اندرون حیدرآباد


حیدر آباد کا شمار پاکستان کے ان چند شہروں میں سے ہوتا ہے جو کہ اپنی منفرد پہچان کی وجہ سے اہم مقام رکھتے ہیں۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق حیدرآباد کی کل آبادی 1، 734، 309 ہے، اور ایراضی 309 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہے، حیدرآباد پاکستان کا آٹھواں بڑا شہر اور سندھ کا دوسرا بڑا اہم شہر ہے جو کہ دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے۔

اندرون حیدرآباد اصل میں حیدرآباد کے پرانے کلچر اور اصل شناخت کا نام ہے جس کی خوبصورت اور تاریخی عمارتیں، کھانے پینے کی مشھور اشیاء جیسے کے حاجی ربڑی، شبیر بریانی، ممبئی بیکری کا کیک، ٹاور مارکیٹ کا حلوہ پوری ناشتہ، گلاب پان، جدہ چاٹ، پھول گلی کی چائے، دیسے کھانے، حیدرآباد کی مشہور سواری فور سیٹر اور چوڑیاں جو کہ اس شہر کی پہچان بھی ہیں، روزمرہ کی زندگی، حیدرآباد شہر کا اندرونی منظر، جو کہ بڑا ہی خوبصورت، منفرد اور مکمل طور پہ ثقافتی رنگوں کا عکس ہے۔

تاریخی طور پر بھی شہر حیدرآباد کی اک الگ اور منفرد حیثیت ہے، کلہوڑوں اور ٹالپر میروں کے دور میں سندھ کا دارالحکومت رہا ہے۔ علمی، ادبی اور سیاسی ہلچل کے لحاظ سے بھی حیدرآباد کا اہم مقام ہے۔

پاکستان بننے سے پہلے یہاں ہندو خاصی تعداد میں آباد تھے جو کہ پاکستان بننے کے بعد ہندستان منتقل کر دیے گئے۔ لیکن انہوں نے اپنے پیچھے اک انمول خزانہ چھوڑا، وہ خزانہ تھا حیدرآباد کی خوبصورت اور آرٹ سے بھر پور دلکش عمارتوں کا، ایسی لاتعدا عمارتیں حیدرآباد میں اب بھی اصل شکل میں موجود ہیں جو کہ پرانے خوبصورت، ترقی یافتہ اور پرسکون حیدرآباد کا عکس دکھاتی ہیں۔ زیادہ تر یہ عمارتیں شہر کے اندرون میں واقع ہیں حیدر چوک، ہیرآباد، صدر اور ٹاور مارکیٹ کا علاقہ اب بھی ان خوبصورت عمارتوں کے سائے میں ہے، ان عمارتوں میں مکھی ہاؤس، سندھ یونیورسٹی اولڈ کیمپس کی عمارت، سٹی گیٹ، ٹاور مارکیٹ، حیدرچوک پر واقع تاریخی عمارتیں اور ایسی بہت ساری عمارتیں جو کہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئیں ہی، جن سے شہر حیدرآباد کی تاریخی حیثیت جڑی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ حیدرآباد کی تاریخی شاہی بازار جو کہ ایشیا کی سب سے بڑی بازار بھی ہے، 2 کلومیٹر رقبے پہ محیط تنگ گلیوں میں پھیلی ہوئی یہ بازار پکہ کلہ سے شروع ہو کر ٹاور مارکیٹ پہ اختتام پذیر ہوتی ہے اس بازار میں سارا دن لوگوں کا اک جم غفیر لگا رہتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پکے قلعے کا ذکر بھی لازمی ہے یہ قلعہ سن 1768 میں میاں غلام شاہ کلہوڑو نے تعمیر کروایا جو کہ فن تعمیر کا نادر شاہکار ہے، اس کے علاوہ حیدرآباد میں سندھ کے حکمران خاندانوں کے مقبرے بھی تاریخی حیثیت کے حامل ہیں جن میں ٹالپر میروں کے قبے اور میاں غلام شاہ کلہوڑو کا مقبرہ ہے، جو کہ خوبصورت تعمیرات کا اعلی مثال ہیں۔

اندرون حیدرآباد صدر، حیدرچوک، ہیرآباد، ٹاور مارکیٹ کا علاقہ، مرزا پاڑا، پکا قلعہ اور شاہی بازار کی تنگ لیکن پرانی اور خوبصورت گلیوں پر مشتمل ہے جن کی مشابہت لاہور سے ملتی جلتی ہے، اس شہر کا پرانہ دور بے حد ہی حسین اور جدید طرز پر بنے فن تعمیرات کا اک خوبصور مثال ہے۔

اندرون حیدرآباد کا منظر ہی الگ ہے جو کہ خوبصورت، پرکشش اور تاریخی ہے۔ لیکن تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بڑی تعداد میں نکل مکانی کر کے آنے والوں نے اس شہر کا اصل نقشہ ہی بگاڑ دیا اس قدیم شہر کی خوبصورتی پرانی عمارتوں کو آہستہ آہستہ منہدم کیا جا رہا ہے، بجائے کہ ان کو قومی ورثہ قرار دے کر حفاظت کی جائے بی رحمی سے کمرشلائیز کیا جا رہا ہے، گلیوں، سڑکوں پر ناجائز تجاوزات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ایسے میں حیدرآباد اپنی اصل خوبصورتی اور شناخت خوتا چلا رہا ہے۔

سول سوسائٹی، میڈیا اور حکومت کو اس بات پر دھیان دینا ہوگا کہ حیدرآباد کی تاریخی حیثیت کو کس طرح بچانا ہے؟ اگر کراچی میں پرانی عمارتوں کو تاریخی ورثہ قرار دیا جا سکتا ہے تو حیدرآباد میں کیوں نہیں! تاریخی عمارتیں ہماری ثقافت، فن تعمیر کا شاہکار ہیں ان کو اصل حالت میں بحال کرانے کے لئے سب کو مل کر کوششیں کرنی ہوں گی، کسی بھی قوم کی پہچان اس کی تاریخ، ثقافت اور فن تعمیرات سے ہوتی ہے، اندرون حیدرآباد کی اصل خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ اپنے قومی ورثہ کو محفوظ بنایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).