پاکستان میں فلم انڈسٹری کا زوال


ھم سب جانتے ہیں کہ فلم کتنا بڑا میڈیم ہے۔ لیکن فلم کے اثرات کیا ہیں؟ اس کی طاقت کیا ہے؟ اس بارے میں شاید کم بلکہ بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔

مختصرا یوں سمجھیں کہ امریکہ کو سپر پاور اور انڈیا کو شائننگ انڈیا بنانے میں ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کا مقام وھی ہے جو آئین اور جمھوریت کا ہے۔

مظلوم فلم انڈسٹری (میری رائے میں ) ختم ہو چکی، اب اسے وہ مقام کبھی نہ مل سکے گا جہاں سے یہ گر چکی۔ اب یہ ہمیشہ ایک ذیلی اور طفیلی انڈسٹری ٹائپ چیز ہے جو طویل دورانیے کے ٹی وی شوز کو فلم بنا رہے ہیں۔ یہ ایسا المیہ ہے کہ اس پر وحشی بافقی یا میر انیس کے درجے کے لوگ مرثیہ کہتے۔ میر تقی میر تو کہہ چکے،

دیدنی ہے شکستگی دل کی

کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہے

آج سے شاید تین یا چار عشرے قبل رندھیر کپور گریٹ راج کپور کا بیٹا، بمبئی فلم نگری کے بے تاج بادشاہ، آر کے سٹوڈیوز کے مالک اپنی فلم ”حنا“ کی عکسبندی کے لیے پاکستان آئے تو لگے ہاتھوں باری سٹوڈیو دیکھنے بھی آ گئے

مرحوم باری سٹوڈیو کے سات فلور ہمہ وقت مصروف ہوتے تھے۔ امریکہ اور ہندوستان میں بھی سات فلور کے سٹوڈیوز کم ہوتے ہیں۔ خیر باری سٹوڈیو میں اس وقت فلم ”بندش“ کی شوٹنگ ہو رہی تھی ہدایتکار نذرالاسلام موجود تھے اچانک رندھیر کپور کو دیکھ کر سب انگشت بدنداں رہ گئے لیکن رندھیر صاحب کی نگاہیں اس کیمرے پر جمی ہوئی تھیں جو شوٹنگ کے لیے فوارے پہ نصب تھا۔ پھر وہ حیرت کی تصویر گویا ہوئی کہ آپ یہ کیمرہ استعمال کرتے ہیں؟

جب کہ پورے ہندوستان میں یہ کیمرہ کسی کے پاس نہیں، نذرالاسلام نے رندھیر کپور کی حیرانی دور کرتے ہوئے کہا کہ بھائی میں پچھلے دنوں امریکہ سے خرید لایا تھا۔ اندازہ کریں کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہم ان سے بہتر نہ سہی برابر تو تھے آج ہندوستان ہالی ووڈ سے حجم میں سائز میں بڑی انڈسٹری ہے۔ ہم اپنی انڈسٹری یوں تباہ کر چکے کہ اب تجدید کا بھی امکان نہیں۔

خود کو مسمار کر چکا ہوں میں

کبھی آکر مری تباہی دیکھ۔

آخر اتنی بڑی انڈسٹری کیسے ختم ہوئی؟ یہ کوئی سہل تو نہیں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کا روزگار اس کام سے وابستہ تھا یہ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کب ہوا؟

لیکن یاد رہے کہ کسی فرد یا خاندان یا ملک کی تباہی کے لیے ایک مہلک غلطی کافی ہوتی ہے بشرطیکہ اسے درست نہ کیا جائے۔ دریا کے بند میں پڑنے والا معمولی شگاف نظر انداز کر دیا جائے تو وہ عظیم سیلاب کا سبب بنتا ہے۔ ہمارے ملک میں درجنوں شاندار ادارے مٹ چکے، کچھ سسک رہے ہیں اور کچھ طوعاً و کرہاً رینگ رہے ہیں۔

یہ غلطی کیا تھی اور کتنی مہلک تھی اس کا جواب دینا آسان نہیں۔ کبھی کسی ریسرچ سکالر کو توفیق ہو اور وہ شاہ نور و باری سٹوڈیوز کے اجڑے نگار خانوں سے ملحقہ گلیوں بازاروں تھڑوں چوکوں میں فلم انڈسٹری سے نسل در نسل جڑے خاندانوں کی کسمپرسی دیکھے اور پوچھے کہ وہ ان حالات کا شکار کیسے ہوئے؟ آپ کو یوں محسوس ہوگا جیسے ہر شخص شکوہ سے یوں پر ہے، جیسے راگ سے باجا۔

یہی انڈسٹری جو راج کپور کے قابل بیٹے کو متاثر کر گئی یوں ختم ہو گئی جیسے کبھی تھی ہی نہیں، لیکن کیوں؟

ذرا غور فرمائیں کہ آغاز کیا تھا۔ ہدایتکاروں کو دیکھیں کاردار صاحب، شوکت حسین رضوی، حسن طارق، کمال پاشا شباب کیرانوی یہ چند نام ہیں۔ بڑے سے بڑے ایکٹر کی مجال نہ تھی کہ شوٹنگ پر تاخیر سے پہنچے، محمدعلی جیسا بڑا ہیرو پندرہ منٹ لیٹ سٹوڈیو پہنچے، حسن طارق ڈائریکٹر ہیں، بتایا گیا کہ سیٹ پر ہیں، علی بھائی شرمائے سے اندر آئے۔ ڈائریکٹر کی ایک نظر سے علی بھائی کی سٹی گم، اچھا برا کام چل رہا تھا۔

پھر موسیقی اور شاعر و مصنفین، کیسے اعلی درجے کی فلمی شاعری، لکھنے والے برصغیر ہی کیا ساوتھ ایشیا تک ان کی ٹکر کے لوگ نہ تھے۔

ساحر لدھیانوی، فیض احمد فیض، سیف الدین سیف، احمد راھی، منیر نیازی کا شہرہ آفاق گیت ”جب ترے شہر سے گزرتا ہوں“ پھر حبیب جالب بھی لاجواب گیتوں کے خالق، تنویر نقوی حدیں قادری اور نجانے کتنے، گائک ایسے کہ چشم فلک دوبارہ شاید ہی دیکھے، نورجہاں مہدی حسن بڑے غلام علی خاں برکت علی خان نسیم بیگم آیرین پروین مالا بھٹی صاب ایک طویل قطار ہے۔

موسیقی میں ایسے جید اور کامل لوگ توبہ، خواجہ خورشید انور، فیروز نظامی، ماسٹر عنایت ماسٹر عبداللہ رشید عطرے بابا چشتی اور نجانے کتنے، ارے ایسے لوگوں نے جس انڈسٹری کو اپنا لہو دیا وہ اجڑ گئی؟

ایسا ممکن نہ تھا، لیکن اچانک ضیا الحق کا مارشل لا آ گیا مرحوم جنرل کا فہم اسلام گاؤں کے مولوی جیسا تھا پہلی پابندی بلکہ ہتھوڑا فنون لطیفہ پر گرا اور لطیف ترین شے کو، کرچی کرچی کر گیا۔ (فہم اسلام کی تو تہمت ہی ہے۔ ہر قسم کی فہم سے نابلد تھے۔ مدیر)

سمجھدار لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر کنارہ کرنے لگے۔ رندان قدح خوار کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچ گوئی پہ اتر آئے اور دشنام طرازی کو نثر و نظم دونوں میں شعار کیا۔ سازندوں پہ جو بیتی اسے بیان کرنے کے لیے پتھر کا کلیجہ چاھیے۔ گانے بجانے والے بجھنتری، کچھ نہ سمجھتے ہوئے زندگی بسر کرنے کو رکشے اور ویگنیں چلانے لگے۔

ملک میں غیر جماعتی مجلس شوری بنی اور پہلی بار پاکستانی تاریخ میں چھبا اور ڈبہ ڈوگر ٹائپ کریکٹر متعارف ہوئے اس گروہ کی نمائندگی دائیں بازو کے شریفوں پر تھی۔ دوسری طرف پی پی پی کے لوگ تھے اور سرمایہ بذریعہ سیاست کا دور شروع ہوا۔

دوسری طرف بلی کے بھاگوں چھینکا پھوٹا۔ اچھے وقتوں کی ایک فلم ”مکھڑا“ کے تقریبا آخری سین میں دو ایکسٹرا ز نظر آئے جو بعد میں فلم کو بظاہر زندہ لیکن ہمیشہ کے لیے دفن کر گئے۔ ان میں سے ایک ہیرو سلطان راھی کے نام سے مشہور ہوئے۔

بدمعاش اور منشیات فروشوں نے انڈسٹری میں قدم رنجہ فرما لیا تھا اور پے در پے اردو فلموں کی ناکامی کے دوران ایک فلم ”شریف بدمعاش“ سپر ہٹ ہوگئی۔ یہ سلطان راھی جو کہ فلمی دنیا میں سٹنٹ مین بن کر آئے اور ہیرو بن گئے، بہت خوب، نہایت قابل ستائش بات ہے۔ راھی صاحب جو فلمی دنیا میں حاجی صاب کے نام سے جانے جاتے تھے اچھرہ کے قریب ایک جھونپڑ پٹی کے رہنے والے تقریبا ان پڑھ لیکن ایکٹنگ کے شوق سے مالا مال تھے۔ سارا دن سٹوڈیو کے باھر کیفے ٹیریا میں بیٹھنا ایک آدھ سین میں بطور سٹنٹ مین کام کرنا، دریں اثنا شریف بدمعاش اور پھر پے در پے جیلر تے قیدی، بشیرا، وحشی جٹ نے خوب بزنس کیا پھر گیم چینجر فلم ”مولا جٹ“ آ گئی اور چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

ہر طرف حاجی صاحب کی ہا ہا کار مچ گئی۔ پروڈیوسر حضرات جو صرف پیسے اور ہیروین میں دلچسپی رکھتے تھے سب نے نوٹوں کے ڈھیر لگا دیے۔ حاجی صاحب نہ صرف اچھے ایکٹر بلکہ بہت اچھے انسان تھے وہ زیادہ ناز نخرے والے آدمی نہ تھے۔ حاجی صاحب کو کاسٹ کرنے کے لیے پچاس ہزار کا زر کثیر ان کو بطور ایڈوانس دیا جاتا، ڈیٹس یعنی تاریخیں، شوٹنگ شفٹ یہ سارا حساب ان کا سٹاف رکھتا۔ حاجی صاحب بلندی چھونے کے باوجود غریبی کے یار دوستوں کو نہ بھولے۔

انہی میں اکثر ہدایتکار پروڈیوسر وغیرہ بن گئے۔ کیونکہ تجربہ کار ڈائریکٹر حاجی صاحب کو ہیرو لینے کو تیار نہ ہوتے یوں وہ کنارہ کرتے گئے اور ان کی جگہ ایک ایسا گروہ سامنے آ گیا جنہیں منیر نیازی یا فیض وغیرہ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ پروڈیوسر دس نمبری ڈائریکٹر بیس نمبری لیکن دھڑا دھڑ جٹ گجر دا کھڑاک جگا نامی فلمیں بنتی رہیں حتی کہ ملک کی اکثریت سینما جو سستی تفریح مہیا کرتا تھا لوگ اس سے کنارہ کش ہوتے گئے لیکن پنجاب کا سرکٹ بہت بڑا تھا اور دیکھنے والے حاجی صاحب کو پسند کرتے تھے۔

حاجی صاحب اتنے مصروف ہوئے کہ شمار و قطار مشکل، بیک وقت پچیس تیس فلمیں، حال یہ کہ رات شوٹنگ بالا کوٹ صبح باری سٹوڈیو لاھور اور کئی کئی ہفتے یونہی چلتا۔ ایسے میں معیار کیا اور پیغام کیا اور تفریح کیسی، پروڈیوسر کے پیسے لگوانے کے چکر میں شوٹنگ پہ شوٹنگ، فلم مکمل ہوتی تو پتہ چلتا بیس ہزار فٹ بن گئی ہے ارے یہ کیا، معیاری فلم کا سائز تیرہ ہزار فٹ ہوتا ہے اب کیا کریں؟ اب ایڈیٹر قینچی لے کر بیٹھ جاتے نہ تاریخ کا علم نہ شعر کا نہ ناول پڑھا نہ افسانہ فلم کٹی تو پتہ چلا ساری کہانی بے ربط ہو چکی لیکن پے منٹ پھنسی ہے اس کو ریلیز کرائیں یا لے سر تال ٹھیک کرائیں۔ فلم میں خون جگر ملانے والے گانے بجانے والے، موسیقار ماسڑ صاحب کو ہی پیسے نہیں ملتے، فائدہ صرف ہیروین کو پہنچتا جس کے لیے پروڈیوسر ہر دم تیار رہتا یا پیسے مٹن کڑاھی والوں کو ملتے ان حالات میں سازندوں کو ادائیگی کیسے ہو یوں انڈسٹری پر ایسی لعنت مسلط ہوئی کہ وہ سانس نہ لے سکی معدوم ہوتی گئی۔

آخر کار یہ فلم نگری ایسی اجڑی کہ جز ترے اور کو سمجھاوں تو سمجھا نہ سکوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).