پلوامہ حملہ: ‘کاش میں بتا سکتا کہ وہ کس طرح انسانی بم بنا’


غلام حسن ڈار

غلام حسن ڈار کے بیٹے عادل نے پلوامہ خودکش حملے کی ذمہ داری لی تھی

فروری میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ہونے والے خودکش حملے میں 40 سے زیادہ انڈین فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہ حملہ پلوامہ سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری نوجوان نے سرانجام دیا تھا۔ اس خطے میں انڈیا میں عام انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی حقِ رائے دہی سے قبل سمیر یاسر اس رپورٹ میں گذشتہ دو برسوں کے دوران نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر نظر ڈال رہے ہیں۔

14 فروری کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً سوا تین بجے عادل احمد ڈار نے انتہائی نگرانی والی سرینگر جموں شاہراہ پر 78 بسوں پر مشتمل انڈین فوجیوں کو لے جانے والے قافلے سے ایک دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی۔

گذشتہ کئی دہائیوں میں انڈین فورسز کے خلاف ہونے والا یہ شدید ترین حملہ تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کیا پلوامہ حملہ انٹیلیجنس کی ناکامی تھا؟

انڈیا: پلوامہ حملے کا سیاسی فائدہ کس کو ہو گا؟

پلوامہ: حملہ آور عادل ڈار کے گھر کا آنکھوں دیکھا حال

اس نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور انڈین اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ہلاک ہونے والے فوجیوں اور ان کے غم سے نڈھال اہل خانہ کی کہانیاں بھری پڑی تھیں۔

ہلاک ہونے والے فوجیوں میں سے چند ابھی اپنے گھروں سے واپس لوٹے تھے، بعض فوجیوں نے حملے سے کچھ دیر قبل اپنے اہل خانہ سے فون پر بات کی تھی جبکہ چند دھماکے کے وقت فون پر اپنے گھر بات کر رہے تھے۔

حملے کے چند گھنٹوں بعد عادل احمد ڈار کی حملہ آور کے طور پر شناخت اس وقت ہوئی جب پاکستان سے تعلق رکھنے والی شدت پسند تنظیم جیشِ محمد نے ایک ویڈیو جاری کر کے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عادل ڈار جو کرنے جا رہا تھے اس پر انھیں کوئی تاسف نہیں تھا۔ ویڈیو میں انھوں نے بتایا کہ سنہ 2018 میں انھوں نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور انھیں پلوامہ میں حملے کا کام ’سونپا‘ گيا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک یہ ویڈیو ریلیز ہو گی اس وقت تک وہ جنت میں ہوں گے۔

پلوامہ

پلوامہ حملے میں 40 سے زیادہ انڈین فوجی ہلاک ہوئے تھے

اس حملے کے نتیجے میں جوہری ہتھیار کے حامل ممالک انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی بڑھی جبکہ اس کا محور کشمیر تھا اور عادل ڈار سے متعلق مزید معلومات سامنے آنے لگیں۔

ان کی کہانی پریشان کن حد تک جانی پہچانی تھی۔

ان کی پرورش انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے شہر پلوامہ میں ہوئی۔ پلوامہ اننت ناگ پارلیمانی حلقے کا حصہ ہے۔ انڈیا کے انتخابات میں یہ واحد سیٹ ہے جہاں سکیورٹی وجوہات کی پیشِ نظر پر تین مرحلوں میں ووٹنگ ہو رہی ہے۔ یہاں ووٹنگ کا تیسرا اور آخری مرحلے میں چھ مئی کو ووٹ ڈالے جائيں گے۔

ڈار کے اہل خانہ نے گذشتہ سال مارچ میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ کی تھی۔ اس سے قبل ڈار سکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ چکے تھے اور وہ مزدور کے طور پر کام کیا کرتے تھے۔

وہ 22 برس کے تھے اور تمام افراد بتاتے ہیں کہ وہ شرمیلے اور خاموش طبع تھے۔

ان کے اہل خانہ بتاتے ہیں کہ انڈین حکومت کے خلاف ان کی ناراضگی اس وقت بڑھی جب سنہ 2016 میں ایک معروف شدت پسند کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں وہ زخمی ہوئے۔

ڈار ان ہزاروں کشمیریوں میں سے ایک ہیں جو بندوق کے سائے میں پیدا ہوئے اور اسی کے سائے میں موت کی نیند سو گئے۔

مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں انڈین حکمرانی کے خلاف سنہ 1989 سے مسلح بغاوت جاری ہے۔ انڈیا اس علاقے میں تشدد کو ہوا دینے کے لیے پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ شدت پسندوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ پاکستان ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

سنہ 1989 کے بعد سے کشمیر میں بار بار تشدد کی لہر دیکھی گئی ہے جس میں اب تک 70 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں کئی ہندو بھی شامل ہیں جنھیں شدت پسندوں نے سنہ 1990 کی دہائی میں نشانہ بنایا تھا۔

ناقدین کا خیال ہے کہ انڈیا کی ظلم و جبر کی حکمت عملی نے مقامی نوجوانوں کو منحرف کر رکھا ہے۔ جون سنہ 2016 اور اپریل سنہ 2018 کے دوران علاقے میں تشدد پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی جانب سے طاقت کے زیادہ استعمال اور پیلٹ گنز سے فائرنگ کے نتیجے میں سینکڑوں نوجوان اندھے ہو گئے ہیں۔ انڈیا اس رپورٹ کو مسترد کرتا ہے۔

پلوامہ کے 68 سالہ رہائشی عبدالاحد بھٹ نے کہا ’سنہ 1990 کی دہائی کے بعد پیدا ہونے والے کشمیریوں نے کبھی بھی امن نہیں دیکھا ہے۔۔۔ وہ کرفیو کے درمیان پیدا ہوئے اور اس کے خاتمے سے پہلے مر گئے۔‘

مسٹر بھٹ کہتے ہیں کہ سنہ 1989 سے پہلے کا کشمیر ایک ’خواب‘ تھا جس سے یہ نسل محروم ہو گئی ہے۔

کشمیر

برہان وانی کی ہلاکت پر کشمیر میں ان کے لیے ہمدردی کی لہر نظر آئی

وادیِ کشمیر میں سنہ 2000 کی دہائی میں شدت پسندی میں کمی آ گئی تھی لیکن سنہ 2016 میں ایک شدت پسند نوجوان برہان وانی کی ہلاکت کے بعد اس میں پھر سے اضافہ ہو گيا۔ اور اس کے بعد سے اس میں مستقل اضافہ ہو رہا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2018 میں 150 شدت پسند اور 230 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

وانی سوشل میڈیا پر بہت سرگرم تھے۔ انڈیا انھیں دہشت گرد تصور کرتا ہے لیکن بہت سے مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ وہ کشمیر کی نئی نسل کی نمائندگی کرتے تھے۔ لیکن جب انڈین سکیورٹی فورسز کے ساتھ ایک مسلح جنگ میں ان کی ہلاکت ہوئی تو پوری وادی میں مظاہرے کیے گئے۔

سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کے خلاف استعمال ہونے والی آنسو گيس اور فائرنگ کے باعث درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ بہت سے لوگ پیلٹ گنز کے چھرے لگنے سے زخمی ہو گئے۔ عادل احمد ڈار جو ان مظاہروں میں شامل تھے ان کے پاؤں میں گولی لگی تھی اور وہ 11 ماہ تک بستر پر رہے۔

ان کے والد 62 سالہ غلام حسن ڈار کہتے ہیں کہ ’اس دن نے اسے بدل دیا۔۔۔ ایک شرمیلا بچہ ناراضگی کے آتش فشاں میں بدل گیا لیکن اس نے شاید ہی اس کا اظہار کیا ہو۔‘

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عادل اور اس کے ساتھ کئی دوسرے نوجوان جنھوں نے وانی کی ہلاکت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کی تھی انھوں نے بغاوت میں شمولیت اختیار کی۔

عادل احمد ڈار جب بیماری سے صحت یاب ہو رہے تھے اس دوران وہ دوستوں سے ملنے جلنے کے بجائے زیادہ تر عبادت کرتے اور انٹرنیٹ پر مطالعہ کرتے۔ شدت پسند تنظیم میں شامل ہونے کے لیے وہ مارچ میں گھر سے بھاگ گئے۔

ان کے اہل خانہ کو ان کے دھماکے میں شامل ہونے کی خبر اس وقت ہوئی جب ان کے چچا عبدالرشید ڈار کو پولیس نے فون کیا۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ جان کر خوفزدہ ہو گئے کہ ان کا بھتیجا وقاص کمانڈو کے نام سے اس حملے کے پیچھے تھا۔

کمشیر

پلوامہ کے گنڈی باغ گاؤں میں عادل کے بعض رشتہ دار

ان کے گاؤں گنڈی باغ کے کئی لوگوں نے بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کیا۔

ایک نے کہا کہ اپنے ایک کزن اور مشتبہ شدت پسند منظور کی جون سنہ 2016 میں ہلاکت کے بعد ڈار کسی سے کم ہی بات کرتا تھا۔

جبکہ بعض افراد نے کشمیر کی سیاسی صورت حال پر اس کی مایوسی کے بارے میں بتایا۔ اس کے جنازے میں شریک ہونے والے ان کے ایک رشتہ دار الطاف نے بتایا ‘اسے چوزوں کی طرح مرتے ہوئے جنگجوؤں پر صدمہ تھا کہ کسی مزاحمت اور دوسرے کو نقصان پہنچائے بغیر وہ مر رہے تھے۔’

ڈار کے اہل خانہ کو جو حمایت ملی وہ حیرت زدہ کرنے والی نہیں کیونکہ بہت سے کشمیری انڈین سکیورٹی فورسز سے نفرت کرتے ہیں اور ان پر حقوق انسانی کی پامالی کا الزام لگاتے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں جنوبی کشمیر میں شدت پسندوں کے جنازے میں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیے

شدت پسند تنظیم ’جیش محمد‘ کیا ہے؟

پلوامہ پر چین کی خاموشی کا کیا مطلب ہے؟

انڈیا پاکستان: ٹی وی پر جنگ کس طرح لڑی گئی

پلوامہ کے ایک رہائشی جبران احمد کہتے ہیں کہ ‘آپ پولیس سٹیشن یا کسی فوجی کیمپ میں شدت پسند بنتے ہیں، نہ کہ اپنے گھر کی چار دیواری میں۔’

‘سنہ 2016 میں جو لوگ گرفتار کیے گئے تھے ان میں سے کئی شدت پسند گروہوں میں شامل ہو گئے۔ شاید ان کا خیال تھا کہ روزانہ کی ذلت سے وہ بہتر ہے۔’

جن لوگوں نے حال میں شدت پسندی میں شمولیت اختیار کی ہے وہ اعلی تعلیم یافتہ اور اچھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک وفاقی وزیر نے دسمبر میں پارلیمان میں بتایا کہ سنہ 2018 میں نئے شدت پسند بننے والوں میں کم از کم 26 ایسے ہیں جو گریجویٹ ہیں۔ انھوں نے ان لوگوں کو ‘بھٹکے ہوئے نوجوان’ سے تعبیر کیا۔

ایک آزاد تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے سینیئر فیلو سوشانت سرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حصہ یہ ہے کہ تشدد کے ‘قصیدے’ پڑھے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا ‘زیادہ تر معاشرے میں تشدد میں شامل ہونے والے لوگوں کو کوئی سماجی جواز حاصل نہیں ہوتا لیکن کشمیر میں جواز حاصل ہے، ایک طرح کی خاموشی ہے۔’

وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘جب سنگ بازی ہوتی ہے تو کیا حکومت گھنٹوں کے بل بیٹھ جائے اور کچھ نہ کرے؟ جب لوگ ہتھیار اٹھا لیں تو وہ کچھ نہ کرے؟’

وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی فوجی کسی غیر مسلح شہری پر گولی چلانا نہیں چاہتا۔

ایک پولیس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈیا کی حکمت عملی کارگر ثابت نہ ہو سکی۔ انھوں نے کہا کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ اس حساس موضوع پر بولنے کے لیے ان کے افسران ان کی سرزنش کریں۔

وہ کہتے ہیں ‘اگر آپ ایک شدت پسند کو مارتے ہو تو دو اور اس میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ سیاسی طور پر ان تک پہنچانا ضروری ہے لیکن حالیہ برسوں میں ہم نے شدت پسند کو ہلاک کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔’

کشمیر

حال میں شدت پسندوں کے جنازے میں کافی بھیڑ دیکھی گئی ہے

مصنف اور انسداد دہشت گردی کے ماہر اجے ساہنی کہتے ہیں کہ حکمراں جماعت بی جے پی نے وادی کو شیطان بنا دیا ہے اور ‘پورے ملک کے لیے ایک دشمن پیدا کر دیا ہے جو کہ کامیاب انتخابی حکمت عملی تو ہو سکتی ہے لیکن یہ ملکی سلامتی کے لیے تباہ کن ہے۔’

پلوامہ حملے کے بعد شمالی انڈیا کے بعض شہروں میں کشمیریوں کو ہراساں کرنے اور انھیں تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

طارق حمید کے بیٹے ایک ہجوم کے ہاتھوں مار کھانے کے بعد گھر واپس آئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں: مجھے خوف ہے کہ اب کیا ہو گا؟ میرے بیٹے نے انڈیا اور انڈیا کے لوگوں سے نفرت کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ پہلے ایسا نہیں تھا۔’

لیکن غلام حسن ڈار کہتے ہیں کہ وہ نہیں چاہتے کہ کوئي بھی ان کے بیٹے کے نقش قدم پر چلے۔

انھوں نے کہا ’میں اسے ہمیشہ اپنے فرمابردار بیٹے کے طور پر جانتا تھا۔ کاش میں یہ بتا سکتا کہ وہ کس طرح انسانی بم میں تبدیل ہو گیا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp