاس مکمل سچ ہو؟ نہیں

ان سارے سوالوں کا جواب نفی میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہمارے ہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ یا اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں بچا۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں جا کر ان سوالوں کے جواب تلاش کیے جائیں تو شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جس کا جواب سو فیصد اثبات میں ملے۔

تاہم ترقی یافتہ اور پسماندہ معاشروں میں فرق شرح کا ہو گا۔ امکانی طور پر ترقی یافتہ معاشروں میں ایسے افراد کی شرح نمایاں طور پر کم ہو گی جن کی وجہ سے مذکورہ بالا سوالوں کا جواب ”نہیں“ میں دیا گیا ہے۔ جبکہ پسماندہ معاشروں میں ممکنہ طور پر ان کی شرح نسبتاً زیادہ ہو گی۔

سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ انسانی معاشروں میں بہتری ایک ارتقائی عمل ہے جس میں اجتماعی انسانی شعور بتدریج مختلف امور کی درجہ بندی کرتا رہتا ہے۔ انہیں پسندیدہ، ناپسندیدہ، اور ناقابل قبول جیسی کیٹیگریز میں رکھتا رہتا ہے۔

بیدار اور زندہ معاشروں میں اس ارتقائی عمل اور اجتماعی انسانی شعور کے زیر اثر ”ناقابل قبول“ قرار دیے گئے کاموں کا جواز پھر کوئی پیش نہیں کرتا۔ جواز کی عدم فراہمی اور زیرو ٹالرنس کی اس غیر تحریری معاشرتی پالیسی کے سبب ایسے ”ناقابل قبول“ کاموں کے ارتکاب کے واقعات کم سے کم ہوتے جاتے ہیں۔ اور جب ایک معاشرہ بحیثیت مجموعی ایسی سوچ اختیار کر لیتا ہے تو پھر ان ناقابل قبول جرائم کی روک تھام کے لئے قوانین بھی اختیار کر لئے جاتے ہیں اور ان کا اطلاق بھی مؤثر اور آفاقی ہوتا ہے۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ اس عمل میں معاشرے کا اجتماعی شعور معاشرے کے تمام طبقات کے اجتماعی مفاد کے پیش نظر مثبت اور منفی فہرستیں مرتب کرتا ہے۔ مہذب معاشرے اگر نفرت انگیز مواد، کسی بھی قسم کے تشدد، ٹیکس چوری، مذہبی، صنفی یا نسلی بنیاد پر امتیاز، سرکاری یا عوامی عہدیدار کی دروغ گوئی اور ملاوٹ وغیرہ کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرتے ہیں تو یہ رویہ اس اجتماعی شعور اور ادراک کا نتیجہ ہے جس نے انہیں سکھایا کہ یہ وہ حرکات ہیں جن پر کسی بھی صورت میں سمجھوتہ کرنا معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔

معاشرے کا نقصان ہر فرد کا نقصان ہے اس لئے ہر فرد اپنی سیاسی، نظریاتی، نسلی، مذہبی اور لسانی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر ایسے سماج دشمن یا انٹی سوشل رویوں کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس شعور کا تعلق کسی الوہی عقیدے سے نہیں، انسانوں کے باہمی آفاقی تعلق اور اس کے احترام سے ہے۔

پسماندہ معاشروں میں پسماندگی کا سبب وسائل کی کمیابی یا بدعنوانی نہیں بلکہ اجتماعی معاشرتی شعور پر گروہی سوچ کو حاصل فوقیت ہے۔ پسماندہ معاشرے انسانی رشتے کی گانٹھ سے بندھے ہونے کی بجائے گروہی خطوط پر منقسم انبوہ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ان کی نمایاں ترین خصوصیت عدم رواداری ہوتی ہے جہاں صنف، آمدن، نسل اور عقیدے کی بنیاد پر کمزور طبقات ہمیشہ امتیازی سلوک اور استحصال کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔

ٹالرنس یا رواداری محض ”اچھے بچے ایسا نہیں کرتے“ قسم کا درس نہیں۔ اس کا براہ راست تعلق ایسے معاشرے کی تعمیر سے ہے جہاں معیشت خوشحالی کے سنگ میل کا پتہ دیتی ہو، جہاں سرمایہ مزدور کا استحصال نہ کر سکے، جہاں کوئی خاص شناخت قوت کی مظہر نہ ہو اور جہاں کوئی غیر اکثریتی وابستگی ناتوانی کا سبب نہ بنے۔ جہاں مواقع عقیدہ اور نسل پوچھ کر گھر نہ آئیں اور جہاں آزادی درشن دینے سے پہلے ڈومیسائل نہ دیکھتی ہو۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انتخابات سے پہلے جب تحریک انصاف کی منڈیر پر ہر پارٹی سے آنے والے موسمی پرندوں پر اعتراضات ہوتے تو وزیراعظم کہتے کہ اوپر لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ یہ رجائیت پسندی تو خیر ہمیشہ سے غلط ثابت ہوتی رہی ہے اور یہ دور بھی کوئی استثنیٰ نہیں ہے۔ تاہم رواداری کے فروغ میں اوپر والے کا روادار ہونا یقیناً حیران کن نتائج پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن کیا اوپر اس بات کا احساس ہے؟ ایک لاعلاج امید پرست ہونے کے باوجود میرا جواب نفی میں ہے۔

شروع میں دیے گئے سوالات کا مقصد محض یہ واضح کرنا تھا کہ یہاں کسی کے پاس بھی کامل سچ، مسائل کا حتمی حل اور مستقبل کا متفق علیہ راستہ موجود نہیں۔ ایسا نہیں کہ ہم فکری طور پر بانجھ قوم یا خطے سے ہیں۔ ہم بہرحال رواداری سے کوسوں دور اپنے اپنے مورچوں میں براجمان تقسیم در تقسیم کی شکار ایک بے سمت قوم ضرور ہیں۔ یہ ادراک کر کے کہ کسی کا دامن وہ نہیں جس کو نچوڑ دیا جائے تو ملائکہ وضو کر پائیں گے، ہمیں مشترکات پر آگے بڑھنا ہو گا۔ متفرقات پر ڈٹے رہنے سے صرف ہمیں تقسیم کرنے والے خطوط مزید گہرے ہوں گے۔

جو کامن گراؤنڈ ہمیں عافیت کی منزل تک لے کر جا سکتا ہے اس میں دہشت گردی اور تشدد کے خاتمے کی ضرورت و خواہش، معاشی استحکام اور جمہوری پاکستان کا حصول نمایاں ہیں۔ ان سب کی طرف جانے والے راستے پر رواداری کا زادِ راہ درکار ہے۔ گھوڑوں کو ایڑ لگانے سے پہلے اپنی اپنی خورجینوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).