خدارا! دینی مدارس کے تحفظ کی فکر کریں


جس طرح دینی امور میں بغیر علماء کے کوئی رائے یا حکم جاری نہیں کرسکتا اسی طرح معیشت اور کاروبار بھی اناڑیوں کا کھیل نہیں، بغیر علم و تجربہ کے کاروبار کرنے کے نقصانات کی ایک ہلکی جھلک اس صدی کا شرمناک مالیاتی سکینڈل ”مضاربہ“ سے لگائی جاسکتی ہے جو سوفیصد علماء و نامور مفتیان نے شروع کیا، لوگوں کی عمر بھر کی کمائی ڈبوئی اور خود بھی ڈوبے اور مدارس اور خصوصاً دیوبندی مکتبہ فکر کے بے داغ دامن پر ہمیشہ کے لئے ایک داغ چھوڑ گئے۔

کئی دہائیاں قبل دینی حلقوں میں یہ بات کافی مشہور تھی کہ ”مدرسہ کی سند فراغت دراصل علوم دینیہ کا دروازہ کھولنے کی کنجی ہے“ یعنی مدارس عربیہ سے سند فراغت حاصل کرنے والا اس قابل سمجھا جاتا تھا کہ اب وہ اپنے طور پر شرعی مآخذ کا مطالعہ کرکے علم و تحقیق کے سمندر سے لعل و گہر نکالنے کا اہل ہوچکا ہے۔ مگر یہ بات عملی طور پر کہیں نظر نہیں آتی، تحقیق کے لئے تخلیقی فکر کی ضرورت ہوتی ہے جس کا خمیر ہمارے مدارس کے نصاب میں موجود نہیں، نصاب کے اسی محدودیت نے علماء اور طلباء کو سماجی لحاظ سے مدارس کی چاردیواری کے اندر مقید کردیا ہے۔

 تحقیقی کام نہ ہونے کے سبب علماء کرام کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ”الحاد“ تیزی سے دنیا کا تیسرا بڑا مذہب بنتا جارہا ہے، اس کا مشاہدہ مجھے خود ہو چکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میرے کچھ دوستوں پر ”الحاد“ کا اثر ہوا۔ ان کے سوالات ایسے تھے کہ وہ جواب کے متقاضی تھے مگر مجھ ناچیز کے پاس ان کے جوابات نہیں تھے۔ وہ سادہ الفاظ میں یہ کہہ رہے تھے کہ ان سوالات پر ہماری تسلی کر دو تاکہ ہماری بے چینی ختم ہو سکے۔

بخدا میں اس سلسلے میں کئی علماء، مفتیان کرام سے ملا، جامعہ بنوری کراچی تک خطوط لکھے، سوالات کے جوابات تو درکنار، کسی نے یہ معلومات تک نہ دیں کہ دور جدید کے ”ملحدین“ کے سوالات کے جوابات پر مبنی کوئی تسلی بخش کتاب بھی موجود ہے یا نہیں؟ وہی فتوے کا ڈنڈا کہ ”یہ تو مرتد ہیں، چھوڑ دو ان کو“، پھر مارکیٹ کا رخ کیا، اسلامی اور عام کتاب گھروں کو کھنگالا مگر سوائے پروفیسر احمد رفیق اختر کی کتاب ”بنیادی انحراف“، ترک مصنف بدیع الزمان سید نورسی کی کتاب ”رسالہ نور“ اور ڈاکٹر ذاکر نائیک کی کچھ کتب کے علاوہ ہمارے علماء کا لکھا کچھ بھی موجود نہ تھا، قصہ المختصر یہ کہ مذکورہ کتابیں تو میں نے خرید لیں مگر میرے حواس پر یہ بات طاری ہوگئی کہ علماء کا اس بابت امت کی راہنمائی نہ کرنا انتہائی مجرمانہ فعل ہے۔

میرے خیال میں مدارس میں تصنیف و تالیف، تبلیغ و تکلم، تقریر و تحریر، تدریس اور تلقین، کی باقاعدہ کلاسز کے ساتھ ساتھ ”فتنہ الحاد“ اور امت کو درپیش دیگر جدید مذہبی مسائل پر تحقیق و تدوین کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ عصری علوم اور فرد و معاشرے کے بشری تقاضوں اور سماجی ضروریات کے مطابق طلباء کو تیار کرنے کے لحاظ سے چند گنے چنے مداراس ایسے بھی ہیں جو سب مدارس کے لئے مشعل راہ ہیں، اس ضمن میں جامعہ علوم اسلامیہ کراچی، دارالعلوم اسلامیہ کراچی اور جامعة الرشید کراچی کی کاوشیں اور نصابی ترامیم قابل ستائش ہیں، ابھی کا ریکارڈ تو معلوم نہیں مگر 2011 میں جامعۃ الرشید کراچی (جو اپنے شعبہ فلکیات کی وجہ سے اسلامی دنیا میں بھی مشہور ہے ) نے علماء کے لیے ایم بی اے ڈگری کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کا تیسرا بیج فارغ ہورہا تھا، اس طرح اسی مدرسے نے یونیورسٹیوں کے پڑھے جدید تعلیم یافتہ جوانوں کے لیے کلیۃ الشریعہ کے نام سے چار سال میں عالم بنانے کا کورس شروع کیا ہوا تھا اور اس کا بھی چوتھا بیج چل رہا تھا، مدرسے میں جدید لائبریری، کمیپیوٹر کورسز اور انگریزی سیکھنے کا اہتمام کیا گیا تھا۔

نئی صدی کے علوم کو سمجھنے کے لئے انگریزی زبان کی سمجھ بوجھ بین الاقوامی طور پر ایک ضرورت بن چکی ہے، اس لیے طلباء کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع کرنے کے لئے سب مدارس میں انگریزی کو بطور زبان پڑھانا، شخصی نکھار کے لئے ایسا تربیتی نصاب جس سے عدم برداشت، درشتی اور چڑچڑے پن کے رویوں کی بیخ کنی ہوتی ہو، طلبا کے لئے نہایت ضروری ہے۔ بہرحال، جب تک درس نظامی میں معنویت اور جواز کے لحاظ سے مردہ علوم کی جگہ زندہ اور عصری علوم کو شامل نہیں کیا جاتا، عالمی سازشوں سے مدارس کو نہیں بچایا جاتا، مدرسہ ارتقاء کی چکی میں پِس کر نظریاتی طور پر ختم ہوکر آثار قدیمہ کی عمارت کی طرح رہ جائے گا، جس کی کوکھ سے علماء سؤ کی ایک ایسی کھیپ برآمد ہوگی جس کا ذریعہ آمدن دین فروشی اور مذہب فروشی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

جو دین اسلام اور جمہوری آئین کے فیصلوں کا توڑ مروڑ ایک نہج پر لے آئیں گے، فرمائشی خوشآمدانہ اور کفریہ مہر والے فتوؤں سے معاشرے میں فتنوں کے وہ بگولے اٹھیں گے جو ہماری دنیا اور آخرت دونوں تباہ کردیں گے، مقصد یہ کہ مدارس کے پورے نصاب و نظام کے لئے عصری تقاضوں کے مطابق مبنی پر حقیقت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، نصاب میں مذکورہ تبدیلیوں سے ہی مدارس کی کارکردگی دنیاوی درسگاہوں کی بہ نسبت بہتر بنا کر فکر وتحقیق کے اعلی اساسی اداروں کی حیثیت سے برقرار رکھی جاسکتی ہے، اور یہی تبدیلیاں مدارس کے نظریاتی بقاء اوراس پرفتن دور میں مسلم معاشرے کی بنیادوں کے لئے ضروری ہیں۔

(نوٹ: اگر کسی کو یہ اعتراض ہو کہ کالجوں کو دینی علوم کے اجراء کے مشورے کیوں نہیں دیے جاتے تو گزارش یہ ہے کہ کالجز ہمارے عقائد کے محافظ نہیں، نہ ہی ہمارے دین مبین کے ذمہ دار ہیں، مدارس کی خامیوں پر ہم اس لیے تڑپ اٹھتے ہیں کہ اسلام کی بقا انہی مدارس کی مرہون منت ہے، انبیاء کا کام انہی مدارس اور علماء کا ہے، اس لیے چاہے کسی کو اچھا لگے یا برا، جو میرے ضمیر اور ذہن میں تھا، لکھ دیا، اختلاف ہر کسی کا حق ہے، جسے خوش آمدید کہا جائے گا)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3