ہارون رشید کا ایک خط جو مجھے 43سال سے رُلا رہا ہے


خاور…!میں تمہارے ابو کے جنازے پر نہیں پہنچ سکا، آج دوپہر سے دل کی حالت یہ ہے کہ اسے سڑک پر حرکت کرتی ہوئی ہر چیز ایک جنازہ لگتی ہے۔ ہرچیز اپنی زندگی کا سفرپورا کر کے دم بدم موت کے اندھیروں میں گم ہوتی جا رہی ہے۔میرا خیال تھا کہ دوسرے لوگ بھی دیر سے آئیں گے اور رخصت ہونے والا ’’دانشوروں‘‘ کے انتظار میں اپنا سفر دراز کر دے گا۔قبرستان میں رکشہ جا کر رکا میں نے دیکھا کہ زمین پر ایک نئی قبر اُبھر آئی ہے، اس پر تازہ پھول پڑے ہیں، جانے والوں کے نشان باقی تھے اور فضا میں آنسوئوں کی نمی تھی۔

بوڑھا اداکار جس کی آواز میں ایسا طنطنہ تھا کہ مجلسیں گونج اُٹھتی تھیں اور مجمعے مسحور ہوجاتے تھے۔قبرستان کے ایک کونے میں تنہارہ گیا تھا۔ میں نے قبر سے چند پھول اُٹھائے اور روز ہوائیںتلوار کی رفتار سے چلتی تھیں دل کی ایسی حالت تھی جیسے برف پر بارش برس رہی ہو اور آج اس دوپہر کو جب سورج نے راستوں میںدوزخ کی آگ بھر دی ہے سردیوں کی وہ صبح ہر شے کے ہاتھوںمیں اُترآتی ہے، اس روز معلوم ہوا تھا کہ تنہائی کیا ہے؟ اکلاپا کسے کہتے ہیں اور آج پھر یاد آتاہے کہ تنہائی کسے کہتے ہیں اور اکلاپا کیا چیز ہے؟

خاور…! میں تم سے اظہار محبت کرتا ہوں اور یہ اعلان کرنا نہیں چاہتا کہ میں ویسی ہی اذیت سے دو چار ہوں جس سے تم گذر رہے ہو اگر کسی نے تم سے یہ کہا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے، بکواس کرتاہے خاور نعیم…! دھوپ اور سائے میں بہت فرق ہوتا ہے جو لوگ سائے میں کھڑے ہیں انہیں کیا معلوم کہ ایسے میں دل کی کیا حالت ہوتی ہے۔ میرے پیارے… ہم انسانوں کے جس قبیلے میں رہتے ہیں وہاںجھوٹ اور منافقت نے دلوں کو سیاہ کر دیاہے۔

ساری زندگی جھوٹی رسموں کی طویل ’’زنجیر‘‘ ہے ہم جھوٹی ہنسی ہنستے ہیں اور جھوٹے آنسو روتے ہیں۔موت کے ذکر میں اور بچھڑ جانے والوں کی یاد میں ہزار فلسفے ہیں اور ان گنت تجزیے لیکن سچ کیا ہے؟ سچ یہ ہے کہ اوپر خدا ہے اور نیچے تم ہو اور درمیان میں موت ہے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ میری جان! لکھ رکھو کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔یوں انسانوں کے اس قبیلے میں سب جھوٹ بولنے والے نہیں ہوتے ایسے بھی ہیں جو برستی تلواروں میں سچ بولتے ہیں انہی میں سے ایک آدمی نے کہا تھا کہ ’’جب تم ہنسو گے تو ساری دُنیا تمہارے ساتھ ہنسے گی، جب تم رو پڑو گے تو تمہیں رونے کیلئے تنہا چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘

سو تم رونے کیلئے اکیلے رہ گئے ہو۔خوب جی بھر کر رو ئو کہ وہ آدمی رخصت ہو گیا ہے جو تمہارے لئے پچیس برس تک سایہ بن کر رہا جس کی دعائوں نے ننگے اور ویران راستوں پرہمیشہ تمہیں اپنی پناہ میں رکھا ہے۔اپنی کمرے کی چٹخنی چڑھا لو، گم ہوجانے والے کی مہربان مسکراہٹوں کو یاد کرو اور اپنے اندرکی ساری اذّیت آنسوئوں میں پروکر نکال دو۔ اپنی چیخوں سے ساری فضا کو درہم برہم کر دو، آج بھی تم نہیں رو گے تو آنسو کس روز کیلئے بنے ہیں۔

خاور پیارے…! زندگی ان گنت بھید ہیں اور ہر آن نئے بھید منکشف ہو تے ہیں لیکن زندگی میں اگر کوئی مسلسل عمل ہے اور آخری صداقت ہے تو وہ بس موت کی صداقت ہے۔آدمی پیدا ہوتاہے اور ٹھنڈی ہوائیں اس کا استقبال کرتی ہیں، اس کے راستے پر سایہ دار درخت لگائے جاتے ہیں۔ خوشبوئوں سے، رنگوں کی بوچھاڑ سے اور موسیقی سے اس کا خیرمقدم کیا جاتا ہے۔اسے پھولوں سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اسے ان زمانوں کا پیامبر مانا جاتا ہے جن کی صبحیں نئی بشارتیں دیتی ہیں، پھر جوانی کی دوپہر شروع ہو تی ہے ۔

آدمی عملی زندگی کے راستے پر قدم اُٹھاتا ہے۔چہروں سے مسکراہٹیں رخصت ہونے لگتی ہیں، کمینگی اور نفرت جنم لیتی ہے اور اپنی ہی بستی کے لوگ نیزے سنبھال کر راہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔نیزوں سے گھیر کر اور تلواروں کی باڑھ پر رکھ کر اسے آگے بڑھنے سے روک دیا جاتا ہے۔اس کے پائوں میں پتھر باندھ دئیے جاتے ہیں، اپنی زندگی کو بچانے کیلئے اور اپنا راستہ طے کرنے کیلئے اسے کتوں سے لڑنا پڑتا ہے۔

سوروں کے درمیان اپنے دن اوراپنی راتیں گزارنی پڑتی ہیں اور اسے گدھوں کی عقل سے واسطہ پڑتا ہے تم ان شب و روز سے گزر چکے ہو، ان شب و روز سے گزر رہے ہو تم نے دیکھا ہے کہ ایک آدمی جسے زندہ رہنے کیلئے دو وقت کی روٹی، ایک جوڑا، اجلے لباس اور ایک چاردیواری کے سواکچھ نہیں چاہیے اپنی اَنا کا پیٹ بھرنے کیلئے اپنے ہی جیسے انسانوں کو قدموں تلے روندتا ہے، اپنی بہنوں، اپنی مائوں اور اپنے بیٹوں کی گردن پر پائوں رکھ کر اُوپر سے اُوپر جانا چاہتا ہے۔ بھیڑ میں اپنا راستہ بنانے کیلئے وہ خنجروں اور تلواروں سے جسموں کی فصلیں کاٹتا ہے اور اپنا رزق حاصل کرنے کیلئے جوکبھی دوچپاتیوں سے زیادہ نہیں ہوتاوہ انسانی سروںکے مینار تعمیر کرنے سے بھی نہیں جھجکتا۔

پیارے…! تم نے ایک ربع صدی ان لوگوں کے درمیان گزاری ہے، اس بستی میں جہاں اندھیرے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں تمہارے ابو کا وجود تمہارے لئے روشنی کا مینار تھا۔آج یہ مینار ٹوٹ کر گر پڑا ہے۔ موت کی برق نے اسے ریزہ ریزہ کر دیاہے اور تم شیشے کی کرچیاں سمیٹنے کیلئے رہ گئے ہو۔ ازل سے اب تک پھیلے ہوئے اس سمندر میں کشتیاں یوں ہی ڈوبتی اور اُبھرتی ہیں۔کشتی چلاتے چلاتے ملاح کے بازو تھک جاتے ہیں اور وہ بے دم ہو کر گر پڑتا ہے۔

حادثوں کی کوئی جگہ تو مقرر نہیں ہوتی کبھی ساحلوں کے پاس کبھی ساحلوں سے دور۔کیا ایسے میں کشتیوں کو ڈوبنے کیلئے چھوڑ دیا جاتاہے؟ سورج ڈوب جائے تو کیا پھر نہیںاُبھرتا؟ 27 اپریل کی شام کو ساڑھے چار بجے جو سورج گنگا رام کے میڈیکل وارڈ میں ڈوب گیا اور تمہارے اندر طلوع ہوگا۔تمہارے ابو کے وجود کی ساری روشنی تمہارے اندر ہے۔اُنہوں نے جو ایک ایک لمحہ گزارا ہے، وہ تمہارے اندر طلوع ہو گا۔ تمہارے ابوکے وجود کی ساری روشنی تمہارے اندر ہے۔

ایک ایک لمحہ دوسروں کے لئے زندہ رہو گے، تم جتنا رو سکتے ہو ایک ہی بار روچکو۔ اس کے بعد پھر کبھی تمہیں رونا نصیب نہ ہو گا۔ جب کبھی آنسو تمہارے دل سے اُبھریں گے تو وہ آنکھوں تک پہنچتے پہنچتے مسکراہٹ میں بدل ہو جائیںگے اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہم سے بہت سے لوگوں کی مسکراہٹیں دراصل آنسوئوں ہی کی بنی ہوتی ہیں۔ تم ہمیشہ گھر کی چاردیواری سے بھاگتے رہے ہو اور تم نے ساری دُنیا میں قہقہے بانٹے ہیں اب قہقہوں اور آنسوئوںکو بھول جائو اور انہی کے لئے زندہ رہو جنہیں تمہاری مسکراہٹوں کی ضرورت ہے ، اپنے ابو کی قبرکے سرہانے کھڑے ہو جائو اور آنسو پونچھ ڈالو کہ یہی زندگی کے ادراک کا لمحہ ہے۔

خاور…! پلٹ کر دیکھو میرے بھائی اب تو میری بھی آنکھیں بھیگ گئی ہیں۔ تمہارا :ہارون ٭٭٭٭٭

یہ خط مجھے 27اپریل1976کو ہارون الرشید نے لکھا تھا جو بعد میں اُنہوں نے ہارون ظفر کے نام سے (ہفت روزہ زندگی) میں چھپوایا ۔ یہ خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور مجھے اس دن کی یاد دلاتا رہتا ہے جب میں باپ کی موت کے بعد بہت اکیلا رہ گیا تھا۔ اس زمانے میں میں ہارون الرشید کو نہیں مانتا تھا شاید اس کی وجہ اس سے گہرا دوستانہ تھا۔وہ دائیں بازو کے نظریات رکھنے والا نوجوان تھا اور میں اس کے نظریات کا کٹر مخالف…لیکن اس خط کو 43سال سے سنبھالے رکھنا اس بات کا غماز ہے کہ اس زمانے میں بھی وہ الفاظ اور جذبات کی نفسیات کو گہرائی سے سمجھتا تھا ۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).