خدارا! دینی مدارس کے تحفظ کی فکر کریں


قیام پاکستان کے بعد بھی سرکاری سطح پر درس نظامی کو اپنی اصلی روح کے میں بحال نہیں کیا گیا، اور نہ ہی مدارس نے اس میں عصری تقاضوں کے مطابق کوئی تبدیلیاں کیں، آج مدارس اسلامیہ کے مدرسین اور طلباء کی حالت اور صلاحیت چیخ چیخ کر اکابرین وقت کو دہایاں دی رہی ہے کہ مدارس کے نصاب پر ملا نظام الدینؒ کی بصیرت کے مطابق غور کیا جائے، مدارس میں عصری علوم کو شامل کرکے معاشرے اور مدرسے میں بڑھتا کمیونیکشن گیپ، سوچ اور فکر کا جمود اور مدارس سے فارغ التحصیل نوجوانوں کی معاشی محتاجی کو ختم کیا جائے، ان نوجوانوں کو زندگی کے ہر میدان کا شہسوار بنانے، باروزگار داعی دین بننے کا موقع دیا جائے، بارہویں صدی کے مرتب شدہ نظام تعلیم کو جدید دور میں چلانا کہاں کی دوراندیشی ہے؟

مدارس کے لئے دوسرا بڑا خطرہ مدارس کا خود سیاست میں ملوث ہونا یا استعمال کیے جانا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ افراد کا تنظیمی لڑی میں پروئے جانا ان کے اجتماعی، سماجی، علمی اور سیاسی صلاحیتوں میں نکھار کا سبب بنتا ہے مگر زمانہ طالب علمی میں سیاست میں ملوث ہوجانا طالب علم کا مقصد مرام فوت کر دیتا ہے۔ لفظ ”طالب علم“ اپنے مآخذ کے لحاظ سے بالکل واضح ہے یعنی علم کا طالب، جاہ، کرسی اور عہدے کا نہیں۔ عمر، تجربے اور علم کے لحاظ سے ہر طالب علم ناپختہ ہوتا ہے، سیاست کے اکھاڑوں اور کھلاڑیوں کے داؤ پیچ نہیں سمجھتا اور ناسمجھی میں قلم و کتاب سے رشتہ کٹوا بیٹھتا ہے، مگر مدارس کا سٹرکچر ہی کچھ یوں ہے کہ صوبہ خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کے مدارس ان سیاسی پارٹیوں سے دانستہ یا غیردانستہ طور پر وابستہ ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں سے مدارس کے سادہ لوح اور پر خلوص طلباء و علماء کو اسلامی شریعت کے نفاذ یا آئین پاکستان میں اسلامی ترامیم کے لارے اور دلاسے دے کر اپنے پیچھے لگایا ہوا ہے، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب منتظمین مدارس سیاستدانوں کو اکابر قرار دے کراپنا رخ ان قبلوں کی سمت رکھیں گے تو طلبا خاک اپنے آپ کو سیاست سے بچا پائیں گے، اور یہی وہ نقطہ ہے جو غیر سیاسی مدارس کے طلباء کا معیار اور سیاست ذدہ مدارس کے طلباء میں فرق واضح کرتا ہے۔

سیاست زدگی کی اس خوشنما اور خاموش مجرمانہ روش میں جس بے دردی سے سیاسی علماء نے ان مدارس کا استعمال کرکے طلباء کی بامقصد زندگی کی بساط الٹی ہے وہ ایک الگ باب ہے۔ یہ زیادتی سیاستدان علماء نے صرف طلباء کے ساتھ نہیں بلکہ اس امت سے کی ہے جو احکام دینیہ سمجھنے کے لئے مدارس کے محتاج ہیں اور ان والدین سے خیانت کی ہے جنہوں نے اپنے جگرگوشے مدرسوں کو بطور امانت دیے ہیں۔ البتہ اگر مدارس میں سیاست بطور نصابی مضمون کے شامل کردی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں، اس سے ایک تو طلباء سیاست کے اسرار وموز سے واقف ہوسکیں گے اور دوسرا اس سے خلافت یا اسلامی حکومت کی وہ راہ ہموار ہوسکے گی جس کے خوشنما نعروں کے بل بوتے پر تقریباً ایک صدی سے سیاسی علماء عوام سے ووٹ لے رہے ہیں۔

البتہ مدارس کے اندر اور زمانہ طالب علمی میں طلباء کو سیاست سے کوسوں دور رکھا جانا چاہیے۔ مدارس کے لئے تیسرا بڑا اور اہم خطرہ بھی مدارس کا سیاسی وابستگیوں اور تعلیمی نصاب سے تعلق رکھتا ہے۔ مدارس کا موجودہ تعلیمی نظام ”درس نظامی“ ہے جو بارہویں صدی کا ہے، یہ نظام تعلیم اپنے دور کے لحاظ سے نہایت، مربوط، منظم اور جامع نظام تعلیم ہوا کرتا تھا مگر ہمارے منتظمین مدارس من و عن اس کو صدیوں سے آج تک چلاتے آرہے ہیں وگرنہ یہ نظام تو عہد وسطی کے تقاضوں کے مطابق ترتیب دیا گیا تھا لہذا یہ نظام اپنی اساس کے مطابق آج بھی عہد وسطی کی سوچ والے ایسے نوجوان پیدا کررہا ہے، جو کہ نئے دور کے سیاسی، سماجی اور سائنسی وفنی ایجادات، تبدیلیوں، سازشوں، پالیسیوں اور عالمی طاقتوں کے تزویراتی مقاصد سے ناواقف ہیں اور یا ارتقا قبول کرنے کو تیار نہیں۔

مثال کے طور پر مدارس کو کمیونسٹ اورامپیریلسٹ بلاکس کی لڑائی میں افغانستان جنگ کے دوران ”جہاد“ کے نام پر براستہ ”علماء“ جس طرح استعمال کیا گیا وہ کسی سے مخفی نہیں، یہ بھی سیاسی وابستگیوں کی کڑی ہے، یہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے اور اگر نصاب تعلیم میں اس بابت مضامین مثلا  IR International Relationsیا اس طرح کے دیگر مضامین شامل نہ کیے گئے، تو آئندہ بھی مدارس کے معصوم طلباء کو عالمی سازشوں کی بھٹی کا ایندھن بنایا جاتا رہے گا۔

لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ کھلے دل سے مدارس کے طلباء کو تدریس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ آپ کے لاؤڈ سپیکر اور منبر و محراب کی کیا وقعت ہے، ان کو دین مبین کی پرچار کے لئے استعمال کیا جائے نہ کہ عالمی قوتوں کی پالیسوں کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے، ان کو بتائیں کہ عالمی طاقتوں کے سینگوں میں اپنے لاؤڈسپیکر نہ پھنسائیں، ان کو لاوڈ سپیکرز کی نزاکت سمجھائیں، ان کو سمجھائیں کہ آپ ہی کے لاوڈ سپیکرز کی وجہ سے عرب ممالک کے جہادی نعروں سے عالمی طاقتییں کتنا فائدہ اٹھا رہی ہیں، کتنے شامی مہاجرین سمندروں کی لہروں کی نذر ہورہے ہیں، کتنے پشتون کیمپوں میں سسک رہے ہیں، لیبیا کو تباہ کرنے کے بعد جہادیوں کو کیا ایک قصبے کی کونسلری بھی ملی؟

ان کو بتائیں کہ اسلام کا اہم رکن ”جہاد“ ہائی جیک ہوچکا ہے، ان کو بتائیں کہ آج کی جنگیں ریاستی طاقتوں کی پشت پناہی کے بنا نہیں لڑی جا سکتیں، کیا یہ منتظمین مدارس کی ذمہ داری نہیں کہ عالمی تبدیلیوں، سازشوں، بین الاقوامی قوتوں کی پالیسیوں سے طلباء کو آگاہ کیے رکھیں؟ عالمی طاقتیں مدارس کے نصاب کی اسی کمزوری سے مستفید ہورہی ہیں، مدارس کے طلباء کے خلوص، جذبہ اسلام، فلسفہ جہاد، اور نظریات جہاں ایک طرف کیش اور ہائی جیک کر کے وہ تزویراتی مقاصد حاصل کیے جا رہے ہیں جو تنخواہ دار افواج سے ممکن نہیں، تو دوسری طرف انہی طاقتوں کی طرف سے مدارس پر دہشتگردی کا لیبل بھی چسپاں ہے، العرض مدارس کی شکل میں باطل قوتوں کو ایک ارزاں سواری مل گئی ہے، جس سے مدارس کو بچانا منتظمین مدارس کا اولین فریضہ اور بقائے مدارس کے لئے ناگزیر ہے۔

اس کے علاوہ مدارس کے نصاب میں معیشت و تجارت کے مضامین کا شامل کیے جانا نہایت ہی اہم ہے، تاکہ مدرسے کے فارغ التحصیل کو اگر نوکری نہ بھی ملے تو وہ اس قابل ہو کہ باعزت کاروبار کرسکے۔ نیز، معیشت پڑھانے کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مدارس کو ایسے مہتمم میسر آجائیں گے جو معیشت اور کاروبار سے واقف ہوں گے، مداراس کے لئے اثاثے خریدیں گے جس سے فنڈ جنریٹ ہوں گے اور مدارس کی معاشی محتاجی ختم ہوکر ان کو چندہ مانگنے سے چھٹکارا مل جائے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3