گلوبل ویلج کے اچھوت


کوئی ہفتہ بھر قبل شیرازی بھائی سے ان کے ہوٹل میں تفصیلی ملاقات ہوئی جس میں بہت سے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

شیرازی کا کہنا ہے کہ پیر جی دنیا بہت ترقی کر چکی ہے، دنیا ایک گلوبل ویلج بن گئی ہے جہاں سالوں کے فاصلے گھنٹوں اور دنوں پر آن پہنچے ہیں۔ سائنس اور ایجادات کو دیکھ لیجیے۔ ایسی ایجادات پر کام ہو رہا ہے کہ آپ کسی لفٹ یا کیپسول میں داخل ہوں گے اور آن واحد میں کسی دور دراز کے ملک، دوسرے سیارے یا دوسری گیلیکسی میں پہنچ جائیں گے۔ صدیوں کا سفر منٹوں میں طے ہوجایا کرے گا۔

ائیر پورٹس اور ڈیٹا گیدرنگ کرنے والے اداروں کی صورتحال دیکھ لیں، فنگر پرنٹس اب پرانی ٹیکنالوجی ہو چکی ہے، اب آنکھیں سکین ہوتی ہیں، پوری دنیا میں ہر انسان کی آنکھوں کا بہت پیچیدہ پیٹرن کسی بھی دوسرے انسان سے نہیں ملتا۔ فنگر پرنٹس کے لئے مجرم یا شہری کا فنگر پرنٹ سکینر پر ہونا ضروری ہے یا کسی بھی چیز کو برہنہ ہاتھوں سے چھوا جانا ضروری ہے لیکن آئی سکین کسی بھی کیمرے کی مدد سے کی جا سکتی ہے، آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ہوں، کسی بھی ملک، کسی بھی گلی میں موجود ہیں لا محالا آپ کسی نہ کسی کیمرے کی طرف دیکھتے ہو، نہ بھی دیکھو تو کیمرہ صرف آپ کی تصویر یا ویڈیو کو زوم کر کے آپ کی مکمل شناخت حاصل کر سکتا ہے۔

میڈیکل میں ایسی ترقی ہو چکی ہے کہ عمر بڑھانے کی ادویات موجود ہیں، سروگیسی کے عمل سے بچے پیدا ہو رہے ہیں، جو بھی انسان اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کو زچگی کی تکلیف سے بچانا چاہے وہ کرائے پر کوکھ لے کر بچہ پیدا کر سکتا ہے۔ پڑوسی ملک میں کافی مشہور اداکاروں تک نے سروگیسی کی مدد سے بچے پیدا کیے ہیں، اس سے ایک درجہ اوپر جاتے ہوئے اب سائنس بچے کو شکم مادر یا شکم کرایہ دار سے بھی آزاد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے، اب صرف نر اور مادہ سپرمز ایک ٹیوب میں ڈال کے شیشوں کے جاز میں رکھ دیے جائیں گے، یہاں پیدا ہونے والے بچے کے والدین کے جسموں میں سینسزر، مائیکروفون اور ماوتھ پیس جیسی سہولیات لگائی جائیں گی، پیٹ میں موجود ایک بچہ اپنی والدہ کے پیٹ میں جو کچھ محسوس کرتا ہے وہی کچھ وہ اس شیشے کے مرتبان میں محسوس کرے گا، لاکھوں مائیں زچگی کی تکلیف کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتی ہیں اس طرح یہ تکلیف دہ عمل بھی رک جائے گا۔

پیر جی باڈی ٹرانسفر تک پر عمل ہونا شروع ہو چکا ہے۔ اب انسان مرنے سے بھی انکاری ہونے کا سوچ سکتا ہے۔ مستقبل قریب میں ایسی ادویات موجود ہوں گی جس کی وجہ سے دل کا دورہ، گردے فیل ہونا، دماغ کی نس پھٹنا، کینسر یا ہر ایسی بیماری پر قابو پا لیا جائے گا جس کی وجہ سے کوئی بھی انسان فوری طور پر ہلاک ہوجاتا ہے۔ ایسی ہر بیماری جو موت دیتی ہے پر کنٹرول ہونے سے انسان کے مرنے میں ننانوے فیصد تک کمی ہوگی جبکہ عمر بڑھانے، قوت مدافعت تیز کرنے کی ادویات کی وجہ سے لوگ کئی کئی صدیاں جئیں گے، تب تک ایسی ٹیکنالوجی معرض وجود میں آچکی ہوگی کہ پوری کی پوری باڈٰی تبدیل کر دی جائے گی، کسی بھی صحتمند، توانا اور حسین جسم میں بیمار یا قریب المرگ شخص کا دماغ فٹ کرنا ہوگا اور وہ اک نئے جسم کے ساتھ بالکل تندرست و توانا، جوان جسم اور پھر سے صدیوں جینے کا حامل انسان بن کر اٹھے گا، اس کی صرف باڈی تبدیل ہوگی، نام، کام، تعلیم، سوچ، شعور، صلاحیت وہی رہے گی۔

بڑے بڑئے سائنسدان جو دنیا بدل سکتے ہیں کے دماغ اسی طرح ہر بار اس سائنسدان کو نیا جسم عطا کر دیا کریں گے، دنیا کی ہر فیلڈ کے ماہرین اسی طریقے سے قائم و دائم رہ کر موت کو شکست دینے میں مدد فراہم کرتے رہیں گے۔ میں بہت پر امید ہوں کہ ہم اس وقت جو لوگ زندہ ہیں وہ اس دنیا کی ابتدا سے لے کر اب تک کے خوشقسمت ترین لوگ ہیں جن کو یہ تمام سہولیات نہ صرف میسر ہیں بلکہ آگے چل کر ہم اپنی صحت، قسمت اور موت تک پر اختیار رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

پیر: بہت خوف شیرازی بھائی۔ ! کسی گاؤں میں ایک میراثی فیملی آباد تھی، اک دن میراثی کا بیٹا اپنی والدہ سے پوچھتا ہے کہ اگر وڈے چوہدری صاحب فوت ہو جائیں تو پنڈ کا چوہدری کون بنے گا؟ ماں بتاتی ہے کہ پھر چھوٹا چوہدری اس منصب پر براجمان ہوگا، بیٹے نے پھر پوچھا کہ اگر وہ بھی مر جائے تو پھر؟ ماں نے کہا پھر اس کا بھائی چوہدری بنے گا۔ بچے نے پہلو بدلتے ہوئے پھر استفسار کیا۔ اگر چھوٹا بھائی بھی مر جائے تو؟ ماں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ پھر ان بھائیوں میں سے سے بھائی کا بیٹا چوہدری بنے گا۔ ۔ بچے نے پھر سے سوال داغا۔ اگر وہ بھی مر جائے تو؟ میں نے جھلائے ہوئے کہا۔ ۔ پتر۔ ! اگر پورا پنڈ بھی فوت ہو جائے تب بھی تم یعنی کہ میراثی کا بچہ چوہدری نہیں بن سکتا۔

آپ نے بالکل بجا فرمایا کہ دنیا بہت ترقی کر چکی ہے، اتنی ترقی کہ یہ ایک گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن کیا کیجئے کہ کسی گاؤں میں بیٹھا اک مزدور یا کسان صرف دوسرے شہر جانے کے لئے گھر کا اناج بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ سالوں کے فاصلہ بالکل دنوں یا گھنٹوں پر محیط ہو چکے ہیں مگر آج بھی سب سے قریب خلیجی ممالک میں جانے کے لئے پاکستان یا کسی بھی ترقی پزیر ملک کے 80 فیصد سے زائد باشندوں کو ماں، بہن، بیٹی کا زیور بیچنا پڑتا ہے، وراثتی زمین بیچنا پڑتی ہے، کسی بینک سے لون لینا پڑتا ہے یا اپنے گھر کی عزتیں گروی رکھنا پڑتی ہیں تب جاکر وہ دو گھنٹے ہوا میں سفر کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں اور یہ 80 فیصد عام عوام میں سے صرف 5 فیصد خوشنصیب افراد ہیں۔

کہاں ہے دنیا گلوبل ویلج؟ یہاں آدھی سے زیادہ دنیا کے باسی غریب ممالک کے باشندوں کو اپنے ملک کا ویزہ جاری کرنا پسند نہیں کرتے۔ جائز طریقے سے ویزہ لینا ہو تو غریب آدمی کو بھی کم سے کم کروڑ پتی ہونا پڑتا ہے پھر ویزے کی شراط پوری ہوپاتی ہیں، غیر قانونی طریقے سے گھر کی زمین جائیداد بیچ کر، قرض لے کر، مہینوں پیدل سفر کرتے ہوئے کسی ملک پہنچا جاتا ہے اور ان پہنچنے والوں کی اکثریت یا تو گولیوں سے چھلنی کر دی جاتی ہے یا پھر جیلوں میں پڑی سڑتی رہتی ہے۔ دوسرے سیاروں یا دوسری گلیکسی تو دور کی بات ہے اسی سیارے پر دوسرے ملک جانا بھی دنیا کی 70 فیصد سے زیادہ آبادی کی اوقات میں نہیں ہے۔ یہ کیسا گلوبل ویلج ہے؟

آپ کی بات بالکل بجا ہے کہ حکومتی اداروں کے پاس ایسا نظام موجود ہے کہ وہ کسی بھی انسان کی صرف تصویر دیکھ کر، اس کا رنگ، نسل، قوم، علاقہ، والدین، بلڈ گروپ، بینک بیلنس، کریمینل ریکارڈ، ازدواجی سٹیٹس اور اولاد تک کی تفصیل جان جاتے ہیں لیکن پھر غریب ممالک جیسے کہ پاکستان وغیرہ میں آج بھی 75 فیصد سے زیادہ آبادی کو کبھی شناختی کارڈ بنوانے میں مسائل درپیش ہیں تو کبھی پاسپورٹ بنوانے میں، کبھی ڈرائیونگ لائسنس کے لئے مہینوں زلیل ہونا پڑتا ہے تو کبھی صرف اس لئے سالوں سال لگ جاتے ہیں کہ یہاں زندہ لوگ کروڑوں روپوں کے قرضے لے کر کاغذات میں مرتے ہیں اور پھر سے زندہ ہوجاتے ہیں۔

یہاں زمینوں اور جائیدادوں پر قبضہ گروپ عالیشان ہاوسنگ سوسائٹیز بناتے ہیں، بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے واحد اثاثے چھین کر ان کو بھیک مانگنے، جسم بیچنے یا خود کشی کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے لیکن آپ کے سٹیٹ آف دی آرٹ ادارے مسکینوں کے پاس موجود اصل کاغذات، اصل مالکان تک کو ویریفائی کر کے ان کا حق دلوانے کی اوقات نہیں رکھتے۔ جہاں لوگ ستر ہزار معصوم انسانوں کو قتل کر کے عیاشی کی زندگی گزارتے ہیں اور ثابت نہیں ہو پاتا کہ وہ گنہگار ہیں یا نہیں۔

جہاں دنیا کے سب سے مطلوب دہشتگرد ایسے علاقے میں سالوں مقیم رہتے ہیں جہاں چڑیا بھی اجازت لے کر پر مارتی ہے، کون سی ترقی؟ کیسی ٹیکنالوجی؟ جھوٹے گواہان کی بدولت معصوم لوگ پھانسی لٹک جاتے ہیں، پھانسی لٹک چکے سالوں بیت جانے کے بعد کورٹ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ تو بے قصور تھے۔ جہاں فارنزک رپورٹس، فنگر پرٹس کے بجائے دو ہزار روپے فی کس گواہ کی گواہی پر ریپ کرنے والے اور قاتل چھوٹ جائیں اور معصوم لوگ پھانسی لٹک جائیں یا تمام عمر جیل میں سڑتے مر جائیں وہاں ایسی ٹینکالوجی کی بات کرنا زیادتی نہیں ہوگی؟

آپ کی بات سے متفق ہوں کہ اینٹی ایجنگ ادویات اور مصنوعات کی بدولت اپنی عمر سے کم نظر آنا اک حقیقت ہے۔ پچاس اور ستر سال کے لوگ بیس بیس سال کے لوگوں کا کردار ادا کرتے ہیں، لیکن یہ سب امیروں میں ہوتا ہے شاہ جی۔ جس ملک کی نوے فیصد آبادی خط غربت کے نیچے یا لوئر مڈل کلاس کے پاس پاس ہو وہاں یہ مہنگی ادویات آسمان سے برسیں گی؟ سروگیسی کے پراسس میں شاید لاکھوں روپے لگتے ہوں گے، جار والے بچے میں شاید کروڑ روپے کے اردگرد بات جا پہنچے گی۔

چلیں مان لیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹینکالوجی پھیلے گی تو سستی ہوتی جائے گی، مگر کتنی سستی؟ بتیس روپے کی ہو سکتی ہے؟ پاکستان میں بتسیس روپے کی گولی زندگی دیتی بھی ہے اور چھین بھی لیتی ہے۔ دس روپے کے نان کی بدولت لوگ جسم بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، قتل کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، دو سو روپے کی دوائی نہ ہونے کے سبب لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، پاکستان میں آج بھی 60 فیصد کے لگ بھگ افراد دو نمبر اور غیر معیاری ادویات کھانے پر مجبور ہیں، یا تو ان کے پاس مہنگی ادویات کے پیسے ہی نہیں ہوتے یا پھر ادویات ہی جعلی بنائی جاتی ہیں۔

کون کھائے گا اینٹی ایجنگ؟ وہ کسان جس کی فصل بارش کی وجہ سے تباہ و برباد ہو چکی ہے اور اس کے پاس خود کشی کے بھی پیسے نہیں ہیں؟ کون کروائے گا سروگیسی؟ وہ باپ جس نے قرض لے کر، زمین بیچ کر بیٹی کی شادی طے کی ہے لیکن دلہے والے اب گاڑی کی ڈٰیمانڈ کیے بیٹھے ہیں اور وہ پھانسی پر لٹک چکا ہے؟ آپ ٹیکنالوجی کی مدد سے زچگی کی درد سے بچنے کی بات کر رہے ہیں جبکہ یہاں زندگی ہر روز اک اک نوالے کے بدلے انسانوں کو زچگی کے درد میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ یہ ہے ترقی؟

آپ نے فرمایا جی باڈی ٹرانسفر تک پر عمل ہونا شروع ہو چکا ہے، شیرازی بھائی یہاں کرائے کا مکان تبدیل کرنے کے لئے قرض لینا پڑتا ہے، زیور بیچنا پڑتے ہیں، ڈیڑھ مرلے کا مکان تیس لاکھ تک جا پہنچا ہے۔ اک بیمار انسان کی ادویات اگر ڈاکٹر تبدیل کر دے تو نئی ادویات مہنگی ہونے کے باعث وہ نفل پڑھ کر ٹھیک ہونے پر مجبور ہوجاتا ہے، جہاں دل کے دورے سے بڑا جھٹکا گیس، پانی، بجلی، تعلیم اور ٹیلی فون کے بلز دیکھ کر لگتا ہو وہاں آپ دل تبدیل کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟

جس ملک میں پانی کی قلت پر قابو نہیں پایا جا سکا، جہاں کے لاکھوں بچے گندے اور بدبودار پانی پی کر جوان ہونے اور متعدد بیماروں میں گھر کر مرنے پر مجبور ہوں وہاں موت پر کنٹرول کی بات مذاق نہیں لگتی؟ غربت کا یہ عالم ہو کہ ایک وقت کی ملے دوسرے وقت فاقے کرنا پڑیں، عید بقر عید کے کپڑے بھی رشتہ داروں کی اترنیں ہوں، تعلیم حاصل کرنا غریب کیا اچھے خاصے مڈل کلاس کے لئے ناممکن کر دیا جائے، جہاں تعلیمی اداروں میں بھرے بچے یہ تک نہ جانتے ہوں کہ وہ جو پڑھ رہے ہیں اس کے پڑھے کے بعد اس تعلیم سے کام کیا لینا ہے آپ موت کو کنٹرول کرنے میں لگے ہو؟ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، محرومیاں، جرائم، سانحات تو ختم ہونے کو نہیں دے رہے موت کیسے ختم ہوگی؟

حضور والا ترقی کسی بھی فیلڈ میں ہو صرف اور صرف امراء کے لئے ہوتی ہے، غریب ممالک صرف امیر ملکوں کی منڈیاں ہوتی ہیں یا پھر تجربہ گاہیں۔ جب مریخ پر بستیاں بسا لی جائیں گی اور دنیا تباہ ہونے کو ہوگی تب وہاں تک سفر شیدا مصلی، حمید پان والا، جھورا نائی، فیکا پلمبر، نصیر سکول ماسٹر اور پیر بھکا فلاسفر نہیں کر سکے گا بلکہ دنیا کی 95 فیصد آبادی صرف اور صرف ایک سیمپل بن کر رہ جائے گی۔ کس خطے میں شہابیہ گرنے کی وجہ سے جو اموات ہوئیں، ان میں سب سے زیادہ لاشیں کس موسم میں زیادہ گلیں اور کس خطے میں کم ڈی کمپوز ہوئیں۔

رہے نام مولا دا۔ بھاگ لگے رہین۔ جھولے لال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).