ناکام کون: پارلیمانی نظام یا نا اہل جمہوری نمائندے


دنیا کے بہت سے ممالک میں پارلیمانی جمہوری نظام کامیابی سے رائج ہے۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام اس لئے ناکام ہے کیونکہ اس نظام کو چلانے والے نا اہل اور نالائق ہیں۔ ناتجربہ کار اور نالائق رہنما، سیاستدان اور قیادت اپنی ناکامیوں کا ملبہ بہترین پارلیمانی جمہوری نظام پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی قیادت کے فقدان کے علاوہ پارلیمانی جمہوری نظام کی ناکامی کی ایک اوربڑی وجہ پارلیمان کی راہ میں تسلسل سے طویل آمرانہ ادوار کا واردہونا ہے۔

بلدیاتی نظام سیاسی قیادت کی نرسری کا درجہ رکھتے ہیں جنہیں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ جو ”اعلی قیادت“ اس وقت پاکستان میں پائی جاتی ہے وہ اپنے دامن پر آمرانہ ادوار کی پیداوار کا داغ لگائے ہوئے ہیں۔ ہماری تمام کی تما م موجودہ سیاسی لاٹ نا اہلی اور نالائقی کا میڈل سینے پر سجائے بڑی بے حسی سے عوام پر حکومت کیے جا رہی ہے۔ اسی لئے پاکستان میں آج کل یہ بحث عروج پر ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل موجودہ پارلیمانی نظام حکومت میں نہیں بلکہ ایک ایسے اسلامی صدارتی نظام حکومت میں ہے جہاں صدر براہ راست منتخب ہو اور ممبران قومی اسمبلی اسے بلیک میل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔

پاکستان کے سیاسی حالات کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاستدان اور ”متعلقہ ادارے“ بہت جلدی کسی خاص ٹارگٹ کو حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان میں پارلیمانی نظام کو ناکام ثابت کرنے کے لئے سیاستدانوں کو بدنام، بے عزت اور بے توقیر کیا جا رہا ہے۔ دو بڑی پارٹیوں کے مرکزی رہنما زرداری، نواز شریف اور ان کے قریبی رفقاء اپنی اپنی مبینہ کرپشن کے مقدموں میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

جمہوری نظام میں کیونکہ حکومتی پارٹی بھی آتی ہے لہذا پی ٹی آئی نے پاکستان کی معیشت کا وہ حال کر دیا کہ مہنگائی کی وجہ سے سونامی کی تباہی سے بھی جلد پی ٹی آئی کا گراف گر رہا ہے۔ اْنہوں نے جو خواب عوام کو دکھائے وہ چکنا چور ہوتے جا رہے ہیں۔ عمران خان نے ایران کے دورے ایسی غلطی کی جس پر پہلے ہی ایک وزیر اعظم فارغ ہو چکے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں ڈرامائی انداز سے ردوبدل نے باہمی اعتماد کی ساری بنیادیں زمین بوس کر دیں۔ اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لئے عمران حکومت کے پاس ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس بات پر تیار کیا جائے کہ پاکستان تیزی سے صدارتی نظام کی طرف جا رہا ہے۔

اسلام آباد میں تو ایک باز گشت یہ بھی ہے کہ صدارتی نظام کی طرف جانے کی سوچ اچانک نہیں پیدا ہوئی بلکہ عمران خان کو لانے والوں نے عمران خان کو حکومت میں لانے سے پہلے صدارتی نظام حکومت کا ذہن بنا رکھا تھا۔ کیونکہ ماضی میں عمران خان کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ صدارتی نظام کے حامی ہیں۔ ایوب خان ان کا ہیرو ہے اور وہ ایوب خان کے دور کو سنہری دور قرار دیتے ہیں۔ لہذا کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران خا ن جس تبدیلی کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں داخل ہوئے اس تبدیلی سے ان کی مراد نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور ان کے نزدیک صدارتی نظام حکومت موجودہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بن کر انھیں اتنی طاقت مل جائے گی کہ وہ فرسودہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو نافذ کر سکیں۔

ملک میں سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اٹھنے والے طوفان کی زد میں آنے والی عوام کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ جس صدارتی نظام کے آنے کے قصے انہیں سنائے جا رہے دراصل ملک میں نصف صدارتی نظام تو نافذ ہو چکا ہے۔ کابینہ میں حلیہ رد و بدل کے نتیجہ میں وزیرِاعظم عمران خان کی کابینہ میں سترہ کے لگ بھگ غیر منتخب اور ٹیکنو کریٹ براجمان ہیں اور اْنہی کو اہم وزارتیں سونپی گئی ہیں۔ حکمران پارٹی کے اندر کی رسہ کشی میں پارلیمان غیر مو ثر ہوتی جا رہی ہے اور جس ہاتھ میں وزراء نے وزارت کی سند پکڑ رکھی ہے اس کے کٹ جانے کا ڈر انہیں رات ڈرائے رکھتا ہے۔

تمام اختیارات وزیرِاعظم کی ذات میں مرتکز ہو گئے ہیں جو سوائے طاقتور ادارے کے کسی سے مشاورت کے بغیر اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ 55 ہزار روپے فی منٹ خرچہ اٹھانے والی قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں جن میں قانون سازی کے بجائے گالم گلوچ اورہنگامہ آرائی عام ہے۔ اْن میں قانون سازی ہو رہی ہے نہ ملکی مسائل سنجیدگی سے زیرِ بحث آتے ہیں۔ یہ ایک خطرناک صورتحال ہے، جس میں کسی وقت بھی سیاسی نظام کی بساط لپیٹی جا سکتی ہے۔

ہم نے ہرمارشل لاء کو دعوت بھی اپنی کمزوریوں کی وجہ سے دی ہے۔ اکتوبر 1958 ء میں ہماری مسلح افواج کے کمانڈر اینڈ چیف جنرل محمد ایوب خان نے اس وقت کے نیم سویلین نیم فوجی صدر مملکت میجر جنرل (ر) سکندر مرزا کی ملی بھگت کے ساتھ پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور پارلیمانی نظام پر مشتمل 1956 ء کے آئین کو اٹھا پھینکا۔ ماضی میں جب صدر ایوب خان نے 1962 میں ملک میں صدارتی نظام حکومت کو رائج کیا تو وفاقی اکائیوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں جس کے نتیجے میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ جو یہ کہتا ہے کہ ہم نے صدارتی نظام کا تجربہ نہیں کیا وہ غلط کہتا ہے۔ صدارتی نظام کا مطلب ہے کہ ایک شخص آ جائے گا اور وہ اپنی مرضی کے لوگوں کو حکومت میں شامل کر سکتا ہے۔ یہ طاقت تو ایوب خان کے پاس بھی تھی، جنرل یحیٰ کے پاس بھی تھی جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کے پاس بھی یہی طاقت موجود رہی۔

ہمیں الٹے سیدھے سوالات کے جوابات میں الجھنے سے بہتر ہے کہ اس اہم ترین سوال کا جواب ڈھونڈیں کہ ناکام کون، پارلیمانی نظام یا نا اہل ونالائق جمہوری نمائندے؟ پاکستان کا ”نظام“ 70 سال گزرنے کے بعد بھی علم نہ ہو سکا کہ یہاں کون سا نظام حکومت چلنا چاہیے؟ تاریخ سے نابلد لوگ ہوسِ اقتدار میں ایک بار پھر پاکستان کو اْسی خوفناک تجربے سے گزارنا چاہتے ہیں، اْس کے خلاف پوری قوم کو تمام تر طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنا ہو گی اور جمہوری عمل کو طاقتور بنانے کے لئے فروعی باتوں اور تقسیم کرنے والے رجحانات سے بہت اوپر اْٹھنا ہو گا۔ پاکستان ایک فیڈریشن ہے۔ ملک کو فرد واحد کے اختیار میں دینے کا خواب دیکھنے والوں کو متنبہ ہونا چاہیے کہ پارلیمانی نظام کے علاوہ کوئی بھی نظام پاکستان کی وحدت اور یک جہتی کے لیے ماضی کی طرح آج بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).