زبان کا بار بار پھسلنا ٹھیک نہیں


ملکوں کی جغرافیائی حدود کا تعین کرنا، ان کی اسٹڈی کرنا، اور ان کے بدلتے موسمی حالات کا اندازہ لگانا کسی جغرافیائی اور موسمیاتی ماہر کا کام ہے، جس کا اندازا ایک عام انسان نہیں لگا سکتا۔ جیسا کہ ہر کسی کہ بس کی بات نہیں کہ وہ ہوائی جہاز پر چڑھ کر ساری دنیا کے چکر لگاتا رہے، اور اپنی آنکھوں سے ہر ملک کی سرحدیں چانچتا رہے۔ اس کے لیے آسان سا طریقہ ہے کہ وہ دنیا کے نقشے کو دیکھے۔ پھر اس کو اندازا ہوجائے گا کہ کون سا ملک کہاں واقع ہے اور اس کی سرحد کن ممالک سے ملتی ہے؟

میری بات کا موضوع یہ نہ تھا، بلکہ عمران خان کا ایک بیان تھا جس نے ان دنوں سوشل میڈیا پہ بڑی دھوم مچا رکھی ہے۔ وزیراعظم عمران خان پاکستان کی جنوب میں واقع ہمسائے ملک ایران کے سرکاری دورے پہ گئے۔ وہاں انہوں نے صدر حسن روحانی اور سپریم لیڈر آیت اللہ خمینائی سے ملاقاتیں کی۔ اور شکایات درج کروائی کہ ایران سرحد پار پاکستان میں کسی دہشتگردی کا سہولتکار نہ بنے۔ ایران نے ان سب باتوں کی تردید کرتے ہوئے، یقین دلایا کہ وہ پاکستان میں امن کا خواہاں ہے، لہذا وہ کوئی ایسی بدنیتی نہیں رکھتا۔

پھر ہمارے وزیراعظم نے ایران میں پریس بریفنگ دی، جہاں کئی ممالک کے صحافی اکٹھا تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے پس منظر میں اس نے، جاپان اور جرمنی کو ایک دوسرے کا ہمسایہ ملک بنا کر پیش کیا۔ اور کہنے لگا اگر یہ دو ممالک جنگ کے عالم سے نکل کر ایک دوسرے کے لیے سرحدیں کھول سکتے ہیں، چیزیں درآمد اور برآمد کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟ جہاں ماضی میں لاکھوں لوگ مارے گئے، وہاں آج دیکھو دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ اس کا یہ کہنا تھا کہ وہاں بیٹھے سارے لوگ سوچنے لگ گئے کہ، کہاں جاپان اور کہاں جرمنی؟

زبان کا پھسلنا اور بولنے میں غلطی کر جانا، یہ بات کوئی بڑی نہیں۔ پر یہ دنیا میں تماشا تب بن جاتی ہے، جب آپ وقت پہ اپنی غلطی نوٹ کر کے اس کی درستی نہ کریں۔ اسکولوں اور چھوٹے بڑے دعوتوں میں تقاریر کے دوران اگر کسی طالب علم یا کسی نوجواں کی زبان پھسل جائے، تو بھی اسے ساری لوگ نوٹ کر لیتے ہیں۔ پر سب اسی لیے نظرانداز بھی کر لیتے ہیں، کہ چلو اس کے سیکھنے کی عمر ہے، غلطیاں تو ہوں گی۔ پر اسے ہدایت کی جاتی ہے کہ آئندہ ان سب غلطیوں کو نہ دھرائے۔

پر جب ایک ملک کا وزیراعظم یا کوئی بڑا عہدیدار کسی دوسرے ملک میں سرکاری دورے کو جاتا ہے، تو وہ ایک اسکول، ایک کمیونٹی کو نہیں، بلکہ پورے ملک اور اس قوم کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔ اس کا امن کا پیغام دینا، یا جنگ کا اعلان کرنا، نہ صرف اس کی ذات کی طرف سے، بلکہ اس کی پوری قوم کی طرف سے سمجھا جاتا ہے۔ اور ایران میں بھی ایسا ہی ہوا۔ وزیراعظم جس کو خاص کر سرکاری دوروں پہ ہر ایک لفظ ناپ تول اور سوچ سمجھ کے بولنا چاہیے، اسی نے ہی، کسی اور ملک میں پریس بریفنگ کے دوران، جاپان اور جرمنی کو آپس میں ہمسایہ ممالک کہہ کر، پوری دنیا کو موقع دے دیا کہ وہ بھلے مذاق اڑائیں۔

ایک بار نہیں بلکہ بار بار وہ جرمنی اور جاپان کے نام ساتھ لیے جا رہا تھا، اور ہمارے ذہین وزیراعظم کو یہ سمجھ نہ آیا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کر رہا ہے، سو بھی کسی اور ملک میں۔ انتہائی ذمہ دار عہدے پہ فائز عمران خان کی اگر حاضر دماغی اس قدر کمزور ہے تو، وہ کس طرح سے ملک کو سنگین مسائل سے نکالے گا؟ یو ٹرن لینے کے معاملے میں تو ویسے ہی بہت مقبول ہے، پر اب اس کی حاضر دماغی کی یہ حالت ہے کہ، وہ دو الگ الگ بستے ملکوں کو آپس میں پڑوسی بنا رہا ہے۔ اس لحاظ سے اگر وہ کل کو بھارت اور اسرائیل کو آپس میں ہم سایہ کر دے گا تو تعجب کی بات نہ ہوگی۔

اور پھر ہمالیہ کی بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیاں رکھنے والے، شمال طرف ہمالیہ کے جتنی بڑے دوست اور ہمسایہ ریاست چائنہ کو عمران خان روانہ ہوا۔ اتنی بڑی دوستی کے دعویدار ریاست کا کوئی صدر یا وزیراعظم تو ہمارے وزیراعظم کا استقبال کرنے کے لیے نہیں پہنچا، پر وزیراعظم اور اس کی ٹیم نے ذرا بھی برا نہیں مانا۔ آخر بڑے بھائی سے بھی کیا جھگڑا کرنا، وہ برابری کا سلوک چاہے تو کرے چاہے نہ کرے۔ اور وہاں بھی ہمارے وزیراعظم کی زبان سنبھل نہیں پائی، اور پھر سے پھسل گئے۔

پر اس دفعہ کسی ملک کی سرحد کے حوالے سے نہیں بلکہ پاکستان میں شروع کیے گئے بلین ٹری منصوبہ پہ پھسلی۔ وزیراعظم نے ایک ارب ٹری سونامی منصوبے کو پانچ ارب درخت کا بنا ڈالا، اور پانچ گنا بڑی تعداد بتا دی۔ پر اتنی فکر کی بات نہیں، کیونکہ چائنہ والے کیا جانے ہم نے کتنے پودے لگائے ہیں، ہم نے تو بس ہوا میں شوشا چھوڑدیا، اور اب وہ سوچتے رہیں گے، کیسے لگائے، کب لگائے؟

انسان غلطیوں کا پتلا ہے، اور غلطی ہر کسی سے ہوتی ہے۔ پر ملک کے بڑے عہدے پہ فائز وزیراعظم کی اگر ایسے ہی زبان پھسلتی رہی تو یہ اچھا شگن نہ ہوگا۔ نہ صرف دنیا بھر میں ہمارا مذاق بنے گا، پر خود ہماری قوم بھی شرمندہ ہوگی۔ عمران خان کو اب تو سمجھ لینا چاہیے کہ، وہ کنٹینر پہ بیٹھا حکومت مخالف نہیں ہے، جو منہ میں آئے گا اگل دے گا۔ وہ اب ریاست پاکستان کا وزیراعظم ہے، برائے مہربانی وہ اپنے آپ کو سنبھالے، یہاں اس کی زبان پھنسلتی ہے، اور وہاں ہمارے ملک کی تقدیر پھسلنے لگ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).