میٹھی شتابی


کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہوا، سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ عورتوں کی تقریب تھی۔ میٹھی شتابی۔ بہت سی عورتیں تھیں بھی نہیں۔ صرف قریبی رشتہ داروں کو بلایا گیا تھا۔ تقریب ابھی جاری تھی کہ یکایک شور اٹھا اور کسی لڑکی کی زور سے بین کرنے کی آواز آئی، ”مرگئی مرگئی جل گئی جل گئی۔ مرگئی مرگئی جل گئی جل گئی۔ مار دیا، میں نے اسے، مار دیا میں نے اسے، مولا مار دیا، اب کیا ہوگا؟ سیدنا اب کیا ہو گا؟ “ پھر وہ بے ہوش ہوگئی تھی۔

قریب سے ہی پانچ منٹ میں ڈاکٹر آگیا۔ اس نے آ کر اچھے طریقے سے دیکھا۔ وہ بے ہوش تھی مگر زندہ تھی۔ نارمل نبض، نارمل بلڈ پریشر مگر شکل سے لگ رہا تھا جیسے تھک گئی ہو کسی لمبے سفر سے لوٹ کر سوئی ہو کہ آسانی سے جاگے گی بھی نہیں۔ ڈاکٹر نے ایک انجکشن بھی لگایا، دوبارہ بلڈ پریشر دیکھا، نبض محسوس کی، دل کی دھڑکنوں کو اپنے آلے سے سمجھا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔

کسی نے کہا بھی کہ آغا خان ہسپتال لے جائیں مگر ڈاکٹر نے کہا کہ ضرورت نہیں ہے تھوڑی دیر میں جاگ جائے گی۔ گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اسے دوسرے کمرے میں لٹانے کے لیے اٹھا ہی رہے تھے کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ مجھے کیا ہو گیا؟ اس نے پوچھا پھر اس پر خاموشی کا طویل دورہ پڑگیا تھا۔ پوری تقریب میں تھکی تھکی پھٹی پھٹی آنکھوں سے سب کو تکتی رہی پھر اپنی ساس کے ساتھ گھر واپس آگئی تھی۔

ایک ہفتے بعد زرینہ کانچ والا کو میرے پاس لایا گیا۔ اس کے ساتھ اس کا پریشان سا شوہر سلیم کانچ والا اور اس کی ساس بھی تھی۔ وہ لوگ خاموشی سے میرے کمرے میں آکر میرے سامنے بیٹھ گئے تھے۔

میں نے مسکراکر انہیں خوش آمدید کہا۔ میری توجہ ملتے ہی زرینہ کی ساس بول پڑی تھی، ”ڈاکٹر میری بہو کو ناجانے کیا ہوگیا ہے؟ “ اس کی ساس کی آنکھوں میں فکر اور پریشانی اس کے لہجئے میں عیاں تھی۔ ”نا بولتی ہے، نا پیتی ہے، نا کھاتی ہے، نا مانگتی ہے۔ بس خاموش بیٹھی نہ جانے کیا سوچتی رہتی ہے۔ کچھ کرو ڈاکٹر صاحب کتنی بھی مہنگی دوا ہوگی ہم لوگ خریدیں گے۔ پیسے کی فکر نہ کرنا۔ مجھ سے تو دیکھی نہیں جاتی ہے حالت اپنی بچی کی۔

میرا بیٹا بھی پریشان ہے، سارا گھر پریشان ہے۔ پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے اسے۔ دو بچے ہیں اس کے چھوٹے چھوٹے۔ اسے کچھ ہوگیا تو ان کا کیا ہوگا، ڈاکٹر وہ تو بڑے معصوم ہیں بڑے بھولے ہیں۔ یہ عجیب بیماری ہے کہ ماں کو بچوں کی محبت بھی نہیں جگاتی ہے۔ بچے بے چارے بھی کھوتے جارہے ہیں نہ جانے کس کا جادو چل گیا ہے ہمارے گھر پہ۔ “

میں نے زرینہ پر بھرپور نظر ڈالی۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے دوپٹے کو بار بار اپنی انگلیوں پر لپیٹ رہی تھی اور میرے پیچھے کھڑکیوں کی دوسری جانب دور آسمانوں میں نہ جانے کیا تلاش کر رہی تھی۔

اس کا شوہر سلیم شکل سے ہی پریشان لگ رہا تھا اس نے زرینہ کے ہاتھ کو چھو کر کہا، ”زرینہ! یہ ڈاکٹر صاحب ہیں۔ بہت اچھے ہیں۔ بات کرو ان سے۔ بتاؤ کیا تکلیف ہے تم کو۔ یہاں کے سب سے بڑے ڈاکٹر ہیں۔ زرینہ! بڑے ڈاکٹر ہیں، تمہارا علاج کریں گے۔ بات کرو ان سے، بولو کیا مسئلہ ہے؟ “

اس نے کوئی تکلیف نہیں بتائی مجھے۔ دبلی پتلی اسمارٹ سی لڑکی تھی وہ۔ خوبصورت چہرے پر گہری آنکھیں جن میں دور دور تک کچھ بھی نہیں دکھائی دیا مجھے۔ جیسے ہی میں نے اس کے چہرے پر نظر ڈالی دونوں آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی گالوں پر ابل گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ سلیم بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو چھپا رہا ہے۔ میں نے ٹشو بکس میں سے ٹشو پیپر نکال کر اسے دیا اور وہ ٹیبل پر سر رکھ کر زور زور سے رونے لگی۔

میں نے فوراً ہی فیصلہ کرلیا کہ زرینہ کانچ والا کو مجھے ہسپتال میں داخلہ کرنا پڑے گا۔ اسے آرام اور طویل المیعاد علاج کی ضرورت ہے۔ مجھے اس سے اکیلے میں کچھ باتیں کرنی ہوں گی۔ شوہر سے پوچھنا ہوگا۔ اس کے ماں باپ سے بات کرنی ہوگی۔ اس پورے واقعے کہ تہ تک پہنچنے کے لیے پتہ کرنا ہوگا کہ ماضی میں کیا ہوا ہے، اس پہ پہلے کیا گزر چکی ہے؟ تب ہی فیصلہ کرسکوں گا کہ زرینہ کو ہوا کیا ہے؟ اس کا علاج کیا ہے؟

شہر سے تھوڑا باہر پرسکون علاقے کے ایک پرائیوٹ ہسپتال میں، میں نے اسے داخل کردیا اور تاکید کی کہ اس کے شوہر کے علاوہ کوئی بھی اس سے نہ ملے۔ اگر وہ چاہے کہ اسے اپنے بچوں سے ملنا ہے تو بچے ضرور آکر ملیں۔ زبردستی اس کے بچوں کو اس کے پاس نہ لایا جائے۔

سلیم کا خاندان بڑا کاروباری خاندان تھا۔ روپوں پیسوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ سلیم نے اپنے باپ کا کام سنبھالا اور خوب سنبھالا۔ سلیم کے دادا نے شہر میں پہلی کانچ کی فیکٹری لگائی تھی، تب سے اس خاندان کا نام کانچ والا ہوگیا تھا۔ سلیم نے پرانے کاروبار کو جدید رنگ میں ڈھال دیا۔ کام بھی بڑھا، کاروبار میں ترقی ہوئی پھر دولت کی ریل پیل تو ہونی ہی تھی۔ سلیم نے خاندان کی ہی مرضی سے زرینہ سے شادی کی تھی۔ سلیم کی طرح اس کی بیوی نے بھی کوئی خاص تعلیم حاصل نہیں کی کیونکہ اس زمانے کے بوہری لوگوں میں پڑھنے لکھنے کا کوئی خاص رواج نہیں تھا۔

لڑکے گھر کا کاروبار سنبھالتے تھے۔ کاروبار سنبھالنے کے دوران ہی کاروباری تعلیم ان کو اس قدر مل جاتی تھی کہ کاروبار سنبھالنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی تھی۔ ذہین کاروباری خاندان کے بچے بعض دفعہ بغیر آگے پڑھے لکھے بھی کاروبارکو ایسے ہی چلاتے جیسے آج کل کے ایم بی اے اور بی بی اے چلاتے ہیں۔ کانچ والا خاندان بھی ایسا ہی خاندان تھا اور لڑکیاں تھوڑی بہت تعلیم کے بعد شادی کی تیاریوں میں لگ جاتی تھیں۔ زندگی بہت آسان تھی۔

لڑکیوں کی زندگی تو ویسے بھی مردوں کی رہیں منت تھی۔ ایک دفعہ شادی ہوگئی تو پھر زندگی گزر ہی جائے گی۔ کمیونٹی کے اندر ہی رشتے لگتے، شادیاں ہوتیں۔ لڑکیوں کا بنیادی مقصد مردوں کے لیے ایک ایسا گھر چلانا تھا جہاں سے وہ سکون کے ساتھ کاروبار چلا سکیں۔ بہت کم لڑکے تھے جو کاروبار کے علاوہ کچھ پڑھنے کا سوچتے۔ جو کچھ پڑھتے تو دینی تعلیم حاصل کرتے۔ جامعہ بوہرہ یونیورسٹی سے ملا کی سند حاصل کرتے اور دینی کاموں میں لگ جاتے۔ آج کل تو کچھ بوہری لڑکے لڑکیوں نے پڑھ بھی لیا ہے اور باتیں بھی ایسی کرتے ہیں جو مروجہ بوہری روایات کے خلاف ہیں مگر ان کا بھی انتظام ہے، سسٹم کچھ ایسا ہے جو ان کو خاموشی سے الگ کر دیتا ہے۔ کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے ان کی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6