پی ایچ۔ ڈی اسکالر کہلوانے والے “پیاسے کوے”


گزشتہ دنوں ایک جان پہچان والے صاحب ہمارے ہاں تشریف لائے، چہرے بشرے سے قدرے معقول لگے تھے۔ نظام تعلیم پر بات ہوئی تو فرمانے لگے کہ انہوں نے پی ایچ۔ ڈی کر لی ہے اور اب ایک گورنمنٹ بوائز پرائمری سکول میں اپنی اضافی قابلیت کا مبلغ پانچ ہزار روپے ماہانہ ”محنتانہ“ بھی وصول کر رہے ہیں۔ موصوف زمانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کی ناقدری کا بھی رونا رو رہے تھے۔ اسی طرح ایک پرائمری سکول میں تعینات ہماری ایک اعلی تعلیم یافتہ عزیزہ نے ہم سے مشورہ کیا کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ایم فل کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ہم نے کہا کہ اس عمر میں ایسے نیک خیال کی کونپل کیسی پھوٹی؟ گویا ہوئیں کہ اس سے پانچ ہزار روپے اضافی الاونس ملے گا۔ بس آپ کو یہ تکلیف کرنی ہو گی کہ مجھے تفویض کار لکھ دیجئے گا۔

یہ سب تو چھوڑئیے۔ گزشتہ دنوں واٹس ایپ پر کسی نامعلوم نمبر سے ایس ایم ایس آیا کہ ”سر! مجھے اپنے ایم فل کے تھیسز کو مکمل کرنے کے لئے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کی طالبہ ہوں۔ کسی پروفیسر صاحب نے آپ کا حوالہ دیا وغیرہ وغیرہ۔ محترمہ نے یہی پر بس نہیں کی۔ دوسرے دن پھلوں سے لدی ہمارے ہاں آ پہنچی۔ اپنا تعارف کرایا۔ وہ بہاول پور ہی کے کسی غیر معروف شاعر پر ایم فل کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں جو بدقسمتی سے اس کے استاذ بھی تھے۔

انہوں نے اپنے بیگ سے کاغذ کے چیتھڑوں کا ایک ڈھیر سا نکال کر میز پر رکھ دیا۔ ہم نے کہا یہ کیا ہے؟ کہنے لگیں کہ یہی تو میرے تھیسز کے نوٹس ہیں۔ بس آپ کو یہ تکلیف کرنی ہے کہ اس کو ادبی پیرائیہ میں لکھ دیجئے۔ ہم نے ایک صفحہ اٹھایا تو وہ ہمیں پرائیویٹ سکول کے کسی تیسری کلاس کے طالب علم کی ہینڈ رائٹنگ لگی، جسے دیکھ کر ہمیں ہول سے آنے لگے۔ ہم نے کہا کہ عفت مآب ہم آپ کی اس حوالے سے کوئی مدد کرنے سے قاصر ہیں۔

جس پروفیسر صاحب نے آپ کو ہمارا حوالہ دیا، کیا انہوں نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ ہماری اپنی تعلیمی قابلیت محض میٹرک ہے۔ لہذا رعایتی نمبروں سے میٹرک پاس آدمی ایم فل کے تھیسز لکھنے میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہے۔ شاید انہوں نے غلطی سے آپ کو ہمارا حوالہ دے دیا۔ وہ بے یقینی کے صدمے سے اٹھ کر چلتی بنی۔

چونکہ ہمارے ہاں پی ایچ ڈی کو تعلیم کی اعلیٰ ترین سند سمجھا جاتا ہے اور ڈاکٹر صاحبان کو ایک توقیر حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ ایم فل یا پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کرنا پڑھے لکھے لوگوں کا ایک فیشن سا بن گیا ہے۔ ہم نے کئی نجی سکولوں کے اشتہاروں پر کئی اساتذہ کے اسمائے گرامی کے آگے ”پی ایچ۔ ڈی اسکالر“ لکھا دیکھا ہے۔ حالانکہ ان سے مل کر دیکھا جائے تو کہیں پر پی ایچ۔ ڈی یا اسکالر کی چھاپ نظر نہیں آتی۔ اس سلسلے میں یہ حیثیت چور دروازے سے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ایک طریقہ ہومیو پیتھی کی سند حاصل کر کے یا پھر ایک آدھ کتاب پڑھ کے کچھ شیشیاں رکھ کر نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا شروع کر دینا ہے۔ ہومیو پیتھک کالج میں تھرڈ ڈویژن میٹرک کو بھی داخلہ مل جاتا ہے۔ معروف کالم نگار جناب ناصر زیدی نے تو لکھا ہے کہ داخلے وغیرہ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ ”ڈاکٹر“ رشید انور اور ”ڈاکٹر“ رشید کامل کو تو میں نے خود انٹرنیشنل ہومیو پیتھک کالج ریلوے روڈ لاہور سے ”ڈاکٹری“ کی ڈگریاں اپنے یار گلزار عابد سے لا کر دیں۔

اب اگر کوئی ادیب، شاعر اور اردو کا استاذ ہے اور نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتا ہے تو اسے لوگ پی ایچ۔ ڈی ہی سمجھیں گے لیکن پتہ کریں تو کچھ ”ہومیو پیتھک“ بھی نکلیں گے، بلکہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ایسے کئی ملیں گے۔ حالانکہ قانون کے مطابق ہومیو پیتھ نام کے ساتھ ”ڈاکٹر“ نہیں لکھ سکتے، ہومیو ڈاکٹر یا ایچ ڈاکٹر بھی نہیں، البتہ ”ہومیو پیتھک ڈاکٹر“ لکھ سکتے ہیں۔

ایک اور کیٹیگری ہے، شاعری، ادبی صحافتی خدمات اور تجربے پر پی ایچ۔ ڈی کی۔ یہ ڈگری دینے والی یونیورسٹیاں ایک کمرے بلکہ ایک لیپ ٹاپ تک محدود ہوتی ہیں اور کچھ ڈالرز یا پونڈ کی ادائیگی پر ڈگری دے دیتی ہیں۔ ویسے ان کی ڈگری ہماری یونیورسٹیوں کی ڈگریوں سے بہت زیادہ خوبصورت بھی ہوتی ہیں۔ یہ ڈگری لینے والے اسے اپنے ڈرائینگ روم میں سجاتے ہیں۔ یہ اگر کسی ملازمت کے لئے پیش نہ کریں تو کس نے اور کیوں چیک کرنی ہے؟

ایسی ڈگریاں ایسے دوستوں کے پاس بھی ہیں جو کسی کالج میں بھی نہیں پڑھے اب وہ نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھتے ہیں اور تو اور مجید نظامی صاحب کو اعزازی ڈگری ملی تو ”نوائے وقت“ کی لوح پر ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھا جانا لازمی ہوگیا۔ بے نظیر بھٹو کو درجنوں اعزازی ڈگریاں ملیں لیکن انہوں نے کبھی ڈاکٹر نہیں لکھا۔

یادش بخیر، ہمارے ایک پاکستانی بوتسوانہ کی حکومت کے مشیر ہوتے تھے۔ ہر سال پاکستان آتے تھے۔ اب عرصے سے نام نہیں سنا۔ انہوں نے ایک بار 125 افراد کو ان کی خدمات پر اپنے ملک کی یونیورسٹی کی طرف سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دینے کے لئے بہاول پور میں باقاعدہ ایک کانووکیشن کا انعقاد کیا، مذکورہ بالا تمام معروضات پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انگریزی میں مرکب ’Philosophiac Doctor‘ کا مخفف ’Ph۔ d‘ اپنے اصل معنی کے ساتھ اردو میں عربی رسم الخط میں بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس لفظ کے معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ایسا معیار مقرر کرنا چاہیے کہ کوئی بھی ایرا غیرا اچکا اس ڈگری کے معیار کو پامال نہ کر سکے۔ پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری جاری ہونے کے بعد ہی کسی شخص کو اپنے نام کے آگے ”پی ایچ۔ ڈی اسکالر“ لکھنے کی اجازت دی جائے۔ نیز اس ڈگری کے حصول کے لئے معیار اور شفافیت کا کڑا نظام نافذ کیا جائے تاکہ جعلی کلیموں سے جعلی ذاتوں اور پھر جعلی ڈگریوں پر پنپنے والے اس مملکت خداداد میں کسی ایک ڈگری کا معیار تو اعلی اور شفاف نظر آئے اور چور دروازوں سے اس معیار پر پہنچنے والے پی ایچ۔ ڈی اسکالرز کہلوانے والے ”پیاسے کوے“ بھی حوصلہ شکنی پکڑ سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).