سعودی شہزادے کا 43 برس پرانا ’راز‘
گرینڈ ہوٹل، کانز (فرانس کا ایک شہر)، سنہ 1976۔ موسم گرما کی ایک شب دو افراد ایک رئیس اور ایک عام کھلاڑی ایک لفٹ میں سوار ہیں۔
رئیس آدمی سعودی عرب کے بانی شاہ سعود کا پوتا اور ریاض کے سابق گورنر کا بیٹا شہزادہ عبداللہ بن ناصر ہے جو تخیل سے بھی زیادہ امیر ہے۔
دوسرا شخص مانچسٹر کا فٹبالر ایمون او کیف ہے جو کہ ایک پرنٹ ورکر کا بیٹا ہے اور اولڈھم میں ایک سادہ سے گھر میں رہتا ہے۔
یہ دونوں کسینو (جوئے خانے ) سے آ رہے ہیں۔ عبداللہ نے کسینو میں بازی ہاری ہے۔ وہ ہمیشہ ہارتے ہیں اور یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ اگر آپ سعودی شہزادے ہیں تو چند ہزار ڈالر میں تو آپ کا لنچ آتا ہے۔
ایمون جوا نہیں کھیلتے لیکن انھوں نے بازی جیتی ہے۔ دو سال قبل وہ انگلش فٹبال کی تیسرے درجے کی ٹیم پلائیموتھ آرگائل میں ریزرو کی حیثیت سے شامل تھے اور بجلی کے میٹر کے لیے سکے اکٹھا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
لیکن اب وہ جیٹ سیٹ میں پرواز کر رہے ہیں۔ اول درجے کے طیارے، فائیو سٹار ہوٹل، یورپ کی عظیم سیر پر دنیا کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک کے ساتھ۔
اور پھر لفٹ میں عبداللہ ایمون کی جانب مڑتے ہیں۔
عبداللہ نے کہا: ’میں تم سے بہت دنوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ‘ وہ اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھتے ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں۔ ‘
ایمون شہزادے کی سانسوں کو سونگھ سکتے تھے، سگریٹ اور جانی واکر وسکی کی بو۔ بے چینی کے عالم میں انھوں نے جواب دیا: ’آپ کا مطلب ہے بھائی کی طرح؟ ‘
عبداللہ نے کہا: ’نہیں، بھائی کی طرح نہیں۔ ‘
اور کینز میں ہی موسم گرما کی اس رات کو ان کی پریشانی شروع ہوئی۔
ایمون او کیف کون ہیں اور سعودی عرب کیسے پہنچے؟
ایمون کی جو کہ اب 65 سال کے ہیں، پرورش جنگ عظیم کے بعد والے برطانیہ میں ایک تین کمروں والے کونسل کے گھر میں ہوئی۔ ان کا گھر شمالی مانچسٹر کے بلیکلی میں تھا۔ ان کے تین بھائی، دو بہنیں اور ایک کتا تھا۔ ان کے دادا بھی ان کے ساتھ رہتے تھے۔ پتہ نہیں اتنے سارے لوگ کہاں سوتے ہوں گے؟
مانچسٹر کے ہوٹل میں اپنے بیتے وقت کو یاد کر کے مسکراتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں آج تک حیران ہوں۔ ‘
ان کے والد آئرش تھے اور وہ مردوں کی ایک فٹبال ٹیم ’سینٹ کلیئر کیتھولک‘ چلاتے تھے۔ ان کی والدہ ان کی کِٹ دھوتیں اور اسے استری کرتی تھیں۔ ایمون گیند لاتے پھر اس پر دوسرے میچ سے پہلے چربی لگا کر چمکاتے۔
ایمون کا گھر پارک سے 30 گز کے فاصلے پر تھا اور مانچسٹر کی گیلی گھاس پر اندھیرا ہونے تک وہ وہاں کھیلا کرتے تھے۔ وہ اچھے فٹبالر تھے۔ انھیں مانچسٹر سکول اور مانچسٹر یونائٹیڈ کی نوجوان ٹیم کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن پھر آلٹرنچم کے خلاف ایک میچ میں ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔
اولڈ ٹریفورڈ کے سٹیڈیم میں فلڈ لائٹس میں کھیلنے کا ان کا خواب ختم ہو گیا۔ اس کی جگہ انھوں نے سکول چھوڑ دیا اور پھر مانچسٹر ایوننگ نیوز کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے لگے۔
جب ان کا پاؤں بہتر ہو گیا تو انھوں نے سٹیلی برج سیلٹک کے ساتھ معاہدہ کیا۔ یہ قریب میں ہی واقع ایک نیم پیشہ ور کلب تھا۔ ان کے پہلے مینیجر جارج سمتھ تھے۔ وہ ایک سابق فٹبالر تھے اور کوچنگ میں اپنا بین الاقوامی کریئر بنانے میں لگے ہوئے تھے۔
جارج نے جو پہلے ہی آئس لینڈ میں کام کر چکے تھے، سٹیلی برج کو چھوڑ دیا اور سعودی عرب کے اہم ترین کلب میں سے ایک الہلال کے مینیجر بن گئے۔ اس کے بعد ایمون نے بھی ٹیم کو خیرباد کہا اور تین سو میل دور پلائیمتھ کی ٹیم میں شامل ہو گئے۔
لیکن ان کی معاشی حالت وہاں بھی پتلی تھی۔ وہ بمشکل مکان کا کرایہ ہی ادا کر پاتے تھے اور اسی لیے وہ بمشکل ایک سیزن ہی وہاں رک سکے۔ پھر جب گھر واپس آئے تو انھیں ایک خط موصول ہوا۔
خط پر عربی زبان میں مہر لگی تھی۔
خط جارج سمتھ کی جانب سے تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ایمون ایک ماہ کے ٹرائل کے لیے سعودی عرب آئیں۔ اگر انھوں نے لوگوں کو متاثر کیا اور گرمی برداشت کر سکے تو وہ الہلال کے لیے معاہدہ کرنے والے پہلے یورپی ہوں گے۔
ایمون نے بتایا: ’وہ نومبر کا مہینہ تھا اور میرے خیال سے (مانچسٹر میں ) برف پڑ رہی تھی۔ میں نے سوچا یہ بری پیشکش نہیں ہے۔ ‘
لیکن صرف موسم نے ہی تحریک نہیں دی بلکہ ایمون کی شادی ہو چکی تھی اور ان کے دو بچے تھے۔ انھوں نے سوچا کہ سعودی عرب کا ایک سفر گھر کے قرض کی ادائیگی کا سامان ہوگا۔
وہ لندن گئے اور وہاں سے سعودی دارالحکومت ریاض کے لیے قاہرہ اور جدہ سے ہوتے ہوئے پرواز لی۔ جدہ پہنچ کر انھیں پتہ چلا کہ وہ ایک نئی دنیا میں آ گئے ہیں۔ ایک سعودی افسر نے ان سے سنڈے ایکسپریس اخبار لے لیا اور پھر قینچی لے کر اس پر شائع تمام خواتین کی تصویر کاٹ کر صرف ان کا سر رہنے دیا۔ ایمون نے کہا کہ اس سے بھی خراب حالت ہو سکتی تھی کیونکہ ان کے ساتھ والے شخص کے پاس ’نیوز آف دی ورلڈ‘ تھا۔
ثقافتی دھچکے ملتے رہے۔ ریاض میں جارج رن وے پر ایک بڑی سی بیوک کار کے بونٹ پر بیٹھے ایمون کا انتظار کر رہے تھے جبکہ گھر پر ایمون مورس مینی ڈرائیو کیا کرتے تھے۔ مانچسٹر میں مچھلی اور چپس بڑی دعوت ہوتی تھی۔ فائیو سٹار ہوٹل میں ایمون نے مفت کھانے اور مشروب کے لیے سائن اِن کیا۔
مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
- غزہ کی پٹی کے النصر میڈیکل کمپلیکس میں مبینہ اجتماعی قبروں کی حقیقت کیا ہے؟ - 24/04/2024
- ’موت کا جزیرہ‘: اینتھریکس کے وہ خفیہ تجربے جن کے لیے برطانوی فوج نے سائنسدانوں کی مدد حاصل کی - 24/04/2024
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).