شاید ہم کسی کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں


ایک بہت مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔ یعنی کہ انسان کا جو بھی عمل ہو اس کے پیچھے اس کی نیت کارفرما ہوتی ہے کیونکہ انسان کی جو نیت ہوتی ہے وہ اسہی سمت میں آگے بڑھاتا ہے اور پھر نتائج بھی ویسے ہی نکالنا چاہتا ہے اور اگر وہ نتائج نہ نکلیں تو پورے عمل کو بے فائدہ قرار دے دیتا ہے۔ جیسے اگر کوئی طالبعلم نوکری حاصل کرنے کی نیت سے تعلیم حاصل کرے اور نوکری نہ ملنے پر پورے تعلیمی عمل کو ہی بے فائدہ قرار دے دیدے۔ جبکہ تعلیم حاصل کرکے تعلیم یافتہ طبقے میں شامل ہونا ہی زندگی کا بہت ضروری سنگ میل ہے۔ اس طبقے میں شامل ہوتے ہوئے اپنی قابلیت کے صحیح استعمال سے انسان بہت سی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے پر نیت محدود رکھنے کی وجہ سے وہ بہت سے لامحدود فوائد نہیں دیکھ پاتا۔

اب اگر اس بات کو پورے معاشرے پر لاگو کر کے دیکھیں تو ایک وقت میں بہت سے لوگ ایک ہی نیت کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ اجتماعی نیت ہی ہے جو معاشرے کے سمت متعین کرتی ہے۔ اجتماعی نیت کو مدنظررکھتے ہوئے ایک تجزیہ میں نے سنا تھا جس کو میں لوگوں تک پہنچانا ضروری سمجھتا ہوں۔ تجزیہ کے مطابق اگر ہم عام روشنی کو دیکھیں تو روشنی کی شعاعیں بکھر کر اپنی طاقت کے مطابق علاقے کو روشن کر دیتی ہیں۔ مگر، اگران شعاعوں کی سمت کو ایک کر دیا جائے تو وہ شعاعیں اتنی طاقتور ہو جاتی ہیں کہ دیواروں، چٹانوں کو توڑتی ہوئی پار ہو جاتی ہیں۔ ان شعاعوں کو لیزر کہا جاتا ہے۔ یہی بات نیت میں ہے۔ پورا معاشرہ اگر یک نیت ہو کرزندگی گزارے تو بہت بڑی طاقت بن کر ابھرتی ہے۔ پاکستان کا بننا اسی اجتماعی نیت کا نتیجا ہے۔

اگر نیت ٹھیک نہ ہو تو کوئی اچھا عمل بھی صحیح نتائج نہیں نکال پاتا۔ اور اگر ایک طبقہ یا پورا معاشرہ ہی اجتماعی طور پر ایک غلط نیت کے ساتھ زندگی گزار رہا ہو تو پورا معاشرہ ہی آگے نہیں بڑھ پاتا۔ جیسے اگر ایک معاشرہ میں لوگ شارٹ کٹ کے چکر میں پڑے ہوں اور کوئی بھی کام صرف اس نیت سے کریں کہ بس کوئی شارٹ کٹ لگے اور ذرا سی محنت کرنے سے زندگی میں بہت کچھ مل جائے۔ مگرجھٹ پٹ مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کی صورت میں مایوس ہو کر کام کو بیچ میں چھوڑ دیا جائے تو معاشرہ بہت سے ادھورے منصوبوں اور مایوسیوں سے بھرا ہوگا۔

جب کوئی جنگ لڑی جاتی ہے تو پوری فوج اپنے ملک کے دفاع کی نیت سے لڑرہی ہوتی ہے اور لوگ ایک سپاہ سالار کو اپنا لیڈر مان کر اس کے حکم پر اپنی جان بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ جب انتخابات میں ایک ملک کے لوگ اپنا سربراہ منتخب کرنے کی نیت سے ووٹ ڈالتے ہیں۔ انتخابات میں ایک ملک کی لیڈرشپ سمبھالنے کے لئے کچھ لیڈروں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور جو لیڈرعوام کو اپنا منشور زیادہ اچھی طرح سمجھا پاتا ہے وہ ملک کی باگ ڈور سمبھالنے کا حقدار بن جاتا ہے۔ جب کوئی طبقہ ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو ان کی بھی اجتماعی نیت کوایک لیڈر ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ان ساری مثالوں میں لیڈر پر منحصر ہے کہ وہ اس اجتماعی نیت کی طاقت کو کس طرح استعمال کرتا ہے۔

انسان بہت سی ذاتی نوعیت کی نیتوں میں بٹا ہوتا ہے جن کی وجہ سے بہت سی بکھری ہوئی سوچیں اسے گھیرے رکھتی ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ان کاموں میں گزار دیتا ہے جن کے پیچھے اسہی قسم کی ذاتی نوعیت کی نیتیں کار فرما ہوتی ہیں، جیسے نئی گاڑی لینا، اپنا گھر بنانا، کیریئر میں آگے بڑھنا وغیرہ۔ اور ایسی نیتیں رکھنا ایک نارمل بات ہے۔ مگر ان ذاتی نوعیت کی نیتوں سے اوپر اجتماعی نیت کا ہونابہت ضروری ہے ورنہ معاشرے میں بہت تیزی سے دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔

ہمیں ذاتی نوعیت کی نیت پر اجتماعی نوعیت کی نیتوں کے مطابق کاموں کو فوقیت دینی ہوتی ہے۔ جیسے غریبوں کی مدد کرنا، اپنے ضرورت مند رشتے داروں یا جان پہچان والوں کی ضرورت کا خیال رکھنا، اپنے ملک کی بھلائی کے لئے اکٹھا ہونا، انسانیت کی بھلائی کی خاطرقربانی کرنا، وغیرہ وہ کام ہیں جو اجتماعی نیت کے تحت کیے جاتے ہیں جو ذاتی نیتوں سے اوپر ہیں اور معاشرے کو بہتری کی طرف لے کر جاتے ہیں۔ ان اجتماعی نیتوں کے بغیر ذاتی نوعیت کی نیتیں صرف ذاتی حیثیت میں ترقی دلا سکتی ہیں پرایسا معاشرہ اجتماعی طور پر تنزلی کا شکار ہوگا۔

اب اگر ہم دیکھیں تو ہم سب بہت سے کام نیک نیتی سے کرتے ہیں توپھر ہمارا معاشرہ بہتری کی طرف کیوں نہیں جارہا۔ میرے خیال سے ابھی ہماری نیت ان روشنی کی شعاعوں کی طرح ہیں جو روشنی تو کر سکتی ہیں پر چٹانوں کو چیر نہیں سکتی۔ جب تک ہماری نیت کو وہ چینل نہیں ملے گا جو اس کی سمت ایک کر سکے اس وقت تک وہ طاقت پیدا نہیں ہوگی جو تمام روکاوٹوں کو چیرتے ہوئے اپنے اجتماعی مقاصد حاصل کرلے۔ اور میرے خیال سے وہ چینل لیڈرشپ ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم لیڈرشپ کے فقدان کا شکار ہیں؟ ، یا وہ لیڈرشپ موجودہ ہے پر ہم اس کو پہچان نہیں پارہے، یا ہم کسی کو لیڈر بننے ہی نہیں دینا چاہتے یا شاید ہم کسی کو لیڈر ماننے کو تیار نہیں کیونکہ ہم خود ہی بہت سیانے ہیں۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).