سابقہ حکمرانوں پر ملبہ ڈالنے کی بجاٸے ، عملیت پسند روڈ میپ متعارف کرواٸے


تبدیلی سرکار کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے اک انٹرویو ‏میں کہا کہ اگر وزارت خزانہ نہ چھوڑتا تو میں دماغی توازن کھونے کے دہانے پر تھا۔ سیاسی عدم استحکام کے ماحول میں معاشی اصلاحات متعارف کروانا ایک چیلنج ہے۔ اب بھلا ان خود ساختہ ارسطو اور پی ٹی آئی فیس سے کوئی پوچھے کہ نواز شریف کے دور میں آپ مستقل طور پر سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے اور بالاخر اس میں کامیاب بھی ہوئے آخر اسوقت آپ لوگوں کا ایجنڈا کیا تھا؟ پھر آپ نے اقتدار ملنے کے بعد کی کیا پلاننگ کی تھی؟

نواز شریف کو نا اہل کرنے سے دو دن پہلے پیٹرول کی قیمت 66 روپے، سی این جی 58 روپے، ڈالر 104 روپے کا، اسٹاک ایکسچینج 54 ہزار کی بلند ترین سطح پر، ذرے مبادلہ 24 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح، پر لوڈشیڈنگ 2 گھنٹے تھی، مہنگائی کنٹرول میں تھی بجلی گیس کی قیمتیں کم ہو رہی تھیں، دنیا پاکستان کی معیشت کی تعریفیں کر رہی تھی پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ ایشیا کی نمبر ون مارکیٹ بن چکی تھی اگر اس بارے میں کسی کو کوئی شک ہے تو اس وقت کے اخبار اٹھا کر دیکھ لے۔

اس سب کے باوجود افسوس صد افسوس پھر بھی آج کے بھان متی کنبہ سے تعلق رکھنے والے حکمران کہہ رہے ہیں کہ پچھلی حکومت نے ملک کو تباہ کیا اب جب کہ اسد عمر بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ پچھلی حکومت 17 ارب ڈالر خزانے میں چھوڑ کر گئی اور آج آٹھ ماہ سے زائد گزر جانے کے بعد اس حکومت کے پاس خزانہ صرف 8 ارب ڈالر رہ گیا اور سونے پر سہاگہ اب نہ تو تین ارب روزانہ کی کرپشن ہو رہی ہے اور نہ ہی اب کرپٹ حکمران ملکی وسائل پر قابض ہیں جس کا ڈھنڈورا تبدیلی سرکار کے مہان لیڈر سالہا سال سے کر رہے تھے۔

منگل کو وقفہ سوالات کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے سینٹ کو بتایا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پہلے پانچ ماہ میں 1681 ملین ڈالر غیر ملکی قرضہ حاصل کیا۔ پانچ ممالک سے مجموعی طور پر 741 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ چین سے 700 ملین ڈالر، فرانس سے 15 ملین ڈالر قرضہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق جاپان سے 26 ملین ڈالر قرضہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق 2 غیر ملکی کمرشل بنکوں سے 429 ملین ڈالر قرضہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق 6 غیر ملکی مالیاتی اداروں سے 511 ملین ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ وزارت خزانہ کے مطابق ادائیگیوں کے توازن میں مدد کے لئے سعودی عرب سے 3 ارب ڈالر یو اے ای سے 1 ارب ڈالر لیا گیا۔ جس کی وجہ سے ہر پاکستانی تقریبا مزید دس ہزار روپے کا مزید مقروض ہو گیا ہے۔

بہتان، جھوٹ اور گالم گلوچ کے بل بوتے پر حکمرانوں بنے والوں سے کاش سلیکٹ کرنے والے پوچھ سکتے کہ گزشتہ آٹھ مہینے میں ایسا کون سا بڑا منصوبہ لگایا تم نے جس سے خزانہ 17 ارب ڈالر سے 8 ارب ڈالر رہ گیا اور اندرونی اور بیرونی قرض میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا لیکن پھر بھی تبدیلی سرکار کی کارکردگی بدترین حد تک مایوس کن ہے کیونکہ بیرونی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی اور اندرونی قرضوں میں اضافے کی وجہ سے شرخ سود میں 3 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کی صرف اور صرف اک وجہ ہے کہ تبدیلی سرکار کے اردگرد نا اہلوں کا ٹولہ بیٹھا ہے جنہوں نے انہیں سلیکٹ کروانے میں معاونت کی اور بطور اے ٹی ایم شہرت پائی، اب ایسے نا اہل لوگوں کی سننا اس سرکار کی مجبوری ہے اگر تبدیلی سرکار اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی قیادت کی یہ بات سنتی کہ روپے کی قدر میں کمی نہیں ہونی چاہیے تو آج ملک پر قرضوں کا بوجھ مزید نہ بڑھتا، ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی سے غریب اور متوسط طبقے کے منہ سے حکومت نے دو وقت کی روٹی تک چھیننے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے غریب کا چولہا بند ہو گیا تاجر رو رہا ہے، 5 سال قرضوں کی مخالفت کرنے والوں نے اقتدار میں آتے ہی ریکارڈ قرضہ لیا اور ابھی آئی ایم ایف کے پاس بھی مزید قرضہ لینے کے لئے جانے لگے ہیں جبکہ ان کا دعوی تھا کہ قرض لینے کے بجائے خودکشی کر لیں گے۔

خودکشی کے دعوی کرنے والوں نے ابھی تک نہ کوئی پالیسی بنائی نہ کوئی منصوبہ شروع کیا نہ تاجروں کے لیے کچھ کیا نہ کسان کے لیے کوئی پیکیج اور نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف دیا۔ اگر کچھ کیا بھی تو صرف مہنگائی کی اور چندہ مانگا اگر یہ ساری تبدیلی ہے تو بقول حسن نثار لعنت ہے ایسی تبدیلی پر، اس تبدیلی کی آڑ میں معملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ اب ان کو ٹھیک کرنا شاید کسی کے بس میں نہ ہو پاکستان کی معیشت، سیاست، ثقافت سماجیات میں اتنا بگاڑ پیدا ہو چکا ہے کہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کوشش کی جاتی ہے تو دوسرا سر اٹھا لیتا ہے اوپر سے اظہار آزادی کے شوق میں اینکرز، تجزیہ نگار، کالم نگار، ریٹائرڈ سول اور ملٹری بیورو کریٹس ہر معاملے میں اظہار خیال کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ہر حکمرانی کے دوران پیدا کی جانے والی خرابیوں کی ذمہ داری ماضی کے حکمرانوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ اس تمام سیاسی اور سماجی عمل کا حصہ رہے ہیں نری سادگی سے ملک نہیں چلائے جاتے ہیں بلکہ اس کے لیے ویژن اور پیدا واری صلاحیتوں کو بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو کہ موجودہ حکومت کے پاس ناپید ہے۔

اس لئے ہمیں غیر معمولی ذہانت رکھنے والی قیادت کی ضرورت ہے خلائی مخلوق کے تعاون یا خلائی قلعوں کی تعمیر سے سماج کو اٹھایا نہیں جا سکتا، سعودی عرب چین اور آئی ایم ایف کے تعاون سے ہم معاشی گرداس سے وقتی طور پر تو نکل سکتے ہیں مگر ہمیں ملک کی معاشی اور صنعتی بنیادوں کو مضبوط کر کے آگے بڑھنا ہے اس لیے تبدیلی سرکار کو تمام اداروں کو ایک پیج پر ہونے کا دعویٰ کرنے اور مخالفین کو نشانہ بنانے کی بجائے تبدیلی کے عملیت پسند روڈ میپ کو متعارف کروانا ہوگا تا کہ معیشت کے پہیے کو متحرک کیا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).