فکر سے لادینیت تک


کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد مختلف افسوس کی تقریبات میں شرکت کے دوران مختلف رنگ، مذہب اور نسل کے افراد سے ملاقات ہوئی۔ ان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے علاوہ ایتھیسٹ یعنی لادین افراد کی بھی ایک تعداد تھی۔ ان سے گفتگو بھی ہوئِی، ان کا نعرہ انسانیت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر مظلوم کے ساتھ ہیں، مسلمان ہوں یا کسی اور مذہب کے پیروکار، وہ ہم جنس پرستوں کے ساتھ ہیں، وہ ابارشن کا حق دیتے ہیں، وہ انفرادی شخصی آزادی کے حامی ہیں، وہ عورتوں، ریفیوجی، اقلیتوں کے حقوق کی پرچار کرتے ہیں، وہ ماحولیات کے تحفظ کے لیے کھڑے ہیں، وہ جانوروں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔ وہ انسان دوست، ماحول دوست، جانور دوست غرض بہت کچھ ہیں۔ وہ مخلص نظر آئے۔ وہ اپنی لادینیت کا بھرپور دفاع کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں مذاہب مسائل کا حل نہیں دے سکتے بلکہ خود مسائل پیدا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں مذہب کی کوئی عقلی دلیل ان کے نزدیک نہیں ہے۔

اس گفتگو سے کچھ سوال اٹھے۔ یہ مضمون ان سوالات کی روشنی میں مختلف تحاریر اور کچھ صاحبِ علم احباب سے استفادہ حاصل کرنے کے بعد لکھا گیا ہے۔ یہ مضمون اپنی جگہ پر مکمل نہیں کہ مضمون نگار کو بھرپور اندازہ ہے کہ یہ موضوع اپنی جگہ پر مشکل ہے اور اس کے علاوہ مضمون نگار اس موضوع کے ماہر ہونے کا دعویدار بھی نہیں ہے۔ یہ مضمون کچھ سوالات کا جواب حاصل کرنے کی انفرادی کوشش ہے، اور ممکن ہے کہ اس سفر میں مزید سوالات کا سبب بن جائے۔

آج کے دور میں مذہب کا دفاع کرنا آسان نہیں خصوصاً ترقی یافتہ ممالک میں جہاں ایک بڑی تعداد اپنے آپ کو لادین بتاتی ہے۔ مزید ایک بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو اپنا تعلق کسی مذہب سے تو جوڑتے ہیں مگر اس پر عمل پیرا نہیں۔ آسٹریلیا میں 2016 کی مردم شماری میں 30 فیصد لوگوں نے اپنے آپ کو لادین ظاہر کیا ہے۔ ان لادین افراد کی فہرست میں ان پڑھ، پڑھے لکھے، نوجوان، معمر، انگریزی کے لفظ انٹیلکچویل کے مترادف عقلی افراد غرض معاشرے کی مختلف جہتوں کے لوگ ملتے ہیں۔

نئی نسل میں بھی ایک بڑی تعداد مذہب کو نہیں مانتی اور مستقبل میں ان میں اضافہ کا بھرپور امکان ہے۔ یہ افراد اپنے انداز میں لادینیت کی پرچار کرتے ہیں، اس کے لیے دلائل دیتے ہیں۔ وہ لادینیت کو دنیا کے مسائل کا حل جانتے ہیں۔ اس لحاظ سے عیسائی مشنریز اور تبلیغی جماعت کی طرح وہ اپنے نظریے کے داعی ہیں۔ ان کے نزدیک مذہب ایک طاقت کی بجائے کمزوری کا نشان ہے، اور اس کو چھوڑنے میں ہی انسانی بقا و ترقی ہے۔

موجودہ زمانے میں لادینیت پھیلنے کی کیا وجہ ہے؟

مذاہب کی جتھہ بندی اور دنیا میں پھیلے قتل و غارت میں مذہب کا نعرہ، مذہبی رہنماؤں کے کرادروں کی گراوٹ، ماڈرن زمانے کا اجتماعیت سے انفرادیت کا سفر، سفید فام نسل پرستی، اندھی مذہب پرستی جیسے کئی عوامل اس لادینیت کا سبب قرار دیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انسانی سائنسی ترقی نے کائنات کی کئی طاقتوں کو عقل کے زور سے اپنے قابو میں کر لیا ہے سو اس لحاظ سے انسان مذہب کی بھی عقلی توجیح چاہتا ہے۔ یہ مضمون ان تمام عوامل میں سے مذہب کی عقلی توجیح پر بات کرے گا۔

آج کے دور میں مذہبی ہونا ایک آوٹ آف فیشن کام ہے۔ اگر کوئی پڑھا لکھا ہو کر بھی مذہب کو مانتا ہے تو اس سے معذرت خواہانہ انداز کی توقع کی جاتی ہے۔ پاکستان میں ایک گمان اکثر سننے میں آیا ہے کہ ترقی کے لیے مذہب کو ریاست سے علیحدہ کرنا ہوگا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مغربی ممالک نے ترقی حکومت اور چرچ کو علیحدہ کر کے حاصل کی ہے۔ یہ گمان تاریخی پس منظر میں بالکل غلط ہے۔ مغرب میں حکومت اور چرچ ہمیشہ سے الگ رہے ہیں۔

سلطنت روم میں سنہ 300 عیسوی تک عیسائی مذہب کے ماننے والوں پر بہت ظلم ڈھایا جاتا رہا۔ پہلی صدی عیسوی میں نیرو اور اس کے بعد 303 عیسوی میں روم کے شہنشاہ ڈائیوکلیشن نے عیسائیوں کے گھروں، کتابوں کو جلایا اور عیسائیت کے پیروکاروں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ 313 عیسوی میں روم کے حکمران کونسٹنٹین کے عیسائیت قبول کرنے کے بعد عیسائیوں کو اپنی عبادتگاہیں بنانے کی حکومتی اجازت ملی۔ اس کے بعد عیسائیت کا مذہب تیزی سے رومی سلطنت میں پھیلا۔

یہ حیران کن ہے کہ وہ مملکت جو بے رحمی سے عیسائیت کے خاتمے کے لیے تین صدیاں عمل پیرا رہی، وہی بعد میں دنیا میں اس مذہب کی سب سے بڑی نام لیوا بنی بلکہ آج بھی شہرِ روم میں وٹیکن سٹی اس کا واضح نشان ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور چرچ ہمیشہ دو علیحدہ طاقتور وجود رہے جو مختلف ادوار میں آپس میں لڑتے بھی رہے اور ایک دوسرے کو سہارا بھی دیتے رہے۔ اس سے برعکس اسلام میں آغاز سے مذہب اور حکومت کا ماخذ ایک ہی ہے۔

ایک اور گمان ہے کہ مذہب کوئی عملی چیز نہیں یعنی مذہب پریکٹیکل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ جانی جاتی ہے کہ مذہبی عقائد عقلی دلیل پر قائم نہیں بلکہ کچھ مفروضات ہیں۔ مذہب کے پیروکار انہیں عقیدہ، ایمان کہتے ہیں مگر وہ اس کی کوئی عقلی دلیل دینے میں ناکام ہیں۔ اس رائے پر بھی ایک فکری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

مذہب ایک سوچ اور ضابطہ دیتا ہے جو اس کے پیروکاروں کے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی مذہب کا بنیادی مقصد ہے۔ یہ سوچ، عقیدہ چاہے عقلی دلیل کے پیمانے پر اترے یا نہ اترے مگر اس کے اثرات وجہ اور نتیجہ یعنی کاز اینڈ ایفکٹ کے پیمانے پر ناپے جاسکتے ہیں۔ کئی مواقع پر تجرباتی سائنس تھیوری سے لاعلمی کے باوجود اپنا موثر کردار ادا کرتی رہی ہے اور اس کی سچائی عرصے بعد ثابت ہوئی ہے۔ سائنس سے بڑھ کر مذہب کے قائم رہنے کی اساس ان سچائیوں پر ہونی چاہیے جو فکری دلیل پر قائم ہوں کیونکہ ان پر عمل پیرا ہو کر انسان کا کردار بدلتا ہے۔ عمل کی دنیا میں ایک جھوٹی یا کمزور بنیاد دیرپا نہیں ہوسکتی۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیا مذہب فکر کے تابع ہے کہ ہم فکر اور دلیل کی مدد سے مذہب کو ناپ رہے ہیں؟ یا یہ کہ کیا مذہب کو فکری دلیل سے ناپنا صحیح ہے؟

سائنس میں پیچدہ اکائیوں کو ملٹی ڈائیمشنل ویو یعنی کثیر الاطرافی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس میں یہ اطراف آپس میں عمودی ہوتی ہے۔ آسان زبان میں یہ اطراف ایک دوسرے پر سایہ نہیں ڈالتیں یعنی ایک دوسرے سے خودمختار ہوتے بھی اس پیچیدہ اکائی کی شناخت کے لیے باہمی مربوط ہیں۔ انسانی تصور تین عمودی سمتوں سے آگے نہیں سوچ سکتا، مگر آج کی کمپیوٹنگ طاقت نے کثیر الاطرافی نظر کو ممکن بنا دیا ہے۔ اگر آپ اس پیچدہ اکائی کو مناسب کثیر الاطراف کی بجائے کم اطراف سے بیان کریں گے تو بیان غلط ہوگا کیونکہ وہ اکائی اپنے اندازہ لگاتے آلے کی گرفت سے کہیں آگے ہے۔ یہاں شکار شکاری کے ہتھیاروں سے کہیں برتر ہے۔ فکر ی دلیل کے لحاظ سے مذہب کا اندازہ لگانا درست ہے مگر اس ادراک کے ساتھ کہ ہم اپنے موجودہ علم کے ساتھ اس کا جزوی جائزہ لے پارہے ہیں، اور جب ہم مزید کثیر الاطرافی نظر کے حامل ہوں گے تو ہمارا اندازہ بہتر ہوتا چلا جائے گا۔

اب اگلا سوال ہے کہ کیا عقیدہ، ایمان، وجدان، وحی عقلی دلیل سے ممکن بھی ہیں کہ نہیں؟ کیا وجدان اور فکر ایک دوسرے سے متصادم ہیں کہ ایک ہی حقیت کی پرتیں ہیں؟

لیکن اس سوال پر غور کرنے سے پہلے شاعری کی بات کرتے ہیں کہ شاعر بھی ایسے خیال لے کر آتے ہیں جو انسانی دلیل کے دائرے میں نہیں آرہے ہوتے۔ ایسی کئی مثالیں ہیں۔ حیران کن اور دلچسپ بات ہے کہ یہ خیال اپنے وقت پر درست ثابت ہوتے رہے ہیں۔ غالب نے کہا تھا،

اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالبؔ

دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں

یا علامہ اقبال کہہ گئے کہ ”لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرے کا دل چیریں“۔ ایٹم کی طاقت کے بارے میں یہ جو غیب سے مضامیں خیال میں وقت سے پہلے آگئے ان کو عقلی پیمانے پر کہاں رکھیں؟ شاعری کے ذریعے سے یہ آتے مضامیں انفرادی، مبہم اور تمثیلی ہیں اور سائنس کی ضرورت کے مطابق مدلل نہیں۔ مدلل نہ بھی ہونے کے باوجود یہ وزنی اور اثر پذیر ضرور ہیں۔ مذہب کے مضامین شاعری سے بڑھ کر فرد سے معاشرے کی جانب کے سفر پر سچائی پر مبنی ہونے چاہیئیں، اور عقل کی کسوٹی سے بڑھ کر عمل کی کسوٹی پر ناپے جائیں گے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor