حسین محمد جعفری: ابتدائی اسلام کے اسکالر


اسکردو میں کتابوں کی زیادہ دکانیں نہیں ہیں۔ لیکن جب بھی وہاں جاتا ہوں میرے دوست عزیز علی داد مجھے سودے بکس ضرور لے جاتے ہیں۔ جہاں آپ کو گلگت بلتستان کی تاریخ سے لے کر اس خطے کی نسلی اور مذہبی رنگا رنگی تک بے شمارموضوعات پر کتابیں مل جاتی ہیں۔

 اسی طرح اپنے ایک سفر کے دوران مجھے اردو میں ایک کتاب نظر آئی جس کا عنوان تھا ”تاریخ تشّیع“ معلوم ہوا کہ یہ کتاب سید حسین محمد جعفری کی انگریزی کتاب ”دی اوریجن اینڈ ارلی ڈیولپمنٹ آف شیعہ اسلام“

(The Originand early development of Shia Islam)  کا اردو ترجمہ ہے جو مسلم عباس زیدی نے کیا ہے۔

جب 2019 کے شروع میں حسین محمد جعفری صاحب کا انتقال ہوا تو وہ 84 برس کے تھے۔ ان کی وفات سے پاکستان بین الاقوامی اہمیت کے حامل ایک اسکالر سے محروم ہوگیا جن کی کتابیں دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ پاکستان میں ایسے مورخین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جو تاریخ میں ڈاکٹریٹ کی دو اسناد کے حامل ہوں۔ ڈاکٹر جعفری نے پہلی پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے کی تھی اور دوسری لندن یونیورسٹی سے۔ ڈاکٹر جعفری جامعہ کراچی کے مرکز مطالعہ پاکستان یا پاکستان اسٹڈی سینٹرکے بانی ڈائریکٹر تھے۔ جہاں سے وہ 1998 میں سبک دوش ہوئے۔ اس کے علاوہ انہوں نے تدریس کے فرائض کوالالمپور کی یونیورسٹی آف ملایا، بیروت کی امریکی یونیورسٹی اور کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں انجام دیے تھے۔ اس کے بعد وہ آغا خان یونیورسٹی کراچی میں فل پروفیسر ہو گئے۔

آغا خان یونیورسٹی میں ڈاکٹر حسین محمد جعفری نے مطالعہ پاکستان اور پاکستان کی چیئر سنبھالی۔ ان کی اہم ترین کتابوں میں ”تاریخ تشّیع“ ہے۔ جو پہلی مرتبہ 1970ء کے عشرے میں بیروت کی امریکی یونیورسٹی سے شائع ہوئی تھی اور جسے ابتدا ہی سے ایک کلاسک کا درجہ حاصل ہو گیا تھا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں ہمارا رجحان یہ رہا ہے کہ ہم اپنے اعلیٰ پائے کے اسکالروں کو نظر انداز کرکے ایسے غیر ملکیوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں جن کی اسکالر شپ بڑی جانبدارانہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر برنارڈ لیوس کو لیجیے جس نے اسلام پر درجنوں کتابیں تحریر کیں۔ مگر اس کی کتابوں میں جانبداری اور تعصب صاف نظر آتا ہے اور وہ تاریخ کا اپنا ورژن پیش کرتا ہے جسے معروضی نہیں کہا جا سکتا۔

اسی طرح کیرن آرم اسٹرانگ ہیں جنہوں نے تقریباً ہر مذہب پر کتابیں لکھی ہیں۔ جنہیں پڑھ کر ہر مذہب والے خوش ہوجاتے ہیں اور اسی طرح کی پاپولر تاریخ میں ہمیں حالات و واقعات کی غیر جانبدارانہ اور معروضی شکل نظر نہیں آتی۔ جب ہم ابتدائی اسلام کی تاریخ پر حالیہ کتابوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں انگریزی میں لیزلی ہیزلٹن کی کتاب ”آفٹ ردا پروفٹ“ اورول فریڈ میڈ لونگ کی ”دا سکسیشن ٹو محمد“ (The Succession to Muhammad)  نظر آتی ہے جو خلافت راشدہ کے صرف ابتدائی دور پر بحث کرتی ہے۔

ان کے مقابلے میں جعفری صاحب کی کتاب اس موضوع پر خاصی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ ڈاکٹر حسین محمد جعفری خود شیعہ تھے اور ان کی تحریروں میں کسی بھی قسم کا تعصب یا جانبداری نظر نہیں آتی۔ ان کی ہر تحریر ہمیں تاریخ کا ایک معروضی نقشہ پیش کرتی ہے اور خاص طور پر اسلام کے ابتدائی دور میں اختلاف رائے کو تفصیل سے بیان کرتی ہے۔

ان کے علاوہ اردو کی ایک اور کتاب جو اس وقت ذہن میں آتی ہے تووہ مولانا مودودی کی ”خلافت و ملوکیت“ ہے۔ اس کتاب میں مولانا مودودی نے بڑی عمدگی سے بیان کیا ہے کہ کس طرح اسلامی ریاست کے ابتدائی عشروں میں جانشینی کے مسئلے کو حل کیا گیا اور تیسرے خلیفہ راشد کے دور میں مدینہ میں کس طرح باہر سے باغی وارد ہوئے اور حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت ہوئی۔ مولانا مودودی کی کتاب ”خلافت و ملوکیت“ ہر اس قاری کو ضرور پڑھنی چاہیے جو اسلام کے ابتدائی عشروں کی تاریخ کو سمجھنا چاہتے ہوں۔

اسی طرح جعفری صاحب کی کتاب شیعہ فکر میں امامت کا تصور کیسے پروان چڑھا، بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہے۔ جعفری صاحب کی تحریروں میں سنی اور شیعہ دنوں تاریخ کے ماخذ جو زیادہ تر عربی اور فارسی کے ہیں بڑی کثرت سے استعمال کیے گئے ہیں۔ کسی بھی اچھے مورخ کی طرح ڈاکٹر حسین محمد جعفری واقعات کو صرف مذہبی پس منظر میں نہیں دیکھتے بلکہ اس دور کے تمام سماجی، سیاسی، معاشی، نسلی، نفسیاتی اور قبائلی عوامل پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر کوفے کے بارے میں لکھتے ہوئے وہ 638 عیسوی میں کوفے کا شہر آباد ہونے کے بعد دوسرے خلیفہ راشد کے دور کا تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جس میں ایرانی سلطنت تباہ ہوئی اور اسلام کے جھنڈے گاڑے گئے۔ جعفری صاحب بتاتے ہیں کہ کس طرح نئے شہر کے لیے جگہ کا انتخاب کیا گیا تاکہ عرب افواج اس شہر میں رہتے ہوئے پورے خطے میں اپنی حیثیت مستحکم کرسکیں۔ شروع میں کوفہ صرف ایک چھاؤنی تھا جس میں رہنے والی فوج بڑی مختلف النوع تھی اور اس میں بھانت بھانت کے قبائل شامل تھے مگر اسے بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل سمجھا جاتا تھا۔

پہلا حصہ نزاری یا شمالی عرب کا تھا۔ جبکہ دوسرا یمن یا جنوبی عرب سے تعلق رکھتا تھا۔ پھر ان دو حصوں میں مزید کئی چھوٹے چھوٹے گروہ تھے اور ان گروہوں کا تعلق قدیم شجرہ انساب سے تھا۔ اس طرح قبل اسلام کی بہت سی باتیں کسی نہ کسی طرح جاری رہیں۔

 کوفے کے لوگوں نے ابتدائی اسلامی تاریخ میں جو اہم کردار ادا کیا اس کا تعلق بڑی حد تک اس انتظام سے تھا جو مختلف خلیفہ اور گورنر یا فرمانروا اس خطے میں نافذ کرتے رہے۔ جعفری صاحب کی تحقیق کے مطابق کوفے میں عرب عناصر اور ان کی ترکیب بڑی پیچیدہ تھی جو غالباً کسی بھی دوسرے عرب شہر سے زیادہ گنجلک تھی۔

 مثال کے طور پر ایک چھوٹا گروہ حجاز سے آنے والے قریش کا تھا اور پھر چھوٹے چھوٹے قبایلی اور نیم قبائلی گروہ تھے جو عرب کے شمال اور مشرق سے آئے تھے۔ اسی طرح کچھ اور عناصر کا تعلق جنوبی عرب سے تھا جہاں حضر موت اور یمن کے علاقے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ مسیحی قبیلے بھی تھے اور پھر وہ ایرانی بھی تھے جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔

 جعفری صاحب لکھتے ہیں کہ کوفے کے ایرانی اور عرب شہری سماجی نظام میں جداگانہ حیثیتوں کے حامل تھے۔ ایرانیوں کو ”موالی“ کہا جاتا تھا اور ان ہی موالیوں نے کوفے کی سیاسی اور مذہبی تاریخ میں اہم کردار ادا کیا۔ ”موالی“ کی اصطلاح دراصل مسلم فاتحین سے آزاد کردہ غلاموں کے لیے استعمال کی اور پھر”موالی“ میں دیگر غیر عرب لوگ بھی شامل ہوتے گئے۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی پچاس سال میں خاص طور پر چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کے مدینہ سے دارالخلافہ کوفہ منتقل کرنے کے بعد کوفے کی سماجی وسیاسی اتھل پتھل نے تاریخ پر بڑا اثر ڈالا۔

اس دورکے بارے میں یقیناً دیگر کتابیں موجود ہیں مثلاً ”کتاب الملل والنحل“ میں علامہ شہر ستانی  نے بڑی تفصیل بیان کی ہے۔ اس کے علاوہ ابوزہرہ مصری کی کتاب ”المذاہب الاسلامیہ“ جس کا اردو ترجمہ ”اسلامی مذاہب“ کے نام سے غلام احمد حریری نے کیا ہے خاصی کارآمد ہے۔

 لیکن حسین محمد جعفری کی تحریریں سینکڑوں ایسے عربی اور فارسی ماخذ استعمال کرتی ہیں جو دیگر کتابوں میں نظر نہیں آتے۔ مسلم عباس زیدی جنہوں نے ڈاکٹر جعفری کا اردو میں ترجمہ کیا ہے خود انگریزی کے پروفیسر تھے اور ماسٹرز کی تین اسناد کے حامل تھے۔

پاکستان میں مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصب بڑھنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم صرف اپنے مذہب اور اپنے فرقے کے علاوہ دیگر کے بارے میں کچھ نہیں پڑھتے اور اگر پڑھتے بھی ہیں تو وہی تحریریں جن سے ہمارے ابتدائی افکار کی مزید توثیق ہوتی ہو اور ہمیں اپنے خیالات کے جواز مل سکیں۔

 پھر ہمارے ہاں ایسے لبرل، ترقی پسند اور سیکولر ذہنیت کے حامل لوگ بھی ہیں جو مذہب کے بارے میں پڑھنا وقت کا زیاں سمجھتے ہیں۔ اس طرح کے رجحانات سے ہمارے معاشرے کو مجموعی طورپر نقصان پہنچا ہے اور ہم یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ معاشرے میں کس قسم کے افکار پروان چڑھ رہے ہیں۔

 اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم کھلے ذہن اور معروضی نگاہ سے مطالعہ کریں۔ مختلف ماخذوں سے پڑھ کر ہم اپنے ذہن کو وسعت دے سکتے ہیں اور ہم میں برداشت اور رواداری پیدا ہوتی ہے تاکہ ہم دوسروں کے خیالات و افکار کو سمجھ سکیں اور ان سے اتفاق یا اختلاف صحیح طور پر کرسکیں۔

مذاہب اور فرقے ہم اپنی زندگیوں سے خارج نہیں کرسکتے کم از کم مستقبل قریب میں تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ آسمانی صحیفوں کو تراجم کے ساتھ پڑھنے سے ہماری آنکھیں کھلتی ہیں اور ہماری بہت سے غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں۔ اسی طرح اصل ماخذوں اور ان کی تشریحات اور تفاسیر سے ہمیں مذاہب اور فرقوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور ہم ان کی باریکیاں جاننے لگتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).