ڈیجیٹل گھگو گھوڑے


گذشتہ ہفتے نجی ٹیلی وژن سے منسوب ایک معروف میزبان اور کالم نگار کا کالم پڑھا جس میں ”گھگو گھوڑوں“ کا تفصیلاً ذکر کیا گیا اور ان کی اقسام بیان کی گئی۔ جو کہ بعد میں سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث آیا۔ وہ ایک سراسر سیاسی کالم تھا جس میں مضبوط اداروں کے خلاف گھسی پٹی ہرزہ رسائی کی گئی اور کالم کو بھرپور سیاسی رنگ دے کر حتئی کہ سیاست دانوں کے باقاعدہ نام لے کر تحریر کو آراستہ کیا گیا لیکن کالم کی آخری سطر پر ”مخصوص“ پاکستانی صحافتی انداز میں لکھ دیا گیا ”یہ تحریر سیاسی نہی ہے کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہو گی“۔ میں ذاتی طور پر کالم نگار کا بہت بڑا پرستار ہوں۔ اور ان کے تجزیے اور سورس آف نیوز اور علم سے بھی متاثر ہوں لیکن ان کا یہ کالم پڑھ کر مجھے ان کے بارے میں اپنی رائے کو نظرِ ثانی کرنی پڑی اس کی کچھ وجوھات پیشِ خدمت ہیں۔

کالم نگار نے پرانے وقتوں میں دیہاتوں میں رکھے گھوڑے ڈیکوریشن پیسوں کو ”گھگو گھوڑا“ بنا کر پیش کیا حالانکہ ”گھگو گھوڑا“ بالکل ہی مختلف چیز ہے جو کہ مٹی سے ہی بنا ہوتا ہے لیکن آرائش و سجاوٹ میں استعمال نہی ہوتا، اس سے وہ نفع نہی لیا جاتا جو ایک ڈیکوریشن پیس سے سجاوٹ کی مد میں لیا جاتا ہے۔ ”گھگو گھوڑا“ ایک طرح کی سیٹی جسے انگریزی میں وسل کہتے ہیں وہ ہوتا ہے۔ اس کا منہ گول ہوتا ہے جس میں پھونکنے کے لئے سوراخ ہوتا ہے۔

اور دوسرا سوراخ گھوڑے نما گھلونے کے پیٹ یا پشت پہ ہوتا ہے جس سے منہ سے دی گئی پھونک ”گھگو“ کی آواز پیدا کرتی ہے اور بچوں کو تفریح کا سامان مہیا کرتی ہے۔ یہ بھی ”کمہار“ کا شاھکار ہی ہوتا ہے۔ پنجاب کے دیہاتوں میں فاختہ کو ”گھگی“ کہا جاتا ہے اور گرمیوں یا فصل کی کٹائی کے موسم میں اس کی آواز دیہاتوں میں دور دور تک سنائی دیتی ہے۔ چونکہ ”گھگو گھوڑے“ سے نکلنے والی آواز اس (فاختہ) ”گھگی“ سے مشابہہ ہوتی ہے اور کھلونے کی شکل گھوڑے جیسی اس لئے اسے ”گھگو گھوڑا“ کہا جاتا ہے۔

میرے محترم کالم نگار ”گھگو گھوڑے“ اور ڈیکوریشن پیس کا فرق بیان کرنے میں اس لئے قاصر رہے کہ اُن کے قارئین کو بھی علم نہی کہ اصل ”گھگو گھوڑا“ ہوتا کیا ہے۔ اصل گھگھو گھوڑا ”“ پھونک ”کے حساب سے آواز نکالتا ہے۔ جس نے جتنی“ پھونک ”بھر دی اس حساب سے آواز نکال دی۔

میری ارضِ پاک میں ”گھگو گھوڑے“ آپ کو چپراسی کی کرسی سے لے کر ہر اس کرسی پر ملیں گے جہاں لوگوں کی ضرورت کا اختیار ان کو دیا ہو۔ یہ ”گھگو گھوڑے“ خود پھونک مارنے والے کو بتاتے ہیں کتنی ہوا بھرو گے تو بل پاس ہو گا، پینشن ملے گی، پٹرول کی رسیدیں ملیں گی، بجلی کا کنڈا لگے گا، گیس کا بل کم آئے گا، ایف آئی آر میں نام نہی آئے گا، کالج میں ایڈمیشن ہو گا، میڈیکل رپورٹ بنے گی، جہاز کی ٹکٹ سستی ملے گی، ائیرپورٹ سے بغیر چیکنگ گزار دیا جائے گا، شناختی کارڈ کی لائن میں لگنا نہی پڑے گا، پاسپورٹ کے دفتر نہی جانا پڑے گا، ہسپتال کا کمرہ مل جائے گا، ڈاکٹر پرائیویٹ چیک کر لے گا، ہمسائے کا پانی آپ کو مل جائے گا، ڈرائیونگ لائسنس گھر بیٹھے آ جائے گا، کروڑوں کا قرضہ معاف ہو جائے گا اور بہت سے ایسے کام جس کی تفصیل لکھوں تو جگہ کی کمی واقع ہو گی۔

ان ”گھگو گھوڑوں“ میں سب سے اچھا ”گھگو گھوڑا“ لکھاری ہوتا ہے جس کو پھونک مارنے والے کو بتانے کی ضرورت نہی پڑتی کہ کتنی پھونک مارو گے تو کیا لکھوں گا۔ ان کی پھونکیں ماھانہ اقساط کی مد میں ان کو ملتی رہتی ہیں اور ان کو علم ہوتا ہے کتنی آواز نکالنی ہے۔ ان کے پھونک مارنے والے اکثر پانچ سال کی مدت کے لئے ہوتے ہیں بعد میں ان ”لکھاری گھگو گھوڑوں“ کا پھونک مارنے والا بدل جاتا ہے لیکن ”لکھاری گھگو گھوڑوں“ کے قلم کی سیاہی یہ پھونکیں کبھی خشک نہی ہونے دیتیں نہ ہی ان پھونکوں سے ان کے گھر کاچولہا بُجھتا ہے۔

ان ”لکھاری گھگو گھوڑوں“ کا کمال یہ ہے کہ یہ کچھ بھی اور کسی کے خلاف اور حق میں لکھ دیتے ہیں اس بات سے بے پرواہ کہ پھونک مارنے والے کی پھونک میں کتنی بدبو اور تعفن ہے۔ وقت کی جدت نے اب ان کو ڈیجیٹل کر دیا ہے۔ ان کو ماری جانے والی پھونکیں اب گھروں کے ڈرائنگ روموں اور نجی محفلوں سے نکل کر واٹس ایپ تک پہنچ چکی ہیں۔ جہاں نہ شکایت کا ڈر نہ پھونک کے لیک ہونے کا ڈر نہ ”کوئی دیکھ لے گا“ کی صدا۔ اب بس موبائل فون اٹھایا اور ان ”ڈیجیٹل گھگو گھوڑوں“ کو پیغام پہنچایا اور قلم تیار۔

نوٹ:اس تحریر میں ”ڈیجیٹل گھگو گھوڑوں“ کی اصطلاح میری اپنی ہے کوئی بھی مماثلت اتفاقیہ ہو گی۔

رانا آصف محبوب

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

رانا آصف محبوب

Rana Asif Mahboob is a Freelance content writer,blogger and social Media Activist.To find out More about him please Check His Twitter Account :@RAsifViews

rana-asif-mahboob has 8 posts and counting.See all posts by rana-asif-mahboob