مضبوط معیشت انتہائی ضروری ہے


بائی پولر دنیا میں دو انتہائی مضبوط معاشی نظام تھے۔ سرمایہ دارانہ اور اشتراکی نظام۔ ان دونوں نظاموں میں موجود ممالک کو عالمی دنیا میں طاقت کا سرچشمہ قرار دیا جاتا تھا۔ سویت یونین کے اختتام پر جب دنیا یونی پولر بن گئی تو دنیا کے کونے کونے میں سرمایہ دارانہ نظام نے جڑیں مضبوط کیں۔ اس سے صاف لگتا ہے کہ جن قوموں کی معیشت بام عروج پر ہو وہی قومیں دنیا پر راج کرتی ہیں۔ مذکورہ دونوں معاشی نظاموں میں کسی نہ کسی حد تک استحصال موجود ہے۔ ان دو نظاموں کے مقابلے میں ایک اسلام کا معاشی نظام ہے اور ہم اگر تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہماری عظمت رفتہ اس بات کی گواہی دے گی کہ اسلام میں جو معاشی نظام موجود ہے اس کو لاگو کرنے کے بعد مسلمانوں نے جو ترقی کی وہ ترقی آج تک کوئی بھی ملک اور قوم نہیں دیکھ سکی۔

ہم اس وقت تک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتے جب تک ہم اسلام کا معاشی نظام نافذ نہیں کرتے جس کو جب نافذ کیا گیا تھا تو کتے نے بھی بھوک سے چھٹکارا حاصل کیا تھا۔

چونکہ دنیا ایک گلوبل ویلیج بن چکی ہے اور یہی گلوبل ویلیج سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں ہے اسی لئے ہمارے ارباب اختیار بھی با امر مجبوری اس نظام کے بوجھ تلے دب رہے ہیں۔

معیشت کی مضبوطی کے لئے محصولات کا ایک مربوط نظام بہت ضروری ہے۔ حکومتیں ایک اچھا بجٹ اس وقت پیش کرسکتی ہیں جب ملک کے شہری ٹیکس مستقل بنیادوں پر ادا کرتے رہیں۔ پاکستان میں جب بھی فسکل ائیر قریب آتا ہے تو مشکلات میں پسا غریب طبقہ اس امید پر ہوتا ہے کہ اس سال شاید ان کو کوئی ریلیف ملیں لیکن ”وہی ڈھاک کے تین پات والا“ معاملہ ہی برقرار رہتا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی ہمارے ملک کی آبادی کروڑوں میں ہے لیکن یہاں ٹیکس چند لاکھ لوگ ہی دیتے ہیں یعنیٰ کہ کروڑوں لوگوں کو چند لاکھ لوگ ہی پال رہے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ ہمارے حکمران ہمیشہ ملک و قوم کے ساتھ قومی خزانے پر بھی بوجھ واقع ہوئے ہیں۔ جس طرح ہماری تاریخ سات عشروں پر محیط ہے بالکل اسی طرح ہماری معاشی بحران کی تاریخ بھی سات عشروں پر محیط ہے۔ منی لانڈرنگ اور کرپشن نے ہمیں معاشی طور پر اتنا کمزور کیا ہوا ہے کہ معاشی ماہرین اس ڈر کا شکار ہیں کہ کہیں پاکستان کو ”گرے لسٹ“ میں شامل نہ کیا جائے۔

فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) ایک ایسا ادارہ ہے جو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کو فنڈنگ کی مذمت بھی کرتی ہے اور اس کی روک تھام کے لئے عالمی سطح پر کام بھی کرتی ہے۔ جن ممالک میں کالے دھن سے پیسے کمائے جاتے ہیں اور جن پر محصولات ادا نہیں کیے جاتے وہاں فنانشنل ایکشن ٹاسک فورس باقاعدہ طور پر مداخلت کرتی ہے۔ جس ملک کو بھی گرے لسٹ میں ڈال دیا جاتا ہے وہاں کے تمام مالی ٹرانزکشنز حتیٰ کہ اس ملک کے مرکزی بینک کے معاملات میں بھی مداخلت ہوتی ہے۔ گرے لسٹ میں آں ے کے بعد یہی مطلب نکلتا ہے کہ مذکورہ ملک مکمل طور پر نا اہل ہے۔ یہ نہ تو معاشی معاملات کو کنٹرول کرسکتا ہے اور نہ ملک کے اندر بدامنی کے فروغ کو اور نہ شہریوں کے عدم تحفظ کو روک سکتا ہے۔

ہمارا المیہ بھی یہی ہے کہ ہمارے ملک میں کالے دھن سے لاکھوں کروڑں نہیں بلکہ اربوں روپے پیدا کیے گئے اور غیر قانونی طور پر ملک سے باہر ٹرانسفر کیے گئے۔

1992 ء میں جب نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت تھی تو اس حکومت میں انہوں نے ایک ایکٹ مجلس شورٰی سے پاس کروایا تھا جس کو پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ 1992 ( PERA 1992 ) کا نام دیا گیا تھا۔ اس ایکٹ کے سیکشن ( 5 ) میں ان تمام افراد کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی جو فارن کرنسی اکاونٹ ہولڈرز تھے۔ ان پر سے تمام پابندیاں اٹھا دی گئی تھیں جو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے تھیں۔ ان سے یہ پوچھنا قانون کے خلاف تھا کہ آپ کا یہ پیسہ کہاں سے آتا ہے اور آپ انکم ٹیکس کتنا بھرتے ہیں۔

اس وقت جتنے بھی فارن کرنسی اکاؤنٹ ہولڈرز تھے ان سے کسی قسم کی کوئی تحقیقات نہیں کرائی جاتی اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا معاشی طور پر انتہائی نقصان ہوا۔ موجودہ حکومت اس کوشش میں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے کہ جنہوں نے کالے دھن میں پیسے کماکر باہر نکالے اس پر کوئی نہ کوئی ٹیکس لازمی لگائے جس کا فائدہ حکومت کو یہ ہوگا کہ یہ تمام مالی بے قاعدگیاں کسی حد تک سٹریم لائن ہو جائیں گی۔

پاکستان میں ایمنسٹی سکیم 2018 ء میں اس وقت کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے متعارف کرائی لیکن معاشی ماہرین اس کے بارے میں بھی تذبذب کا شکا ر رہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے تبدیلی کے نام پر ووٹ لیا اور وزیر اعظم عمران خان بھی اپنی پوری سیاسی کیرئیر میں کرپشن اور منی لانڈرنگ کے خلاف مستعد نظر آئے۔ خبریں ہے کہ عمران خان کی حکومت بھی نیا ایمنسٹی سکیم متعارف کرا رہی ہے جس کے رُو سے پروٹیکشن آف اکنامک ریفارم ایکٹ 1992 ء کے سیکشن ( 5 ) میں ترمیم کی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ انکم ٹیکس آرڈیننس کے سیکشن ( 114 ) اور ( 116 ) میں ترمیم کرکے ان تمام شہریوں کے لئے لازم ہوگا کہ وہ انکم ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ دکھائے (جو کسی بھی ٹیکس ادا کرنے والے کی مالی حالت ایک خاص ٹیکس ائیر تک شو کرتی ہے ) جن کی سالانہ آمدن دس ہزار ڈالر یا ان کے اثاثوں کی مالیت ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ ہوں۔ مذکورہ شہریوں پر یہ لازم ہوگا کہ وہ یہ تمام تفصیلات مہیا کریں اور وہ اگر ایسا نہیں کرتے تو ٹیکس ائیر کے اختتام تک ان پر ان کے اثاثوں کی مالیت کا دو فی صد جرمانہ نافذ ہوگا۔

ایسا اگر ہوتا ہے تو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا چابک جو ہمارے سروں کے اوپر منڈلا رہا ہے کسی حد تک دور ہوجائے گا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ بائیس کروڑ کی آبادی میں صرف سترہ لاکھ ٹیکس دیتے ہیں۔ غریب عوام زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لئے ترس رہے ہیں اور اوپر سے ان پر ٹیکس کا بوجھ ڈالنا پریشانی پیدا کررہی ہے۔ پاکستان میں پورے خطے میں ٹیکس ادائیگی کی شرح کم جوکہ بیس فی صد ہے اور ٹیکس نادہندگان کی شرح اسّی فی صد ہے۔

اسّی فی صد میں وہ لوگ آتے ہیں جن کے پاس ضرورت سے زیادہ زندگی کی وہ تمام سہولیات موجود ہیں جس کے لئے غریب ترس رہا ہے۔ محصولات کی وصولی کے لئے قانون میں جتنے بھی اصلاحات کیے جائیں کوئی فائدہ نہیں ہورہا کیونکہ وہ طاقتور لوگ جو پاکستان کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں کبھی بھی ایسے قانون کو نافذ نہیں ہونے دیں گے۔

یہی طبقہ پاکستان کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی زندگی کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ یہ ملک کے ہر ادارے پر اثر انداز ہورہے ہیں حتیٰ کہ عدلیہ پر بھی۔

پاکستان میں ایک فی صد سے بھی کم لوگ آمدن کے گوشورے جمع کراتے ہیں جوکہ حیرانی کی بات ہے۔ ٹیکس اصلاحات بھی ضروری ہیں اور ایف بی آر جیسے اداروں کو با اختیار بنانا اور محصولات کے حصول میں اصلاحات بھی ضروری ہے۔

معاشی طور پر مضبوط بننا پاکستان کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ عالمی منظرنامے سے یہی لگ رہا ہے کہ ہمیں معاشی طور پر تباہ کرنے کی تیاریاں عروج پر ہیں مضبوط معیشت بہت ضروری ہے کیونکہ یہ وہ واحد میدان ہے جہاں مضبوط ہونے کے بعد ہی قومیں عروج پر پہنچنے کے لئے پاتھ پاؤں مارتی ہیں۔

قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں ”بے شک میں کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود کی بدلنے کی سعی نہیں کرتی“ اور یہی تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے کہ جن قوموں میں طبقات جنم لیتے ہیں اور جہاں زندگی کا معیار لوگوں کے لئے الگ الگ بن جاتا ہے وہاں خود کو بدلنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے کیونکہ ایسی قوموں کی دہلیز پر بڑے بڑے حادثے سر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں جو کسی بھی وقت رونما ہوسکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).