آدم خور نظام کے ٹیکسز اور غریب کی چیخیں


اسلامی جمہوریہ پاکستان کو معرض وجود میں آئے ہوئے 72 سال پورے ہونے کو ہے لیکن ابھی تک ایک بھی حکومت چاہے وہ جمہوری ہو یا آمرانہ طرز کا غریب کی سہارا نہیں بن سکی۔ حکومتیں بدلتی گئی مارشل لاء لگتے گئے لیکن غریب نے کبھی سکون کی سانس نہیں لی۔ اس ملک میں جو بھی اقتدار میں آیا اپنے ذاتی مفادات کے انباروں کے ساتھ آیا اور انہی مفادات کے لئے ملک کو استعمال کیا۔ نواز شریف، زرداری، پرویز مشرف اور دیگر برائے نام جمہوریت پسند اور آمرو نے ملک کو تباہی کے چوراہے پر لا کر کھڑا کردیا ہے۔

موجودہ حکومت کی اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی نئے ٹیکسز لگائے گئے۔ پہلے سے موجود ٹیکسوں میں 100 فیصد سے لے کر 1000 فیصد تک اضافہ کیا گیا۔ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی ہوتی جارہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے عوام کے ساتھ وعدے کیے، بہت کچھ کرنے کے دعوے کیے، ڈیڈ لائنز دی لیکن ابھی تک ایک میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔ 90 دنوں کی بجائے 9 مہینے پورے ہونے کو ہیں لیکن نئے پاکستان کی نام و نشان تو چھوڑو پرانے پاکستان کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا۔

مہنگائی، بے روزگاری، بدامنی، فراڈ اور بیرونی قرضے بڑھتے جارہے ہیں، ملکی معیشت تباہ اور برآمدات میں روز بروز کمی ہوتی جارہی ہے۔ جی ڈی پی شرح پچھلے تقریباً آٹھ ماہ میں نو سے دو تک کرگئی لیکن خان صاحب کہہ رہے ہیں آپ نے گھبرانہ نہیں۔

پچھلے سال سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد موبائیل کمپنیوں نے کارڈ میں 25 فیصد ٹیکس ختم کرا دیا تھا۔ لیکن پچھلے دنوں حکومت کے کہنے پر وہ ٹیکس دوبارہ بحال کردیا گیا بلکہ پہلے سے اور بھی بڑھا دیا گیا۔ کارڈ لوڈ کرنے پر 25 فیصد ٹیکس لیا جاتا ہے۔ پیکجز کی قیمتوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کردیا گیا اور اس کے علاوہ کال یا ایس ایم ایس پر ٹیکس الگ وصول کیا جارہا ہے۔

نمک اور ماچس سے لے کر کھانے پینے کی اشیاء، ادویات، پٹرولیم مصنوعات، سی این جی، بجلی اور گیس کی نرخ میں کہیں آدھا تو کہیں دگنا اضافہ کردیا گیا۔ لیکن خزانہ بھر نہیں رہا ایسا لگ رہا ہے کہ خزانہ نیچے سے کھلی ہے تو سارے پیسے کہیں اور جارہے ہیں۔

وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں سمیت ملک کے دوسرے بڑے اور اہم شہروں میں کرائمز اور چوری کی شرح حد درجے تک پہنچ چکی ہے۔ بازار میں چوروں کی ڈر سے کوئی موبائیل پر بات نہیں کرسکتا۔ بینک سے رقم نکلوانے والوں کو راستے میں چوروں کی لائنیں لگی ہوتی ہیں۔ ملک میں بدامنی روز بروز بڑھتی جارہی ہیں۔ جس کی اصل وجہ بے روزگاری اور مہنگائی ہے۔

وزراء کے عیاشیاں اور خرچے دن بدن بڑھتے جارہے ہیں، قومی اسمبلی اور سینٹ میں تقریباً پچاس کمیٹیاں ہیں اور ہر کمیٹی کا ایک چیئرمین ہوتا ہے۔ جس کے لئے گاڑی، گاڑی کا خرچہ، بیرونی ممالک اور دوسرے شہروں کو سفر کرنے کے اخراجات، شاندار گھر، لاکھوں کی تنخواہ اور بہت کچھ سرکاری خزانے سے ادا کیا جارہا ہے۔ اور رزلٹ زیرو یا اس سے بھی کم ہے۔

تبدیلی کے نام پر لائے گئے حکومت سے عوام نے ریلیف کی امیدیں لگا رکھی تھی لیکن چاروں صوبوں کے عوام اس حکومت سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ خود پاکستان تحریک انصاف کے سپورٹرز اپنے حکومت سے تنگ آچکے ہیں اور مزید پناہ مانگ رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور سپریم شریکِ حکومت کو چاہیے کہ غریب عوام پر نئے روز ٹیکس لگانے کی بجائے اگر سارے صوبائی و قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران سے دس دس لاکھ روپے جمع کیا جائے تو خزانے پر بوجھ با اسانی کم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اگر غریب پر پانچ روپے ٹیکس بھی ڈالا گیا تو بھی اس کا کمر توڑواتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).