سگریٹ فروخت کرنے والی عالمی کمپنیاں اور پاکستان


دنیا بھر میں دن بدن سگریٹ پینے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، تمام تر قوانین اور جتن کرنے کے باوجود اسموکنگ پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ ایک کش پھر ایک سگریٹ اور پھر بھرا ہوا سگریٹ اور پھر منشیات کی ایک ایسی دنیا کہ گھر اجڑ جاتے ہیں، لوگ مر جاتے ہیں لیکن سگریٹ سلگتا رہتا ہے، سگریٹ جلتا رہتا ہے، کون اس کو روکے گا کیا آپ یا میں، یا پھر حکومت وقت؟

نئے پاکستان کے پہلے وزیر صحت عامر کیانی صاحب نے سگریٹ کمپنیوں کو مافیا قرار دیا تھا۔ اور تمباکو نوشی کے قوانین پر عمل درآمد کے لئے تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ایک خط بھی لکھا تھا۔ جس میں چشم کشا انکشاف کیے گئے۔ خط میں لکھا گیا کہ دنیا بھر میں تمباکو نوشی سے سالانہ 70 لاکھ اموات ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں یہ تعداد 1 لاکھ 60 ہزار ہے۔ خط کے مطابق تمباکو نوشی کی روک تھام کے لئے قانون 2002 موجود ہے۔ سابق وزیر نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت نے اسلام آباد کو سموک فری بنانے کا پروجیکٹ شروع کر رکھا ہے۔ سابق وفاقی وزیر کی جانب سے سگریٹ اور تمباکو کی مصنوعات پر گناہ ٹیکس عائد کرنے اوراس سے حاصل ہونے والی آمدن کو نوجوانوں کی بہبود پر خرچ کیا جانے کا بھی کہا گیا تھا۔

سال 2018 اگست میں عائشہ رضا فاروق کی زیرصدارت سینیٹ کمیٹی مجوزہ قانون سازی کے اجلاس میں سابق چئیرمین سینیٹ رضا ربانی اور اور حاصل بزنجو کیوبن سگار اور سگریٹ کے جی بھر کر کش لگا کر قانون سازی کرتے رہے جبکہ تمباکو نوشی کی ممانعت کے 2002 ء کے قانون کے مطابق عوامی مقامات، عوامی ٹرانسپورٹ، عوامی انتظار گاہوں، ہسپتالوں اور دفاتر میں سگریٹ نوشی پر پابندی ہے اور خلاف ورزی کرنیوالے کو جرمانہ یا قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اندازے کے مطابق 2020 تک تمباکو نوشی ہلاکتوں اور معذوری کی سب سے بڑی وجہ بن جائے گی۔ پاکستان میں تمباکو کے استعمال کے خلاف کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں ہر دوسرا شخص تمباکو کا استعمال کرتا ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان اینٹی سموکنگ سوسائٹی کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 31 کمپنیوں کے پاس سگریٹ بنانے کے 38 کارخانے موجود ہیں۔ سگریٹ کی فروخت کی مد میں حکومت ٹیکسوں کے ذریعے تقریباً 40 ارب روپے سالانہ وصول کرتی ہے۔ پاکستان میں تمباکو کا استعمال سگریٹ، پان، اور دیگر طریقوں سے کیا جاتا ہے۔ ملک میں تمباکو کی سالانہ فروخت ایک لاکھ ٹن ہے۔ غیر قانونی سگریٹ سازی اور اسمگلنگ روکنے کے لئے ملک میں 13 ادارے کام کر رہے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر بے بس ہیں۔ 25 سے زائد قوانین بھی غیر فعال ہو چکے ہیں۔

قانون بنانے، فعال کروانے اور تمباکو نوشی کے خلاف نئے ٹیکس عائد کرنا ترقی پزیر ممالک کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں اس کی سب سے بڑی وجہ وہ تمباکو بنانے والی بڑی کمپنیاں ہیں جو مافیا کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور اپنے چھوٹے چھوٹے اقدامات سے حکومتوں کی پالیسیاں ناکام کرتی رہتی ہیں، عالمی ادارہ صحت اور پاکستانی قوانین دونوں میں سگریٹ نوشی پر پابندی ہے لیکن سگریٹ پر پابندی صرف قانونی دستاویزات میں ہی کہیں چھپ جاتی ہے۔

تمباکو پراڈکٹس بنانے والی ان کمپنیوں نے گناہ ٹیکس سے بچنے کے لئے ایک نئی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ وہ خود ہی غیر قانونی تجارت کے خلاف سرگرم ہوجاتے ہیں۔ بظاہر تمباکو نوشی کے خلاف اس عمل سے یہ حکومت کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ اخبارات میں اشتہارات تمباکو نوشی کے خلاف تو چھپواتے ہیں لیکن اس میں میسج کچھ اور دیا جاتا ہے۔ خود اشتہار لگانا اور اس عمل کے خلاف کھڑے ہونا ایسا ہی ہے جیسے گھوڑا گھاس سے دوستی کر رہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

یہ کمپنیاں حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیدھے دھمکی دے رہی ہیں کہ اگر تمباکو پراڈکس پر ٹیکس لگایا گیا تو ہم غیر قانونی سگریٹ کی بھرمار کر دیں گے یعنی سگریٹ کی سمگلنگ شروع کر دیں گے۔ جس سے حکومت کو لاکھوں ڈالر ٹیکس کی مد میں نہیں مل پائیں گے۔ یہ کمپنیاں اتنی طاقتور ہیں کہ وزراء بھی ان سے کتراتے ہیں۔ یوں تو سابق وزیر صحت کو ادویات کی قیمتوں میں اضافے پر وزارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ لیکن ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق 2005 سے 2018 تک ادویات کے خام مال کی قیمت میں 700 فیصد تک کمی ہوئی۔

لیکن ادویات کی قیمت میں مسلسل اضافہ نظر آیا مطلب کہ ادویات کی قیمت میں اضافہ صرف اس وزیر یا حکومت کا ہاتھ نہیں یہ تسلسل کے تحت چل رہا ہے۔ گناہ ٹیکس پر بات کرنے اور اسموکنگ کے خلاف بولنے اور ان کمپنیوں کو مافیا کہنے پر وزیر صاحب کی وزارت چلی گئی ایسا کرنا اس مافیا کے لئے معمولی سی بات ہے۔ حکومت اپنی آنکھیں کھولے اور آئندہ بجٹ 2019 میں تمباکو پراڈکس پر زیادہ سے زیادہ ٹیکس عائد کرے۔ پاکستان میں اس وقت ایک سگریٹ کی قیمت 2 روپے سے بھی کم ہے جو ریجن میں سب سے کم قیمت ہے

سوچیے، جاگیے، بات کیجئے، سن ٹیکس (SinTax) کے لئے آواز اٹھائیے کہ یہ صرف ہمارا نہیں ہماری نئی نسل کا مستقبل بھی روشن کرنے کی طرف ایک قدم ہوگا۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider