عمران حکومت: حکمرانی کے پرانے دھڑے پر


ایسا لگتا ہے کہ جیسے حکومت کی سوچ کا زاویہ تبدیل ہو گیا ہے، کیونکہ وہ روایتی طرز فکر و عمل کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ واضح طور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے منشور سے اتفاق کرنے والے قریبی رفقا کو ایک ایک کر کے ہٹانا شروع کر دیا ہے اس کا مطلب ہے کہ تبدیلی کا خواب ادھورا رہے گا؟

ویسے اگر غیر جانبدارانہ صورت احوال کا تجزیہ کیا جائے تو موجودہ حکومت کے لیے اپنے نعروں پر عمل در آمد کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے کیونکہ یہ طے ہے کہ جب تک ہم عالمی مالیاتی اداروں کے مرہون منت رہتے ہیں تو کسی بھی عوامی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں۔ مالیاتی ادارے اپنا الگ پروگرام اور مقصد رکھتے ہیں انہیں اس سے غرض نہیں کہ لوگوں کو سہولتیں ملتی ہیں یا نہیں وہ تو اپنا قرض مع سود کے وصول کرتے ہیں اس کے ساتھ ان کے سیاسی عزائم بھی ہوتے ہیں تا کہ ان کے سرمائے کی ترسیل میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اور مقروض ممالک ان کی ہدایات پر عمل در آمد کرتے ہوئے اپنی معاشی پیش بندی کرتے رہیں اور وہ اپنے منافعوں و خواہشات کو متاثر نہ ہونے دیں لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جو بھی کوئی ان سے قرض حاصل کرے وہ ان کی شرائط کو ملحوظ خاطر رکھے۔

اب جب ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری حکومتیں ایک عرصے سے ان سے قرضہ لے رہی ہیں تو ان کے دیے ہوئے پروگرام سے منحرف نہیں ہو پا رہیں اور اگر ایسا کرنا چاہتی ہیں تو ان کی راہ میں مشکلات کی کھائی کھود دی جاتی ہے لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے نعروں اور وعدوں سے کہیں دور جا کھڑی ہے۔ وہی طرز حکمرانی اور وہی چال ڈھال اختیار کر چکی ہے۔ جو اس سے پہلے والوں کی تھی۔ مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ وہ جو کہا جا رہا تھا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں خود کفیل ہو چکا ہے اب متزلزل نظر آ رہا ہے کیونکہ چن چن کر وہ لوگ حکومت میں شامل کیے جا رہے ہیں جو مغربی مفادات کے محافظ بتائے جاتے ہیں اور جو معاشی مفکر حفیظ شیخ لائے گئے ہیں ان کے بارے میں تو یہ بات زبان زد عام ہے کہ وہ عالمی مالیاتی اداروں کے نمایندے ہونے سے کسی طور بھی ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے لہٰذا مشیر خزانہ کے طور سے وہ ملک کی معیشت ٹھیک کرنے میں نا کام رہیں گے۔ ان کا ماضی بتاتا ہے کہ انہوں نے معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے نج کاری کا سہارا لیا مگر غیر سود مند پالیسیاں وضع کیں۔

مثال کے طور پر دسمبر دو ہزار چار میں آغا خان فاؤنڈیشن کو حبیب بینک کے اکیاون فی صد شیئر صرف بائیس ارب میں فروخت کیے گئے جب کہ اس وقت حبیب بینک کے اپنے ڈیکلیئرڈ اثاثے پانچ سو ستر ارب روپے تھے۔

حفیظ شیخ سے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی پی پی کے دور میں جس طرح مہنگائی کو آسمان تک پہنچایا اور لوڈ شیڈنگ کا نہ ختم ہونے والا عذاب عوام پر نازل ہوا اس کا سہرا پارٹی قیادت کے ساتھ حفیظ شیخ کے سر بھی جاتا ہے۔ وہ اداروں کو بیچنے اور قرضے لینے میں بہت مصروف رہے اور عوام بجلی کو ترستے رہے۔ ان کی ”کوششوں“ کے نتیجے میں پاکستان کا قرضہ دو گنا ہو گیا۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ صاحب معیشت کو بحران سے کیسے نکالیں گے اور اگر نکالتے ہیں تو کیا وہ عارضی طور سے ہو گا یا مستقلاً؟

مستقلاً ہوتا ہے تو پھر ان کے بارے میں جو بھی کہا گیا یا کہا جا رہا ہے وہ درست تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ عمران خان سخت حالات سے عوام کو دو چار کرتے ہوئے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا عزم رکھتے تھے۔ مگر اب وقتی راحت مہیا کر کے ان کو پھر ان مالیاتی اداروں کے چنگل میں پھنسا دیا جائے گا۔

بہر حال یہ سب قیاس آرائیاں ہیں ممکن ہے مغربی ممالک نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہو کہ پاکستان کو اپنا تھوڑا بہت رخ بدلنے سے روکنے کے لیے ضروری ہے کہ اُسے آسانیاں فراہم کی جائیں اس کے سماجی شعبے میں اہم تبدیلیاں لاکر لوگوں کو گھمبیر مسائل سے نجات دلائی جائے۔ مگر ہمارے دوست جاوید خیالوی کو یقین نہیں آ رہا وہ کہتا ہے کہ یہی تو وقت ہے مغرب کو اپنی بات منوانے کا کہ ریاست کی معیشت کے استحکام کے لیے ان کے ذیلی اداروں سے بھاری رقوم کے حصول کے لیے کوشاں ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو اتنا سرمایہ دے سکتا۔ وہ سوال کرتا ہے کہ وہ پیسا جو چین اور سعودی عرب سے دیا کہاں گیا۔

اس کی باتیں غور طلب ہیں کہ ہمیں جب زیادہ ضرورت نہیں تھی کہ آئی ایم ایف سے رجوع کرتے تو اچانک کیا ہوا کہ وزیر خزانہ بھی بدل گیا اور کڑی شرائط پر قرضہ لینے کے لیے بھی بے چین ہو گئے؟

محسوس کیا جا سکتا ہے کہ حکومت پٹری سے اُتر چکی ہے اس کا رخ عوام سے خواص کی جانب مڑ گیا ہے۔ اس پر بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ صدارتی نظام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے یہ درست ہے کہ پارلیمانی نظام میں خرابیاں بہت پیدا ہو چکی ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندے شتر بے مہار ہو چکے ہیں اور بد عنوانی کے بھنور میں بری طرح سے الجھ گئے ہیں لہٰذا انہیں عوام اور عوامیت سے کوئی سروکار نہیں رہا وہ اپنا پیٹ سامنے رکھ رہے ہیں جب کہ اس وقت معاشی حالت دگر گوں ہے اور لوگ ہیں کہ پھڑ پھڑا رہے ہیں۔

اشیائے ضروریہ خوفناک حد تک مہنگی ہو چکی ہیں اور لوگوں میں یہ سوچ جنم لے رہی ہے کہ وہ جینے کے لیے ہر راستہ اپنائیں گے۔ کیا اس طرح ریاست اپنی بقا کو ممکن بنا سکے گی؟ بہر کیف عوام کو شروع دن سے اچھے دنوں کی آس دلائی گئی مگر وہ اچھے دن آہی نہیں رہے حکمران طبقے کے دن حیرت انگیز طور سے اچھے سے اچھے ہوتے گئے ہیں۔ آج وہ کھرب پتی بن گئے ہیں سیاسی اعتبار سے وہ اتنے طاقتور ہیں کہ قانون بھی ان کے قریب جانے سے گھبراتا ہے۔

بیرونی طاقتیں ان کی سپورٹر دکھائی دیتی ہیں یوں اس نے ہر طرح سے خود کو مضبوط توانا بنا لیا ہے۔ لہٰذا موجودہ حکومت جن سے لوگوں نے توقعات وابستہ کی تھیں کو بے حال کر دیا ہے مگر اس میں قصور اس کا اپنا بھی ہے اس نے یہ جانتے ہوئے ایسے افراد کو عوامی خدمت پر مامور کر دیا جو کبھی عوامی رہے ہی نہیں تھے ان کا تعلق اشرافیہ سے تھا اور اشرافیہ کب کسی غریب کا سوچتی ہے اسے تو فقط اپنے لیے جینا ہے اور اپنے لیے سوچنا ہے لہٰذا وہ حکومتی سربراہ کی امیدوں کو لگی دھندلانے۔ اب صورت احوال سب کے سامنے ہے تبدیلی کا نظارہ واضح ہے۔ ٹیکس پر ٹیکس لگ رہے ہیں عوام کا خون نچوڑا جا رہا ہے اور ایک بار پھر عالمی مالیاتی اداروں کی شرائط کو مان لیا گیا ہے لہٰذا مہنگائی تیز آندھی کی طرح چلنے لگی ہے۔ کوئی کیا کرے اور کہاں جائے، امیروں نے ہمیشہ عوام کو بیوقوف بنایا انہیں سادہ سمجھ کر لوٹا اور اپنے محل کھڑے کر لیے اب سب کے دل میں درد اُٹھتا ہے وہ کہتے ہیں کہ دیکھو لوگ پریشان ہیں اور زندگی سے تنگ آ گئے ہیں وہ یہ نہیں کہتے، اس نوبت کو انہوں نے ہی پہنچایا مگر دُکھوں کے اس دور میں سکھ کا سورج ضرور طلوع ہو گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).