رضا ربانی کی ’’پہلی محبت‘‘ اور سینیٹر مشتاق کی منطق


جن دنوں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو اس کالم کے علاوہ میں The Nationکے لئے پریس گیلری بھی لکھتا ہوں۔ گیلری والا کالم پارلیمانی کارروائی کی تکنیکی اعتبار سے محض رپورٹنگ نہیں ہوتا۔ایوان میں اٹھائے سوالات یا کسی موضوع پر ہوئی تندوتیز بحث اکثر کوئی ایک نکتہ اجاگر کر دیتی ہے۔ اسے ذہن میں رکھتے ہوئے تاریخی حوالوں کے تناظر میں تجزیہ کی کوشش ہوتی ہے۔ مزے کا موضوع مل جائے تو پارلیمان میں موجودرہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔گھر پہنچ کر کمپیوٹر کھول کر کالم لکھنے کی عجلت لاحق ہوجاتی ہے۔

پیر کی شام پارلیمان کی تیسری منزل پر واقع پریس لائونج میں داخل ہوا تو 15سے 20رپورٹروں کا گروہ ایک کونے میں نمایاں بیٹھا نظر آیا۔ فرض کرلیا کہ کوئی اہم موضوع زیر بحث ہوگا۔ فوراََ وہاں پہنچا تو دریافت ہوا کہ میرے دیرینہ دوست سینیٹر رضا ربانی ان دوبلوں کی جزئیات تفصیل سے بیان کررہے ہیں جو چند ہی لمحے قبل انہوں نے ایوانِ بالا سے منظور کروائے تھے۔

پہلے بل کے ذریعے حکومت کے لئے یہ لازم ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ کسی شخص کو ECLپر ڈالنے کے چوبیس گھنٹے بعد اسے تحریری طورپر آگاہ کرے کہ کن وجوہات کی بنا پر وہ شخص بیرون ملک سفر کرنے کا حق کھوبیٹھا ہے۔سینٹ سے منظوری کے بعد یہ بل اس وقت تک قانون نہیں بنے گا جب تک قومی اسمبلی بھی اس کی منظوری نہیں دیتی۔ مجھے خبر نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت اس بل کو پاس کروانے کی ضرورت محسوس کرے گی یا نہیں۔ تھوڑی لیت ولعل کے بعد رضا مند ہوبھی جائے تو مذکورہ بل کو قانونی حیثیت مہیا کرنے میں کئی ماہ گزرجائیں گے۔ رضا ربانی مگر ’’جومیرا فرض تھا میں نے پورا کیا‘‘ والی کیفیت سے مطمئن نظر آرہے تھے۔

ECLوالے بل سے بھی کہیں زیادہ خوشی انہیں دوسرا بل منظور کروانے کی وجہ سے ہورہی تھی۔ اس بل کے ذریعے 22سال کی طویل جدوجہد کے بعد رضا ربانی نے بینکوں کے ملازمین کو ٹریڈیونین بنانے کا حق دلوایا ہے۔ نواز شریف نے چند بینکوں کو سرکاری تحویل سے نکال کر نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کی خواہش کو عملی شکل دینے کے لئے ان اداروں میں ٹریڈ یونینز پر اپنی پہلی حکومت کے دوران پابندی لگائی تھی۔

اپنے ایام جوانی میں رضا ربانی بائیں بازو کے ایک متحرک کارکن رہے ہیں۔ اداروں میں کارکنوں کو یونین سازی کا حق وہ بہت شدت سے دلوانے میں مصروف رہے۔پیر کے روز انہوں نے ایک حوالے سے اپنی ’’پہلی محبت‘‘ کو زندہ رکھا۔ اس محبت کا ’’پھل‘‘ پاکروہ بہت خوشی محسوس کررہے تھے۔ میں ان سے کافی بے تکلف ہونے کے باوجود سرِ محفل انہیں ’’کس زمانے کی بات کرتے ہو-دل جلانے کی بات کرتے ہو‘‘ والا طعنہ دیتے ہوئے پھکڑپن سے بازرہا۔

پریس لائونج میں سی سی ٹی وی کے ذریعے قومی اسمبلی اور سینٹ کی کارروائی دکھائی جارہی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی اس وقت ’’وقفے‘‘ میں تھی۔ سینٹ کا اجلاس مگر جاری تھا۔ میں نے سوچا کہ دیکھ لیا جائے کہ وہاں کونسا معاملہ زیر بحث ہے۔ذرا توجہ دی تو احساس ہوا کہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر مشتاق صاحب ’’تحدیدِ آبادی‘‘ یعنی فیملی پلاننگ یا خاندانی منصوبہ بندی کیخلاف تقریر کررہے ہیں۔

دین کے نام پر بنی سیاسی جماعتوں کے نمائندگان عموماََ خاندانی منصوبہ بندی جیسے تصورات کو رد کرنے کے لئے کلام پاک یا احادیث سے حوالے ڈھونڈ کر انہیں اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جس وقت میری توجہ مشتاق صاحب کی تقریر پر مبذول ہوئی اس وقت یہ معزز سینیٹر مذہبی دلائل پر اکتفا نہیں کررہے تھے۔ ان کا انداز بہت دھیما اور حیران کن حد تک منطقی تھا۔ ان کے مؤثر اندازِ بیان نے مجھے رضا ربانی سے رخصت لئے بغیر ایک کونے میں دبک کر ان کے خیالات کو غور سے سننے کو مجبور کردیا۔

سینیٹر مشتاق صاحب نے دعویٰ کیا کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی دعوت پر انہوں نے اس ملک میں ایک ماہ کا طویل مطالعاتی دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران چین کا خاندانی منصوبہ بندی والا پروگرام بھی مستقل زیر بحث رہا۔ یاد رہے کہ 1980 کی دہائی میں چینی حکومت نے ریاستی قوت کے بھرپور استعمال کے ساتھ ہر خاندان کو ’’فقط ایک بچہ‘‘ پیداکرنے پر مجبور کیا تھا۔

سینیٹر مشتاق صاحب نے اصرار کیا کہ ان دنوں چینی حکومت ’’فقط ایک بچہ‘‘ والی پالیسی سے حاصل ہوئے نتائج سے بہت پریشان ہے۔’’فقط ایک بچہ‘‘بہنوں اور بھائیوں والے رشتے سے قطعی ناآشنا ہے۔جوانی تک پہنچتے ہوئے وہ صرف ماں اور باپ سے رشتے کو جانتا ہے۔بلوغت تک پہنچتے ہوئے اس رشتے کی اہمیت بھی بتدریج کم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور بعدازاں ملازمت مل جانے کے بعد اپنے ماں باپ سے جدا ہوکر کسی دوسرے شہر چلاجاتا ہے۔ بالآخر ’’خاندان‘‘ کی اہمیت سے بیگانہ ہوجاتا ہے۔

مشتاق صاحب نے جو داستان سنائی اسے علم سماجیات کے کئی ماہرین تواتر سے بیان کرتے رہے ہیں۔ان ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’فقط ایک بچہ‘‘ والی پالیسی نے چین کو جو نئی نسل دی ہے وہ ’’خودپسند شہزادوں‘‘ پر مشتمل ہے۔یہ ’’شاہزادے‘‘ انسانی رشتوں کی قدر نہیں جانتے۔ خود کو فقط ایک ’’فرد‘‘ تصور کرتے ہوئے ’’مشین‘‘ کی صورت دن رات اپنا کیرئیر بنانے میں مصروف رہتے ہیں۔انسانی رشتوں سے ناآشنا ہوئے ان ’’شاہزادوں‘‘ میں رحم کا جذبہ دکھائی نہیں دیتا۔ وہ انسانوں سے محبت کے قابل نہیں رہے۔

مشتاق صاحب اپنے انداز میں ایسا ہی تجزیہ پیش کرتے نظر آئے۔اگرچہ ان کا دعویٰ تھا کہ چینی حکومت اب مختلف النوع ترغیبات کے ذریعے اپنے لوگوں کو قائل کررہی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ بچے پیدا کریں۔ یہ ترغیبات درحقیقت چینی معاشرے میں ’’خاندان‘‘ اور اس سے جڑے رشتوں کے احیاء کی کوشش ہے۔

چین کے علاوہ سینیٹر مشتاق صاحب نے کئی یورپی ممالک کے حوالے بھی دئیے۔ جاپان کا خاص طورپر ذکر کیا جہاں بوڑھوں کی تعداد وہاں موجود نوجوانوں سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اس تعداد کے سبب جاپانی معیشت میں وہ توانائی اب نظر نہیں آتی جو 1970یا 1980کی دہائی میں دُنیا کو حیران کئے ہوئے تھی۔

چین،جاپان اور یورپی ممالک کے حوالے دیتے ہوئے مشتاق صاحب نے پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کے نظام کو لاگو کرنے کی مخالفت کی۔اصرار کیا کہ آبادی میں اضافے کو پاکستان پر بوجھ تصور نہ کیا جائے۔عالمی تناظر میں زیادہ آبادی بلکہ ہمارا سب سے بڑا ’’سرمایہ‘‘ ہوسکتی ہے۔ ہم نوجوان نسل کی توانائی پر انحصار کرتے ہوئے پاکستان کو جدید ترین اور خوش حال ملک بناسکتے ہیں۔

ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ سینیٹر مشتاق صاحب کو مدلل تقریر کا مؤثر جواب مجھے بقیہ کارروائی میں سننے کو نہیں ملا۔ گھرلوٹنے کے بعد سے صبح اُٹھنے تک سوچتا رہا کہ مشتاق صاحب کی باتوں کے ممکنہ جوابات کیا ہوسکتے ہیں۔کوئی ٹھوس جواب ذہن میں نہیں آیا۔اگرچہ ذاتی طورپر میں کئی برسوں سے ’’کم بچے-خوش حال گھرانہ ‘‘والے تصور کا شدید حمایتی رہا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).