علی ظفر نہیں، دیوی روئی ہے !


کچھ دیر پہلے علی ظفر جیو نیوز کے ایک شو، نیا پاکستان، میں رو پڑے اور گڑگڑا کے میشا شفیع کے حضور یہ استدعا کی اب وہ بس کر دے اور اس جھگڑے کو ختم کر دے اور ظاہر ہے علی ظفر ایک معتبر شخصیت ہے جیسا کہ شیکسپیئر کے ڈرامہ جولیس سیزر میں بروٹس تھا۔ جولیس سیزر میں سیزر کی لاش سامنے رکھ کر انتھونی بظاہر بروٹس کی تعریف کرتا ہے لیکن دراصل اس کو معتبر کہہ کہہ کر ولن ثابت کر دیتا ہے۔ لفظ معتبر یہاں بھی ایسی ہی معنویت کے ساتھ استعمال ہوگا اور یہ وضاحت اس لئے ہے کہ میں علی ظفر یا میشا شفیع کا مداح ہر گز نہیں ہوں گو کہ میرے گھر میں علی ظفر، بی ٹی ایس، زین ملک، ٹیلر سوئفٹ، مائیکل جیکسن اور آ ر ڈی برمن کے خلاف بات کرنا مشکل کام ہے ( ان میں سے آ ر ڈی برمن کے خلاف میں خود کچھ نہیں سن سکتا)۔

بہرحال علی ظفر اگر الزام کے اگلے ہی دن رو پڑتے اور پھوٹ پھوٹ کر کہتے کہ ان کی کردار کشی کی جا رہی ہے اور ایک مخصوص لابی انہیں انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے اور یہ کہ کچھ لوگ انہیں انڈسٹری سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں اور انہیں مداحوں کی نظر میں رسوا کرنا چاہتے ہیں تو بات اسی دن ختم ہو جاتی بس میشا شفیع کھمبا نوچتی رہ جاتی۔

اگر میشا شفیع کو چال الٹی ڈالنی مقصود تھی تو سیدھا بیان گھڑتے کہ میں تو میشا کو اپنی بہن سمجھتا ہوں اور اس کے بارے میں کچھ سوچنے( یعنی جنسی رفاقت یا چھیڑ چھاڑ وغیرہ) کا تصور بھی نہیں کر سکتا تو علی ظفر نے این جی او آنٹیوں اور نام نہاد لبرلز کی نظر میں تو معتوب ٹھہرنا تھا لیکن معاملہ رونے دھونے تک نہ ہہنچتا بلکہ متوسط طبقے میں وہ زیادہ مقبول ہوتے کہ ماں بہن کی عزت کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر میشا شفیع شاید زیادہ برے رد عمل کا اظہار کرتیں۔ ہو سکتا ہے اب بھی حاصلی اور لا حاصلی کا کوئی جھگڑا ہوا۔ مرد و زن کے معاملات میں انا، ٹھیس، محبت، سپردگی، بیگانگی، اضطراب، اشتہا، انکار، اقرار، کمٹمنٹ اور فریب جھکڑ کی طرح چل رہے ہوتے ہیں۔ تھمنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہاں کہاں گرد نے ڈیرے جمائے ہیں اور کیا کیا ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ مائیک ٹائی سن کو ان کی محبوبہ نے صرف اس بات پر جیل بھجوا دیا تھا کہ وہ اسے ہوٹل کے کرے سے نیچے چھوڑنے نہیں آیا تھا ( کم از کم ٹائی سن نے یہی کہا تھا )

عدالت میں پیش ہوتے ہوئے تو علی ظفر کی باڈی لینگویج کچھ ایسی تھی جیسے ریال میڈرڈ کا مقابلہ لیاری کی ٹیم سے کروا دیا گیا ہو گو کہ ہر ڈاکو، چور اور قاتل کی طرح انہوں نے عدالت آتے جاتے وکٹری کا نشان نہیں بنایا لیکن ان کا رونا بتاتا ہے کہ عدالت میں وہ اپنا دفاع بخوبی نہیں کر پا رہے۔ میشا کی وکیل عائشہ نے کل ہی کہا تھا کہ گواہان اور ثبوت بھی پیش کریں گے حالانکہ بات اگر چھیڑ چھاڑ اور ہاتھ چالاکی تک رہی تو صدری نسخہ وہی تھا کہ ” میں تے باجی مذاق کر ریا ساں، تسی سچی سمجھ بیٹھے” یا پھر کہتے کہ کوئی ایسا گواہ لاؤ جس کا اپنا دامن صاف ہو ورنہ جانبداری کا الزام لگا دیتے کہ جناب مجھ سے پیسے لیتا رہا اور جب واپسی کا تقاضا کیا تو گلے پڑ گیا۔ علی ظفر کے مقابلے میں جو تنظیم میشا شفیع کو سپورٹ کر رہی ہے وہ ایک این جی او ہے اور اس ایک کیس سے بلکہ علی ظفر کی رونے والی حماقت سے ان کے ہاتھ لمبا چوڑا مال لگے گا۔ علی ظفر کا وکیل گاؤدی ہے ورنہ کلائنٹ یوں ٹی وی پر اس وقت رو جائے جب کیس فیصلے کے قریب ہو، انتہائی احمقانہ حرکت ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ علی ظفر ایک کمزور شخصیت، کمزور کردار اور کمزور اخلاقی جرات کا مالک ہے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کی،” بڈھیاں دے منہ کدی نہ لگو”، یہ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ یہ ہنسی مذاق میں سمندر بھی پار کر جاتی ہیں لیکن جب بدلہ لینے پر آئیں تو ڈوبنے کا خوف اتار پھینکتی ہیں اور آپ کو بیچ منجھدار پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جب بروک شیلڈز اور جارج مائیکل کے لیموزین کی پچھلی سیٹ پر جنسی سرگرمی کی بات ہوئی اور بروک شیلڈز جارج سے تعلق توڑ چکیں تھیں تو اس نے الزام لگا دیا کہ وہ تو بہت آ س لگا کر پچھلی سیٹ پر گئیں تھیں لیکن جارج تو ہم جنس پرست نکلا۔ جارج بے چارہ گھر بیٹھے ذلیل ہو گیا۔

علی ظفر ایک خمار میں بھی تھا اور وہ یہ کہ وہ تو ایک ایسا سٹار ہے کہ لوگ اپنے جسموں پر بلیڈ مار کر اور دیواروں سے سر ٹکرا کر احتجاج کریں گے کہ علی ظفر کی مقبولیت سے جل کر بھونڈا الزام لگایا گیا ہے اور میشا شفیع اتنی خوار ہوں گی کہ ایک دن ہاتھ باندھ کر معافی مانگیں گی لیکن اس بات چارے کو کیا پتہ کہ یہاں بھٹو کو جھوٹے الزام میں پھانسی چڑھا دیا گیا اور کوئی آسمان نہیں گرا تو علی ظفر کیا چیز ہے۔ نہ علی ظفر کوئی عمران خان ہے کہ لوگ ہر اس عورت کو ذلیل کریں گے جو عمران کی جنسی خواہشات اور ان کے بے ہودہ اظہار پر احتجاج کرے گی۔

گو کہ میں نے اوپر علی ظفر کو کمزور شخصیت کہا لیکن اس کا یہ رونا کوئی جذباتی یا اخلاقی کمزوری نہیں بلکہ مارکیٹ ویلیو کی کمی کا معاملہ ہے، ہیسے کا معاملہ ہے، نوٹوں کا معاملہ ہے۔ البتہ میرا جی علی ظفر کی طرف ہیں اور میرا جی سے زیادہ معتبر کون ہو سکتا ہے جن کے صرف شوہروں کا کیس بڑا گرم ہے۔ شوبز میں کسی کے بارے کوئی حتمی رائے دینا بہت مشکل ہوتا ہے اور خاص طور پر اداکاروں یا سنگرز کے لئے۔ یہ بات آپ ان پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں سے پوچھیں جن کے ساتھ دونوں نے کام کیا ہے اور پوچھیں بھی رازداری سے تاکہ ضمیر، مفاد یا خوف کا بوجھ بھی نہ ہو۔ مرد و عورت کے باہمی الزامات چلتے رہیں گے اور کئی علی ظفر روئیں گے کیونکہ جب کمپنیاں کام دینا کم کر دیتی ہیں تو بیویاں کہتی ہیں کہ جان چھڑواؤ اس چنڈال سے ورنہ بھوکے مر جائیں گے۔ گو کہ میرا بحیثیت پروڈیوسر فلم اور میوزک کے لوگوں سے براہ راست واسطہ نہیں پڑتا لیکن کچھ ایسے سنگرز ہیں جس کی اخلاقی حیثیت میری نظر میں بہت شفاف ہے مثلاً جواد احمد اور شیر میانداد۔

علی ظفر اپنا کیس ہار گیا۔ کورٹ میں نہیں، جیو کی اسکرین پر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).