قصیدہ در مدح عمران خان معروف بہ موجد اعظم (تاریخ جدید)


کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہم پاکستانی اللہ کی اس نعمت پر سپاس گزاری کا حق کیسے ادا کر پائیں گے کہ اس نے ملک و قوم کے مہا رکھشکھوں کے ہاتھوں ہمیں ایک دانشور وزیراعظم عطا ”کروایا“۔

 ”دانشور“ وزیر اعظم کہہ کر یہ خاکسار، معاذ اللہ، کوئی طنز نہیں کر رہا۔ متعدد بار عرض کیا ہے کہ 1990 کے عشرے کے اخبارات میں چھپنے والے تاریخ، سیاست، تہذیب، بر صغیر کے مسلمانوں کے قومی شعور اور پاکستانی حکمرانوں کی اجتماعی نابکاریوں پر ہمارے موجودہ وزیر اعظم کے مضامین کے انبار یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قدرت نے ہمیں جو انمول وزیراعظم 70 برس بعد عطا فرمایا، کرکٹ کے میدان سے نکلتے ہی اس پر الہامات و انکشافات کی بارش ہونے لگی تھی۔

خود پر تازہ واردہ الہامی و مکشوفی مضامینِ غیب کے بدولت آج سے 22، 23 برس پہلے اخبارات میں اپنی دانش کی دھاک اس نے اتنی شدت سے بٹھائی تھی کہ راقم اس کے ”نبوغ“ پر بری طرح لہلوٹ ہوجاتا اور اس نابغے پر ایمان نہ لانے والے جاہلوں کا حقہ پانی بند کرنے کا سوچنے لگتا۔

راقم تب یہ قطعاً سمجھ نہ پایا تھا کہ فطرت اس وقت لالے کی جو نظری حنا بندی کررہی تھی اس کے عملی اظہارات پون صدی بعد اس وقت ظہور پذیر ہونے والے ہیں جب افلاطون کی آدرشی ریاست کا یہ خفقانی دانشور وزیر اعظم ترکی اور ایران کے دوروں پر جاکر وہاں بھی اپنی تاریخ دانی کا لوہا منوالے گا۔ ابھی پچھلی جنوری میں اس نے ترکی میں اپنی چھپر پھاڑ دانش کی ایسی دھاک بٹھائی تھی کہ تحریک خلافت والے مولانا محمد علی جوہر کی روح بھی اپنی قبر میں ایک بار تو تڑپ کر رہ گئی ہوگی۔ فرمایا تھا کہ

 ”جب ترکی یونان کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا تو پاکستان کے مسلمانوں نے اس کے لیے بہت سا فنڈ جمع کیا تھا“۔

منشا اس انکشاف کا صرف یہ تھا کہ ترکی کو زیر بار کرکے اُس فنڈ کے بدلے میں پاکستان کے لیے امداد بٹوری جائے۔

اور اب اگلے روز اس نے ایران میں بیٹھ کر براعظموں کے دور ہوتے نظریے ( drifting theory of continents) سے استفادہ کرتے ہوئے قدیم زمانوں میں جاپان اور جرمنی کی سرحدوں کو جڑا ہوا مان کر وہاں پر ان ملکوں کی مشترک کاوشوں سے فروغ پانے والی صنعت کاری کا انکشاف کیا اور ترکوں کی طرح ایرانیوں کو بھی اپنی تاریخی معلومات سے اتنا حیران کردیا کہ ایک طرف ٹائن بی کی قبر پر لرزہ طاری ہوا اور دوسری طرف پروفیسر شیریں مزاری پر ایسا سکتہ طاری ہوا کہ وہ شرعی پردے میں چھپنے پر مجبور ہو گئی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ سازوں کی نسبت تاریخ ایجاد کرنے والے لیڈر زیادہ قوی دماغ اور آہنی عزم کے مالک ہوتے ہیں۔ پاکستان کو ایک تاریخ ساز لیڈر قائداعظم کی صورت میں ملا تھا یا پھر اب یہ ”تاریخ ایجاد“ لیڈر ملا ہے۔

یہ تو تھی اس عطائے خواص وزیراعظم کے بیس پچیس سالہ پرانی تاریخی فہم و فراست کی کہانی اور اس کے نئے شواہد کی داستان۔ اُس زمانے میں ان کے اندر جو دانش انڈیلی گئی تھی اس کے نمونے آج بھی ان کے منہ سے نکلنے والے مذکورہ تاریخی انکشافات کی صورت ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اُس زمانے میں ان کے نام سے چھپنے والے مضامین کی سند پر کچھ سوالات اٹھائے جاتے تھے اور آج بھی شاید اس میں شک کی کوئی گنجائش نکلتی ہو لیکن وزیراعظم بننے کے بعد وہ جس پر اعتماد طریقے سے تاریخی واقعات ”ایجاد“ کرنے لگے ہیں وہ بلاشبہ کسی چرس گانجے یا بھنگ افیون کے اثرات نہیں کہے جا سکتے۔ لاریب یہ اسی روشنئی طبع کے نتائج ہیں جو 2014 کے دھرنوں کے زمانے سے ان پر بلا بن کر نازل ہو رہی ہے۔

 ”دانش کل“ اور ”دیانت بے مثل“ کے حامل اس لیڈر نے اپنے انوکھے تاریخی شعور کی بدولت جب نیا پاکستان تخلیق کر کے ”ریاست مدینہ“ کے قیام کا اعلان کیا تھا تو، چونکہ ان کی 22 سالہ جدوجہد ہی انصاف کے نام پر تھی، اس لئے ان کے اقتدار میں آتے ہی وعدے کے مطابق پہلے 100 دنوں میں ہی بدلے ہوئے حالات کا رخ بتانے والے اشارات کا ظہور ہونے لگا تھا۔ اس کا اندازہ یوں کیجئے کہ ان کے آتے ہی اس مملکت میں عدل و انصاف کا وہ بول بالا ہوا ہے کہ اب نہ کسی پولیس مقابلے میں بے گناہ مارے جاتے ہیں اور نہ کسی کے ساتھ ظلم ہوتا ہے۔

 ہر چوک چوراہے اور بازار مارکیٹ میں وزیراعظم خود یا ان کے مقرر کردہ وزرائے اعلیٰ سیاں کوتوال کے بھیس میں عوام کی داد رسی کے لیے موجود رہتے ہیں کیونکہ وزیراعظم کو یہ سبق پوری طرح یاد ہے کہ سابقہ ادوار میں مرنے والے بھوکے کتوں اور گرسنہ و بے گھر عوام کی ذمہ داری اب اس کے سر ہے۔ تھانہ کچہری اور عدالت و وکیل بھی بالکل بدلے بدلے سے معلوم ہوتے ہیں۔ انصاف اتنا سستا فوری اور وافر ملنے لگا کہ جیسے قاضی القضاۃ کو اندر ہی اندر کوئی تحریک لاحق ہوگئی ہو۔

اب بے گھروں کو گھر میسر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بے روزگاروں کو اتنی نوکریاں ملنے لگی ہیں کہ اکناف عالم سے لوگ یہاں آتے ہیں اور زر و جواہر سے جھولیاں بھرتے ہیں۔ پولیس کے نظام اور سرکاری دفاتر و پٹوار خانوں میں اتنی اصلاح ہو چکی ہے سڑکوں پر سفر کرنے والے مسافروں کو پولیس جھک کر سلام کرتی ہے اور چالان اگر ناگزیر ہو جائے تو اہلکار معذرت کے ساتھ پہلے اپنے فرائض کی مجبوری کا واسطہ دیتا ہے پھر سرکاری خزانے سے رقم ادا کروا کر فرشی سلام کرتے ہوئے مسافر کو اپنی طرف سے کچھ تحفے تحائف بھی دے کر رخصت کرتا ہے۔

 پٹوارخانے کا عملہ آپ کی زمین جائیداد کا انتقال بسہولت کرکے خوشی محسوس کرتا ہے اور رات ہونے سے پہلے پہلے فردِ انتقال آپ کے گھر پہنچا دیتا ہے۔ وہ یہ کام کیوں نہ کرے کہ اس پر یوتھیوں کا خوف بری طرح سوار رہتا ہے۔ سابق حکمرانوں کے کہ حامی ”پٹواری“ یہ منظر دیکھ دیکھ کر اپنے سابقہ انتخاب پر پچھتاتے اور منہ خاک پر ملتے ہیں۔

نئے پاکستان کے سرکاری دفاتر میں اہلکار اب شکایت کنندگان کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار ملتے ہیں۔ جاتے ہی ٹھنڈے پانی اور گرم چائے سے تواضع ہوتی ہے۔ شکایت رفع ہونے پر رخصت ہوتے ہوئے اہلکار کے چہرے کی مسکراہٹ اور طمانیت دیکھنے کے لیے افسر بالا خود باہر تک آتا ہے اور سابقہ ادوار میں لیے گئے رشوت کے پیسوں میں سے کچھ رقم زبردستی اس کی جیب میں ڈال کر بچوں کے لیے پھل مٹھائی اور کھلونے لے جانے کی تلقین کرتا ہے۔

ملک میں پیٹرول نہایت سستا ہے اور بجلی اور گیس کے بلوں میں نمایاں کمی کردی گئی ہے۔ دکانوں بازاروں میں اشیائے صرف اور سامانِ خور و نوش کی بہتات ہے اور ارزانی اتنی ہے کہ خریدار جھولیاں بھر بھر کر شام کو جب گھر لوٹتے ہیں تو جیب چنداں خالی نہیں ہوتی۔ پچھلے دور میں چونکہ بڑے بڑے پروجیکٹ عوام کے خون پسینے کی کمائی حکمرانوں کی جیب منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے تھے اس لئے نئے پاکستان کے وزیراعظم کی بے مثال بصیرت کے عین مطابق، تمام بڑے منصوبے ختم کب کردیئے گئے۔

بڑی بڑی سڑکوں پر جاری کام جہاں تھا وہیں روک دیا گیا ہے۔ عوام کے روزمرہ کے بنیادی مسائل حل کرنے کی طرف توجہ شروع ہوچکی ہے تاکہ ہر طرف حقیقی خوشحالی نظر آئے۔ اب سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج اور دواؤں کی وہ فراوانی ہے جو یورپ و امریکہ کے بڑے ہسپتالوں کے مریضوں کے حیطۂ تصور میں بھی نہیں آتی۔ اسپتالوں میں نہ کوئی بچہ ڈاکٹروں کی غفلت سے مرتا ہے اور نہ کسی غریب کی جورو کمرۂ زچگی کے باہر سڑک پر رکشے میں بچے جنتی ہے۔ اور پولیو ویکسین کی کوالٹی کنٹرول پر تو اتنی توجہ صرف ہو رہی ہے جس کی سابقہ نا اہل حکومتوں کے دور میں کوئی مثال نہیں تھی۔ خیبر پختونخواہ کے عوام کو اس سلسلے میں اگر کوئی شکایت ہو بھی تو وہاں کے وزراء اسے چند شرپسندوں کی کارستانی قرار دے کر نہایت کامیابی سے میڈیا کو مطمئن کردیتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3